Episode 38 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 38 - زنجیر - فاروق انجم

جس کار میں جنید گاوٴں پہنچا وہ کار ملک صادق کی تھی اور اس نے خاص طور پر منظور کو دی تھی تاکہ وہ شہر سے اس آدمی کو لا سکے جو ان کی فیکٹری پر کام کرسکے۔اس کا رکو ملک صادق کا ڈرائیور چلا رہا تھا۔یہاں بھی منظور نے ایک چال چلی تھی۔
شہر جاتے ہوئے اس نے ڈرائیور سے پوچھنا شروع کردیاکہ وہ کتنے ہفتوں سے اپنے بیوی بچوں کے پاس نہیں گیا۔ڈرائیور نے بتایا کہ وہ دو ماہ سے اپنے بیوی بچوں کے پاس نہیں جاسکا۔
اسے چھٹی ہی نہیں ملی۔منظور جانتا تھا کہ وہ کس گاوٴں میں رہتا ہے۔اس نے اس کے ساتھ ہمدردی کی اور ایک تجویز پیش کی کہ وہ اگر اپنے بیوی بچوں سے ملنا چاہتا ہے تو وہ اس کا ساتھ دے سکتا ہے۔ڈرائیور نے پوچھا کہ کیسے۔؟
منظور نے کہا وہ اسی جگہ اُتر جائے اور اپنے گاوٴں چلا جائے شام کی کو واپسی پر وہ اسی جگہ سے اسے لے لے گا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دے گا۔

(جاری ہے)

جو باپ اپنے بچوں اور بیوی سے دو ماہ سے نہ ملا ہو اسے اور کیا چاہئے تھا۔وہ تو ایک دم تیار ہوگیا۔منظو رکار چلانا جانتا تھا۔جس سڑک پر اس کی کار دوڑ رہی تھی اسی راستے پر ڈرائیور کا گھر تھا۔اس نے کار ایک جگہ روکی اور منظور نے کار کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ڈرائیور اپنے گاوٴں کی طرف چل پڑا اور منظور نے کار کا رخ ملک خلیل کے گاوٴں کی طرف کردیا۔
واپسی پر ڈرائیور اسی جگہ مقررہ وقت پر منظور کامنتظر تھا۔منظور نے کار کھڑی کی اور اور ڈرائیور سیٹ اس کے حوالے کرنے کے بعد اس کے کان میں بولا۔
”گھبراوٴ نہیں یہ شہری بابوکچھ نہیں بولے گا۔“
ڈرائیور بہت خوش تھا کہ وہ اپنے گھرسے ہوآیا تھا۔جنید اگر چاہتا تو اسی جگہ سے فرار ہوسکتا تھا۔لیکن وہ اتنا بھی ناسمجھ نہیں تھا کیونکہ اس کار کے ساتھ ملک خلیل کے آدمی کسی نہ کسی انداز میں ساتھ تھے۔
اس کا رکی مسلسل نگرانی ہورہی تھی۔کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی روپ میں کار کے دائیں بائیں آگے پیچھے دکھائی دے جاتا تھا۔جنید اطمینان سے بیٹھ گیا۔اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ فرار میں اتنی جلدی نہیں کرے گا۔
کار ملک صادق کی حویلی میں داخل ہوگئی ۔منظور اپنے ساتھ جنید کو حویلی کے اندر لے گیا اور مہمان خانے میں بیٹھا دیا۔کچھ دیرکے بعد ملک صادق اپنے بیٹے کے ساتھ آگیا۔
اس نے پرتپاک انداز میں جنید کے ساتھ مصافحہ کیا۔ملازموں کی فوج جنید کی خدمت پر مامور ہوگئی تھی۔ جنید تو اس جگہ کسی خاص مہمان کی طرح تھا۔ایک لمحے میں اس کے دل میں خیال آیا کہ ہاشم زبیری اور اس کے آدمیوں کی نظر سے بچنے کے لئے یہ اچھی جگہ ہے۔وہ چند دن اس جگہ رہ کر چھپ بھی سکتا ہے اور اپنی خوب خدمت بھی کرسکتا ہے۔جبکہ ملک صادق کی سرشت میں لالچ تھی۔
وہ اس کی خدمت میں اس لئے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا کیونکہ منظور نے صابن کی فیکٹری میں منافع ہی اتنا بتایا تھا کہ ملک صادق کو چین نہیں آرہا تھا۔وہ تو چاہتاتھا کہ راتوں رات صابن کی فیکٹر ی کھڑی ہوجائے۔منظور اس بات کا فائدہ اُٹھانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ملک صادق نے بات کا آغاز کیا۔
”میں اس گاوٴں میں صابن کی بہت بڑی فیکٹری لگانا چاہتا ہوں۔
منظور بتارہا تھا کہ اس کاروبار میں بہت فائدہ ہے۔“
”فائدہ اتنا ہے کہ آپ ایک سال میں اس سے بڑی دو فیکٹریاں لگا سکتے ہیں۔“جنید نے یہ بات کہہ کر ملک صادق اور اس کے بیٹوں کی مزید رال ٹپکائی۔
”تو پھر آپ کب کام شروع کررہے ہیں۔“ملک صادق کی بے چینی میں اور بھی اضافہ ہوگیا تھا۔
”میں تو کام کرنے کے لئے آگیا ہوں۔منظور صاحب کے ساتھ میرے والد صاحب کا پرانا تعلق ہے۔
میں جس کمپنی سے آیا ہوں اس کمپنی میں مجھے اچھے پیسوں کے علاوہ بہت سی مراعات بھی ملتی تھیں۔یہ کہہ رہے تھے کہ آپ مجھے میرا حق دیں گے،میں کام پورا کروں گا۔آپ پہلے میرے ساتھ ڈیل کرلیں کہ آپ مجھے کیا دیں گے۔کب تک مجھے یہاں رکنا ہوگا۔میں ابھی سے کام شروع کردیتا ہوں۔“جنید نے بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور بلا تامل کہہ دیا۔
اس کی بات سن کر منظور کو کچھ حیرانی بھی ہوئی کہ یہ بات اس نے نہیں کہی تھی۔
”پیسے کی پرواہ نہیں ہے۔ہماری فیکٹری کھڑی کردو۔جو آپ چاہو گے میں وہی دوں گا۔“ملک صادق نے کہا۔
”مجھے رہنا کہاں ہوگا۔“
”ہمارے پاس الگ جگہ ہے رہائش کے لئے…“
جنید نے ایک نظر منظور کی طرف دیکھ کر جلدی سے اس کی با ت کاٹ کر کہا۔”میں اس سے پہلے کبھی کسی گاوٴں میں نہیں رہا۔
میں اسی حویلی میں رہوں گا۔اور میرا کمرا ہوا دار ہونا چاہئے۔“جنید بڑے اعتماد سے بات کررہا تھا۔وہ یہ بات جان گیا تھا کہ ملک صادق اور اس کے آدمی اب اس کے مرہون منت ہیں۔وہ جو کہے گا یہ مانیں گے کیونکہ ان کو فیکٹری میں بہت بھاری منافع دکھائی دے رہا ہے۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔بلکہ یہ تو میری دلی خواہش تھی۔“ملک صادق فوراً بولا۔
”کیا آپ مجھے کمرا دکھا سکتے ہیں ۔مجھے کچھ دیر آرام کرنا ہے اور پھر میں اپنی سیلری کی تفصیل لکھ کر آپ کو دے دیتا ہوں۔آپ کی منظوری کے بعد میں کام شروع کردیتا ہوں۔اگر میری شرائط اور سیلری منظور نہیں ہوگی تو ہم دونوں ایک دوسرے کا وقت ضائع نہیں کریں گے۔“ جنید بولا جبکہ منظور اس کا منہ دیکھ رہا تھا۔
”آپ کچھ لکھ کر دیں یا نہ دیں مجھے منظور ہے۔
“ملک صادق نے کہا۔”جو مانگنا ہے اورجتنا مانگنا ہے مجھے ابھی بتادیں۔“
”نہیں…بات طے کرنے سے پہلے میں کام شروع نہیں کروں گا۔یہ میرا اصول ہے ۔“ جنید بولا۔”پلیز مجھے میرا کمرا دکھا دیجئے۔“
ملک صادق نے ایک ملازم کو آواز دے کر منظور کے ساتھ اس کمرے کی طرف بھیج دیا جو اس نے پہلے ہی خاص طور پر اس کے لئے تیار کرایا تھا۔
جنید کے لئے جو کمرا تیار کروایا گیا تھا وہ حویلی کی دوسری منزل پر تھا۔
وہ کشادہ کمرا تھا۔کمرے سے ملحق باتھ روم بھی تھا اور ایک بڑی کھڑکی کے آگے ٹیرس کی طرح جگہ بھی بنائی ہوئی تھی۔کمرا ہوا دار اور روشن تھا۔ملازم ان دونوں کو اس کمرے تک چھوڑ کر چلا گیا۔جنید کمرے کا جائزہ لے رہا تھا اور منظور نے دروازہ بند کرتے ہی دھیمی آواز میں کہا۔
”تم افسر بننے کی کوشش مت کرو۔یہ کیا تم نے تنخواہ کی بات چھیڑ دی ہے۔
تم سے کہا تھا کہ تم کوئی فالتو بات نہیں کرو گے۔“
جنید نے منظور کے چہرے پر اپنی نگاہیں مرکوز کرکے کہا۔”جو کام تم لوگ مجھ سے لینا چاہتے ہو وہ میں پوری زمہ داری سے کروں گا۔اور ملک صادق کی سادگی سے جو فائدہ میں اُٹھانا چاہوں گا اس میں تم لوگ نہیں بولو گے۔“
”تم حد سے بڑھ رہے ہو۔“
”مجھے اس حویلی میں آکر احساس ہوا کہ مجھے اپنی قیمت وصول کرنی چاہئے۔
اس لئے میرے اس معاملے میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ورنہ میں بھی کام ٹھیک سے نہیں کروں گا۔“جنید نے کہا اور کرسی پر اپنی دونوں ٹانگوں کو پھیلا کر بیٹھ گیا۔منظور اس کی طرف لاچاری سے دیکھ کر کمرے سے چلا گیا۔اس کے جاتے ہی جنید مسکرایا۔
ابھی جنید کو بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کو پیاس محسوس ہونے لگی۔اس نے متلاشی نگاہوں سے کمرے میں دیکھا وہاں پانی کا جگ موجود نہیں تھا۔
ملازم کو آواز دینے کے لئے جونہی جنید نے دروازہ کھولا،اس کی آواز حلق کے اندر ہی رہ گئی۔کیونکہ سامنے اپنا پالتو طوطا اپنے کندھے پر بیٹھائے ملک صادق کی بیٹی سنبل سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سنبل اسی جگہ رک گئی۔
سنبل خوبصورت تھی۔اس نے لباس بھی اچھا پہنا ہوا تھا۔لگتانہیں تھا کہ وہ کسی گاوٴں کی رہنے والی لڑکی ہے۔
اپنی حویلی میں ایک وجیہہ نوجوان کو دیکھ کر سنبل کے لئے آنکھیں جھپکنا مشکل ہوگیا تھا۔لگتا تھا جیسے سنبل کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔وہی خواب جو وہ روز دیکھا کرتی ہے کہ ایک خوبصورت پڑھا لکھا نوجوان اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو ایک نئی دنیامیں لے جائے گا جہاں خوشیاں قوس و قزح کی طرح برس رہی ہونگی۔سنبل نے جنید کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا کیا یہ خواب ہے کہ حقیقت…اگر حقیقت ہے تو کیااس کو خواب کی تعبیر ملنے والی ہے۔؟اسی اثنا میں کوئی اور بھی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آرہا تھا۔اس کے جوتوں کی آواز سنتے ہی سنبل کو اسی حالت میں کھڑا چھوڑ کر جنید پیچھے ہٹ گیا اور کمرے کا دروازہ بند کردیا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum