Episode 39 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 39 - زنجیر - فاروق انجم

سحر بانو پوش علاقے کے بڑے عالیشان گھر میں آگئی تھی۔مشتاق احمد بظاہر تو اچھا آدمی دکھائی دے رہا تھا جو اندر سے دکھی بھی تھا،اس کے دل کے اندر کیا تھا یہ جاننا سحر بانو کے لئے ممکن نہیں تھا۔اس نے اپنی کشتی حالات پر چھوڑ دی ۔
جس شخص نے سحر بانو کو دروازے میں کھڑے ہوکر دیکھا تھا اس کا نام احتشام علی تھا۔ اس کی عمر پنتالیس سال کے لگ بھگ تھی اور وہ مشتاق احمد کا برادرنسبتی تھا۔
مشتاق احمد کی مرحومہ بیوی کے کہنے پردس سال پہلے مشتاق احمد نے احتشام کو اپنے ساتھ کاروبار میں شامل کرلیا تھا۔ احتشام پراپرٹی کا کاروبار سیکھنے کے لئے آیا تھالیکن زیرک احتشام نے کاروبار کو اپنی گرفت میں ایسا کرلیا تھا کہ وہ اندر باہر کے سارے کام اس سرعت اور زمہ داری کے ساتھ کرتا تھا کہ احتشام کو اپنے پاس رکھنا مشتاق احمد کی مجبوری بن گیا تھا۔

(جاری ہے)

احتشام کے آنے سے اب کسی پارٹی کو کوئی گھر اور زمین دکھانے کے لئے مشتاق احمد کو دفتر سے اُٹھ کر نہیں جانا پڑتا تھا۔یہ سارے کام احتشام کرتا تھا اور خرید و فروخت کے معاملات مشتاق احمد کرتا تھا۔
مشتاق احمد جتنا دل کا اچھا اور خلیق تھا،اس کے برعکس احتشام دل کا اتنا ہی چور تھا۔وہ کاروبار میں چھوٹے چھوٹے ہاتھ مارنے کی بجائے ایک ہی بار سب کو سمیٹنے کے خواب دیکھتا تھا۔
مشتاق احمد کی اولاد بیرونِ ملک آباد تھی۔بیوی خدا کو پیاری ہوگئی تھی اور مشتاق احمد کا کاروبار سنبھالنے والا سوائے احتشام کے کوئی بھی نہیں تھا۔صاف ظاہر تھا کہ مشتاق احمد کی اولاد اپنی اپنی ڈاکٹری چھوڑ کر پراپرٹی کا کاروبار سنبھال نہیں سکتی تھی۔ایک عرصہ احتشام نے انتظار کیا تھا۔ اب سب کچھ اس کو ملنے والا تھا لیکن مشتاق احمد کی زندگی کا چراغ گل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
وہ بیوی کے مرنے کے بعد جس طرح سے نڈھال ہوگیا تھا اور لگتا تھا کہ وہ اب ماضی کا حصہ بن جائے گا لیکن احتشام کی تمام اُمیدوں پر پانی پھرتا جارہا تھا کہ مشتاق احمد گزرتے دنوں کے ساتھ صحت مند بھی ہوتا جارہا تھا اور اس نے اپنے تمام غم اپنے سینے میں دفن کرکے لوگوں کے دکھ بانٹنا شروع کردیئے تھے اور اس کی زندگی طوالت اختیار کرتی جارہی تھی یہ بات دن بدن احتشام کے لئے برداشت کرنا مشکل ہوئے جارہا تھا۔
احتشام حسب معمول مشتاق احمد کو گھر سے لینے کے لئے آیا تھا۔مشتاق احمد نے آنے جانے کے لئے ڈرائیور نہیں رکھا تھا۔وہ خود گاڑی ڈرائیو کرتا تھا ،یا پھر وہ احتشام کے ساتھ کہیں آتا جاتا تھا۔جونہی احتشام نے سحر بانو کو اس گھر میں دیکھاتو وہ چونکے بغیر نہیں رہا تھا۔ایک لڑکی اور اوپر سے اتنی خوبصورت…احتشام اسے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا تھا۔
وہ اس کے سامنے نہیں آیا تھا۔اور چپ چاپ مشتاق احمد کو لے کر آفس چلا گیا تھا۔
سارا دن آفس میں مصروفیت رہی تھی اور جب کچھ وقت ملا بھی تو احتشام نے سحر بانو کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔اسی طرح دن گزر گیا تھا۔ 
شام کو احتشام جب مشتاق احمد کو گھر چھوڑنے کے لئے آیا تو اس کی متلاشی نگاہیں سحر بانو کو ڈھونڈ رہی تھی۔اس وقت سحر بانو اپنے کمرے میں تھی۔
احتشام کا دل چاہا کہ وہ مشتاق احمد سے خود ہی اس لڑکی کے بارے میں پوچھ لے۔مشتاق احمد سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔احتشام کچھ دیر تو اسی جگہ کھڑا رہا اور پھر وہ کچن میں پانی پینے کے بہانے چلا گیا۔ملازمہ کھانا تیار کررہی تھی۔احتشام نے پانی تھوڑا سا گلاس میں ڈالا اور ایک گھونٹ لینے کے بعد ملازمہ سے سوال کیا۔
”اس گھر میں کوئی مہمان لڑکی آئی ہے کیا۔
؟“
”جی ایک لڑکی ہے۔“ملازمہ نے بتایا۔
”کون ہے وہ۔“احتشام نے پوچھا۔
”مجھے معلوم نہیں ہے۔میری ان سے کوئی خاص ملاقات بھی نہیں ہوئی۔اس وقت بھی وہ اُوپراپنے کمرے میں ہے۔“ملازمہ نے کہا۔
”تم میرے لئے اگر ایک کپ چائے کا بنا دو تو کیا ہی اچھا ہو۔تمہارے ہاتھ کی چائے بھی کمال ہوتی ہے۔“احتشام نے فرمائش کی تو اپنی تعریف سن کر ملازمہ خوش ہوگئی۔
”چائے مزے دار ہو۔“
احتشام ٹہلتا ہوا سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا۔راہداری میں گزرتے ہوئے اس کے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔احتشام نے جلدی سے اپنی جیب سے فون نکالا اور اس کو کان سے لگا لیا۔اس دوران فون کی تیز گھنٹی سن کر سحر بانو نے بھی تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر جھانک لیا تھا۔احتشام کا چہرہ دوسری طرف ہوگیا تھا۔وہ کسی سے کہہ رہا تھا۔
”ایک منٹ ایک منٹ…یہ کام آج نہیں کرنا…میں بتاتا ہوں کہ آج کیوں نہیں کرنا ہے…“احتشام نے کہتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا۔سحر بانو کی متجسس نگاہیں پہلے ہی اس پر مرکوز تھیں۔اس کی باتوں نے جیسے اس کے اندر اور تجسس بھر دیاہو۔وہ جلدی سے اس کمرے کے دروازے کے ساتھ لگ گئی۔اندر سے احتشام کی صاف آواز اس لئے آرہی تھی کیونکہ اس نے بے خیالی میں تھوڑا سا دروازہ کھلا ہی چھور دیا تھا۔
احتشام کہہ رہا تھا۔”بات یہ ہے کہ اس گھر میں کوئی لڑکی آگئی ہے…مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ کون لڑکی ہے بس میں نے اسے دیکھا ہے۔پہلے مجھے یہ جاننے دو کہ وہ لڑکی کون ہے۔…“احتشام چپ ہوکر دوسری طرف سے آواز سننے لگا۔پھر وہ بولا۔”ارے ہم اس طرح سے مشتاق احمد کا کام تمام نہیں کرسکتے ہیں۔وہ لڑکی کون ہے کس ارادے سے اسے یہاں لایا گیا ہے۔
پہلے مجھے یہ جاننا ہے۔“احتشام پھر چپ ہوکر سننے لگا۔پھر ایک دم وہ جھنجلا کر بولا۔”میں تم سے بھی زیادہ جلدی میں ہوں۔کئی سال میں نے ملازم بن کر اس بوڑھے کے ساتھ کام کیا ہے۔پتا نہیں کتنی لمبی عمر لکھوا کر لایا ہے۔بیوی مر گئی بچے سارے ملک سے باہر ہیں۔مگر یہ ہے کہ مرتا ہی نہیں ہے۔اس لئے تو ہم اسے مار رہے ہیں تاکہ سارا کاروبار میرے قبضے میں آسکے۔
اس کی اولاد آئے گی بوڑھے کو دفنا کر چلی جائے گی۔بس پھر میں ہوں گا اور یہ کاروبار ہوگا۔اس لئے ذرا ٹھندے ہوجاوٴ۔مجھے جان لینے دو کہ وہ لڑکی کون ہے۔ہاں بعد میں بات کروں گا۔“احتشام جیسے ہی بات ختم کرکے گھوما سحر بانو جلدی سے اس جگہ سے ہٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
احتشام اطمینان سے کمرے سے باہر نکلا اور ٹہلتا ہوا اس کمرے کی طرف چل پڑا جس کمرے میں سحر بانو تھی۔
اس جگہ دو کمرے تھے۔مہمان کے لئے مشتاق احمد نے وہی کمرا مخصوص کیا ہوا تھا ۔احتشام نے اس کمرے کے پاس جاتے ہی اپنا ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر رکھا اور ابھی اسے گھمانے ہی والا تھا کہ ایک دم عقب سے ملازمہ آگئی اور بولی۔”آپ کی چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔“
احتشام ایک دم چونکا۔”اتنی جلدی چائے بن گئی۔“
”اتنے ہی وقت میں بنی ہے جتنا وقت چائے بننے میں لیتی ہے۔
“ملازمہ کہہ کر پھر نیچے جانے کے لئے مڑ گئی۔احتشام نے اپنا ہاتھ دروازے کے ہیندل سے ہٹا لیا اور معنی خیز انداز میں دروازے کو دیکھتا ہوا نیچے جانے کے لئے چل پڑا۔
سحر بانو دروازیکے ساتھ ہی لگی کھڑی تھی۔جونہی اس نے جاتے ہوئے قدموں کی آواز سنی اس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر جھانکا اور کمرے سے باہر نکل آئی۔
نیچے مشتاق احمد نشست گاہ میں موجود تھا۔
احتشام کو دیکھتے ہی وہ بولا۔”ارے تم ابھی گئے نہیں۔؟“
”بس چائے پینے کے لئے رک گیاتھا۔“احتشام پاس ہی بیٹھ گیا۔
”چائے کم پیا کرو۔آفس میں بھی تم بہت چائے پیتے ہو۔“مشتاق احمد بولا۔
”بھائی صاحب ایک یہ ہی تو نشہ ہے۔“احتشام مسکرایا۔”جب تک دن بھر میں بارہ،چودہ کپ چائے کے پی نہ لوں چین نہیں آتا ہے۔“
”نشہ کوئی بھی ہو برا ہی ہوتا ہے۔
“مشتاق احمد نے ٹانگیں پھلا کر ٹیلی وژن کا ریموٹ پکڑ لیا۔احتشام پاس ہی بیٹھ کر چائے پینے لگا۔اس نے ایک نظر مشتاق احمد کی طرف دیکھا اور بولا۔
”بھائی صاحب گھر میں کوئی مہمان لڑکی آئی ہے۔؟“
”تجھے کیسے پتا چلا بھئی۔؟“مشتاق احمد کی نگاہیں سامنے ٹیلی وژن پر مرکوز تھیں۔
”صبح جب آپ کو لینے کے لئے آیا تھا تو میری نظر اس لڑکی پر پڑ گئی تھی۔
“احتشام نے بتایا۔
”بے چاری مظلوم ہے۔پریشان تھی۔اس لئے گھر لے آیاہوں۔اچھی لڑکی ہے۔“ مشتاق احمد بولا۔
”بھائی صاحب…یہ بات میری مرحومہ بہن بھی آپ کو سمجھاتے سمجھاتے دنیا سے چلی گئیں کہ ہر کسی پر اعتبار نہ کرلیا کریں۔اب جانے وہ کون لڑکی ہے۔گھر کا صفایا کرکے چلی گئی تو۔؟“ احتشام نے کہا۔
”احتشام تم اپنی ان باتوں سے بیوی مرحومہ کی باتیں یاد کرادیتے ہو۔
“مشتاق احمد ہنسا۔” رہی بات گھر کے صفایا کرنے کی تو کرجائے صفایا۔کیا ہوگا۔یہ بے جان چیزیں وہ لے جائے گی۔مجھے خدا اور دے دے گا۔ویسے وہ لڑکی ایسی نہیں ہے۔“
”یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسی لڑکی نہیں ہے۔کیا اس کے ماتھے پر لکھا ہوا ہے۔“ احتشام نے کہہ کر چائے کا گھونٹ بھرا۔
”میرا دل کہتا ہے۔“
”دل ہر بار سچ ہی نہیں کہا کرتا،دل کبھی کبھی دھوکہ بھی دے دیتا ہے۔
“احتشام نے چائے ختم کرکے خالی کپ میز پر رکھ دیا۔
”مجھے اس بات کی فکر نہیں ہے۔تم بھی سوچنا چھوڑو اور گھر جاوٴ۔تمہاری بیوی تمہارا انتظار کررہی ہوگی۔“مشتاق احمد شاید اس کی نصیحت سے زچ ہوگیا تھا۔
”میرا کچھ کہنا اچھا نہیں لگا آپ کو۔؟“
”میں نے یہ تو نہیں کہا۔“مشتاق احمد ٹیلی وژن کے چینل بدلتاجارہا تھا۔
احتشام نے ایک نظر مشتاق احمد کی طرف دیکھا اور اُٹھ کر چلا گیا۔
سحر بانو سیڑھیوں میں کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی۔اسے یہ پتا چل گیا تھا کہ اس کا نام احتشام ہے اور وہ مشتاق احمد کی مرحومہ بیوی کا بھائی ہے۔سحر بانو نے اس کی فون پر باتیں سن لی تھی اور صاف عیاں تھا کہ وہ کسی کے ساتھ مل کر اپنے بہنوئی کو جان سے مار دینا چاہتا ہے۔اور مشتاق احمد کے سارے کاروبار پر خود قبضہ کرنے کا ارادہ دل میں لئے مشتاق احمدکے ارد گرد منڈلا رہا ہے۔سحر بانو نے سوچا کہ وہ مشتاق احمد کو اس بارے میں آگاہ کردے گی۔وہ یہ کام پوری سوچ بچار کے بعد کرے گی کیونکہ اس کے دماغ میں جو بات آئی تھی احتشام کے دل کے ارادوں کو مشتاق احمد پر ظاہر کرنے سے اس کا ہی فائدہ تھا۔ فی الحال وہ مشتاق احمد کے ساتھ گپ شپ کے لئے اس کی طرف چلی گئی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum