Episode 37 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 37 - زنجیر - فاروق انجم

”مختصر بتاتا ہوں۔میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔نہ آگے اور نہ پیچھے۔کسی کے ظلم کا شکار ہوکر میں فرار ہوا تھا اور آپ لوگوں کے ہاتھ لگ گیا۔“جنید نے اختصار سے کام لیا۔
”یہ تو اور بھی اچھا ہے۔تمہیں کہیں جانے کی فکر بھی نہیں ہوگی۔اب میر ا کام سنو۔ساتھ والے گاوٴں میں ملک صادق نام کا ایک آدمی کی حویلی ہے۔وہ اپنے گاوٴں میں صابن کی فیکٹری لگانا چاہتا ہے۔
یہ مشورہ اس کے خاص آدمی منظور نے میرے مشورے سے دیا تھا ۔صابن کی فیکٹری لگانے کے لئے وہ ایک دم راضی ہوگیا۔کیونکہ اسے سبز باغ ہی ایسا دکھایا گیا تھا کہ وہ خیالوں میں دولت سمیٹنے لگاتھا۔دل اور دماغ کا لالچی جو ہے۔اب منظور کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کو شہر سے لے کر آئے جو صابن کی فیکٹری چلانا جانتاہو۔

(جاری ہے)

جس کا تجربہ ہو۔منظور اس آدمی کو شہر سے لینے کے لئے گیا ہوا ہے کیونکہ اس نے ملک صادق کو یہ بتایا تھا کہ اس کا ایک جاننے والا ہے جو کئی سالوں سے ایک مشہور صابن کی فیکٹری چلا رہا ہے۔

”اس میں مجھے کیا کرنا ہے۔“
”یہ سارا منصوبہ میں نے جیل میں بنایا تھا۔اور اس پر کام میرے بیٹے کرتے رہے۔منظور میرا خاص آدمی ہے۔جبکہ حقہ وہ ملک صادق کا بھرتا ہے۔منظور شہر اس آدمی کو لینے نہیں گیا بلکہ وہ میری حویلی میں موجود ہے۔کل تم اس کے ساتھ چلے جاوٴ گے۔اور اپنے آپ کو یہ ظاہر کرو گے کہ تم صابن کی فیکٹری کو چلانا جانتے ہو۔
”یہ کام مجھے آتا ہے۔میں بیک وقت صابن،گتہ اور گھی کی فیکٹری کی دیکھ بھال کرتا رہا ہوں۔“جنید مسکرایا۔
”یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔“ملک خلیل خوش ہوگیا۔”تم کو ملک صادق اپنی حویلی میں رکھے گا۔ملک صادق کی ایک بیٹی ہے جس کا نام سنبل ہے۔اس کے خیالات بہت اونچے ہیں۔شہری بابو سے شادی کرنے کے خواب دیکھتی ہے۔گاوٴں کے کسی جاہل اور خاندان کے کسی لڑکے کو خاطر میں نہیں لاتی۔
وہ تمہیں دیکھے گی تو تمہاری طرف ایسے کھینچتی ہوئی آئے گی جیسے مقناطیس کی طرف لوہا جاتا ہے۔تم اس کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر حویلی سے بھگا کر میری حویلی میں لے آوٴ گے اور بس تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔تم اپنی راہ چلے جانا اور باقی کام ہمارا ہوگا۔ہم ملک صادق کو کیسے ذلیل اور رسوا کرتے ہیں یہ سارا گاوٴں دیکھے گا۔“ملک خلیل نے بتانے کے بعد اپنے ہاتھ جھاڑے۔
”یہ کام ٹھیک نہیں ہے۔میں ایسا نہیں کروں گا۔“جنید نے سنتے ہی انکار کردیا۔
”تم کام کرنے کی حامی بھر چکے ہو۔“
”مجھے کام کی نوعیت کا پتا نہیں تھا۔
”انکار کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔اس گاوٴں میں بھی تم پر ہماری نظر ہوگی۔دائیں بائیں ہمارے کئی آدمی ہیں۔تم بھاگنے کی کوشش کرو گے تو گولی تمہارا مقدر ہوگی۔اس لئے وہاں سے بھی بھاگنے کی کوشش کرنا تو دور کی بات اس بارے میں سوچنا بھی نہیں۔
“الیاس ایک دم چیخ کر بولا۔”چپ چاپ ویسا ہی کرنا جیسا ہم نے کہا ہے۔“
”ملک صادق سے ہم اپنا انتقام کسی دوسرے طریقے سے بھی لے سکتے ہیں لیکن جس طرح اس نے ہماری بیٹی کو رلایا ہے،اس کی زندگی برباد کی ہے ہم بھی اسی طرح اس کی بیٹی کی زندگی برباد کرکے ملک صادق کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔“اس بار سلیم بولا۔
جنید لاچار ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
اس نے سوچا کہ اب مزید ان کے آگے انکار یا بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔بہتر ہے کہ وہ چپ چاپ ان کی بات مان کر منظور نام کے شخص کے ساتھ ملک صادق کی حویلی میں چلا جائے۔اور کسی ماہر بزنس مین کی طرح ان سے بات چیت کرتا رہے۔جیسے ہی اسے موقعہ ملے گا وہ اس جگہ سے فرار ہونے کی کوشش کرے گا۔لیکن انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے آدمی ملک صادق کی حویلی کے دائیں بائیں ہیں۔
جانے کون ان کا آدمی نکل آئے اور وہ تو کسی کے ساتھ کوئی بات بھی نہیں کرسکے گا،کسی کو اپنے اعتماد میں بھی نہیں لے سکے گا۔عجیب مشکل کھڑی ہوگئی تھی۔پھر بھی جنید نے یہ ہی فیصلہ کیا کہ وہ فی الحال ان کی بات مان کر آگے چلتا ہے۔جو راستہ اسے بہتر نظر آئے گا اس پر وہ عمل کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔
وہ تینوں باپ بیٹے باری باری جنید کو سمجھانے لگے۔
اس کو کیاکرنا ہے۔کیسے رہنا ہے اور کس طرح سے ملک صادق اور اس کے بیٹوں کے دل میں گھر کرنا ہے،وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کے دماغ میں ڈالنے لگے۔
کچھ دیر کے بعد انہوں نے منظور کو بھی اسی کمرے میں بلا لیا۔ایک دوسرے کا تعارف کرانے کے بعد جب الیاس چپ ہوا تومنظور نے جنید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تمہیں ان لوگوں نے سب کچھ سمجھا تو دیاہے۔
باقی تم بھی سمجھ دار ہو۔بس اتنی بات یاد رکھنا کہ اس حویلی میں اور بھی میری طرح ملک خلیل کے آدمی ہیں۔کوئی گڑبڑ نہیں کرنی۔“ حقیقت یہ تھی کہ ملک خلیل کا ملک صادق کی حویلی اور پورے گاوٴں میں منظور کے علاوہ کوئی اور آدمی نہیں تھا۔لیکن محض جنید کے دل میں خوف پید اکرنے کے لئے انہوں نے ایسا کہا تھا۔وہ اپنی اس بات میں کامیاب بھی ہوگئے تھے ۔
جنید ابھی سے اس نفسیاتی خوف میں مبتلا ہوگیا تھا کہ وہ اس گاوٴں سے فرار نہیں ہوسکے گا۔اسے بہت سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا ہوگا۔
”ایک بات پوچھوں۔“جنید نے کہا۔
”ہاں پوچھو۔“ملک خلیل بولا۔
”جب منظور جیسا آدمی اس حویلی میں موجود ہے تو پھر اس کام میں میری کیا ضرورت ہے۔ملک صادق کی بیٹی کو یہ شخص بھی تو کسی بہانے سے اس حویلی سے نکال کرآپ لوگوں کے حوالے کرسکتا ہے۔
“ جنید نے سوال کیا۔
اس کی بات سن کر ملک خلیل اور منظور ہنسنے لگے۔جبکہ الیاس اور سلیم بھی مسکرانے لگے۔ پھر ملک خلیل بولا۔
”ایسا بھی ہوسکتا ہے۔لیکن پھر منظور نظر میں آجائے گا۔منظور کو ہم چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ بات اسی جگہ ختم نہیں ہوجائے گی جب اس کی بیٹی کسی لڑکے ساتھ اس حویلی سے اس گاوٴں سے بھاگے گی۔اور دوسری بات یہ کہ جو بدنامی ملک صادق کی تمہارے ساتھ اس کی بیٹی کے بھاگنے سے ہوگی وہ کسی دوسرے طریقے سے نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ بھی کچھ اور باتیں بھی ہمارے دماغ میں ہیں۔تم ان باتوں کے بارے میں زیادہ مت سوچو۔“
”اب مجھے تم یہ بتادو کہ تم کس کمپنی کا نام لو گے جہاں تم کام کرتے تھے۔تاکہ وہی کچھ میں بھی بتاوٴں۔“منظور نے کہا۔
”یہ باتیں تم راستے میں اس سے پوچھ لینا۔“ملک خلیل بولا۔
”تو پھر ہم چلیں۔“منظور کھڑا ہوگیا۔
”تمہارے پاس ان کپڑوں کے علاوہ بھی کپڑے ہیں۔
“ایک دم سے سلیم نے سوال کیا۔
”بس میرے پاس یہی جوڑا ہے۔“
”شہر میں ہمارا ایک جاننے والے کی دکان ہے۔وہاں سے کپڑے تمہیں پہنچ جائیں گے۔منظور تم اس کے سوٹ کیس کا کوئی بہانہ کردینا۔“
”وہ میں کردوں گا۔اس کا سائز وغیرہ لکھ لو۔اور کپڑے مہنگے لانا عام سے نہ اُٹھا لانا۔“ منظور نے تاکید کی۔
اسی اثنا میں جنید کا موبائل فون بول پڑا۔
جنید نے چونک کر اپنی جیب سے موبائل فون نکالا۔اسکرین پر ہاشم زبیری کا نام آرہا تھا۔ابھی جنید سوچ ہی رہاتھا کہ وہ کیا کرے،ملک خلیل نے اس کے ہاتھ سے موبائل فون لے کر اپنے بیٹے الیاس کو دے دیا۔اس نے موبائل فون بند کیا اور اس کی بیٹری نکال کر اپنی جیب میں رکھ لی۔جنید بولا۔
”میرے پاس موبائل فون نہیں ہوگا تو وہ کیا سمجھیں گے،اتنی بڑی کمپنی میں کام کرنے والے کے پاس موبائل فون نہیں ہے۔آج کل تو ایک معمولی مزدور کے پاس بھی موبائل فون ہوتا ہے۔“
”موبائل فون اور نیا کنکشن ہم دیں گے۔آوٴ چلیں۔“الیاس بولا اور وہ سب کمرے سے باہر نکل گئے۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum