Episode 41 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 41 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری کے ملازم کا نام شیرو تھا۔اس کا تعلق اس گاوٴں سے تھا جس گاوٴں میں ملک خلیل رہائش پذیر تھا۔شیر و نے اس وقت جنید کو دیکھا تھا جب وہ تانگے میں سوار شہر جانے کے لئے گھر سے نکلا تھا۔اس کی اچانک نظر جنید پر پڑی تھی۔اس وقت جنید کار میں منظور کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔شیر وکی نگاہیں کیونکہ اچانک جنید پر مرکوز ہوئی تھیں اس لئے اس نے نہ تو کار پر غور کیا تھا کہ وہ کس کی کار ہے اور نہ ہی اس نے یہ دھیان دیا تھا کہ کار چلا کون رہا ہے۔
اس نے جنید کو دیکھا اور جنید کی کار وہاں سے گزر گئی۔اس کی دانست میں جنید کو اس کے مالک نے کسی کام سے اس کے گاوٴں میں بھیجا ہوگا۔شاید وہ اس سے ملنے کے لئے آیا ہوگا اور کسی بھی وجہ سے ملاقات نہیں ہوئی ہوگی۔وہ ان ہی سوالات کے انبار میں شہر پہنچ گیا تھا اور اس بات کا تذکرہ اس نے ہاشم زبیری سے کردیاتھا۔

(جاری ہے)


ہاشم زبیری نے تو جیسے ہی یہ بات سنی کہ جنید اس کے گاوٴں میں تھا تو اس کے اندر ایک عجیب سی بے چینی نے پنجے جما لئے تھے۔
جونہی اخترآیا اس نے اسے کچھ ہدایات کیں اور دونوں کو گاوٴں کے لئے روانہ کردیا۔
گاوٴں میں پہنچ کر اختر نے شیرو سے پوچھا۔”کہاں دیکھا تھا تم نے جنید کو۔؟ کونسی جگہ تھی۔؟“
”وہ اس سڑک سے گزر رہے تھے۔میں تانگے میں سوار تھا۔“شیرو نے بتایا۔
”تم نے اسے اس طرح دیکھا تھا۔؟وہ کسی کے گھر میں داخل ہوا تھا یا کسی گھر سے باہر نکلا تھا۔
؟“اس کا جواب سن کر جنید کو حیرت ہوئی۔
”میں نے جنید باوٴ کو اس سڑک پر کار میں سوار دیکھا تھا۔وہ گاوٴں سے باہر جارہے تھے۔“ ایک بار پھر شیرو نے سامنے سڑک کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ تفصیل تم نے ہاشم صاحب کو بتائی تھی۔؟“
”انہوں نے بس میری اتنی بات سنی اور آپ کو فون کرکے مجھے بولے کہ میں آپ کے ساتھ گاوٴں چلا جاوٴں۔“شیرو کے لہجے میں معصومیت تھی۔
”اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے پوری بات نہیں سنی اور مجھے تمہارے ساتھ گاوٴں بھیج دیا۔“اختر نے کہا۔
”بس اتنی ہی بات ہوئی تھی ۔“
اختر نے اپنا سر پکڑ لیا اور سوچنے لگا کہ اس طرح سے وہ جنید کو اس گاوٴں میں کیسے تلاش کرسکتا ہے۔وہ اس گاوٴں میں کسی سے ملنے کے لئے آیا ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ اس کا جاننے والا کوئی ہو لیکن وہ یہ کیسے پتا کرسکتے ہیں کہ اس کا جاننے والا کہاں اور کس مکان میں رہتا ہے۔
شیرو نے محض اُسے کار میں سوار سڑک پر دیکھا تھا۔
”اُسے ہم کیسے تلاش کرسکتے ہیں۔“اختر بولا۔
”ویسے بات کیا ہے جی۔؟“شیرو کو کچھ شک سا ہونے لگا۔
”تمہارا گھر کہاں ہے۔؟“اس کا جواب دینے کی بجائے اختر نے سوال کردیا۔
”وہ سامنے جو آپ کو کھڑی فصل نظر آرہی ہے اس کے ساتھ ایک پولٹری فارم ہے اس کی ساتھ ایک گلی ہے اور اس گلی میں میرا گھر ہے۔
“شیرو نے دور اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
اختر کچھ دیر سوچتا رہا۔پھر اس نے موبائل فون نکال کر ہاشم زبیری کو فون کیا اور ساری صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد پوچھا۔”اب کیا کرنا ہے۔“
ساری بات سن کر ہاشم زبیری بھی سوچنے لگا کہ اس نے عجلت اور بے چینی میں کچھ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی اور بس جنید کو پکڑنے کی جلدی نے دونوں کو گاوٴں روانہ کردیا۔
”تم ایسا کرو کہ شیرو کو یہاں چھوڑ کر واپس آجاوٴ۔یہ اس کی تلاش کرے۔شاید وہ اسے پھر دکھائی دے جائے۔جیسے ہی اس کی نظر اس پر پڑے وہ ہمیں فوراً اطلاع کردے۔“
”ٹھیک ہے۔“اختر نے موبائل فون بند کیا اور شیرو کو ہدایات دینے کے بعد اسے کار سے نیچے اتار کر واپس شہر کی طرف چل پڑا۔شیرو اس سڑک پر اکیلا کھڑا سوچ رہا تھا کہ جانے ان کو کیا ہوگیا ہے۔
ابھی وہ کھڑا سوچ ہی رہاتھا کہ گدھے پر سوار اس کا ہمسایہ آگیا اور اسے دیکھتے ہی بولا۔
”شیرو تم تو شہر چلے گئے تھے اور پھر مجھے یہاں ہی نظر آرہے ہو کیا بات ہے۔؟“
”ہاں پھر آگیاہوں۔“
”کیوں نوکری سے جواب دے دیا ہے۔“
”نہیں …بس ایک کام تھا۔تم مجھے ایک بات بتاوٴ سارا دن گھومتے رہتے ہو۔تم نے کسی شہری بابو کو دیکھا ہے۔
ہمارے گاوٴں میں کسی کے گھرمہمان آیا ہو۔“شیر نے پوچھا۔
اس نے سوچ کر بتایا۔”نظر نہیں پڑی۔“پھر وہ ایک دم چونکا۔”ہاں ملک خلیل کی حویلی سے ایک کار باہر نکلی تھی۔اس کار میں میں نے ایک خوبصورت سا شہری بابو دیکھا تھا۔“
”وہ کار سفید تھی۔؟؟“ایک د م شیرو نے پوچھا۔
”ہاں سفید تھی۔“
شیرو نے ایک بار پھر بے چینی سے پوچھا۔
”وہ شیری بابو کار کے آگے بیٹھا ہوا تھا۔“
”ہاں کا رکے آگے بیٹھا ہوا تھا۔مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو کیابات ہے۔“شیروکے ہمسائے کو اس کی اتنی گرم جوشی دیکھ کر حیرت ہورہی تھی۔
”یہ بتاوٴ تم نے واقعی وہ کار ملک خلیل کی حویلی سے باہر نکلتے ہوئے دیکھی تھی۔؟“ ایک بار پھر شیرو نے تصدیق چاہی۔
”ہاں میں نے وہ کار اس کی حویلی سے باہر نکلتے ہوئے دیکھی تھی کیونکہ میرا اس کی حویلی کے آگے روز گزر ہوتا ہے۔
ایک بار نہیں دن میں دس بار گزرتا ہوں۔میرا کام تو تم جانتے ہو۔“ اس نے بتایا۔
”بس ٹھیک ہے تم جاوٴ۔میں جارہاہوں شہر۔“
”لیکن بات کیا ہے۔“اس کا ہمسایہ حیرت سے اسے تکنے لگا۔
”کوئی بات نہیں ہے بس تم اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کرنا ہے۔میرے گھر بتا دینا ہے کہ میں شہر سے ایک کام آیا تھا۔وہ کام ہوگیا ہے اور میں پھر واپس جارہاہوں۔
“شیر و نے عجلت سے کہا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا سڑک کی طرف چل پڑا۔وہ دل ہی دل میں کہہ رہاتھاکہ اگر اختر کچھ دیر اور رک جاتا تو اچھا ہوتا۔
بڑی سڑک پر آکر شیرو نے متلاشی نگاہوں سے پی سی او دیکھا اور جیب سے اختر کا نمبر نکال کر اس آدمی کو دیتے ہوئے بولا۔”جلدی سے یہ نمبر ملادو۔“
نمبر ملانے کے بعد ریسیور ہاتھ میں لیتے ہی جونہی رابطہ ہوا اس نے ساری تفصیل بتانے کے بعد پوچھا۔
”اب میرے لئے کیا حکم ہے۔“
”تم اپنے گھر چلے جاوٴ۔میں تم سے تمہارے گھر ہی ملو ں گا۔“دوسری طرف اختر پنے جواب دیا۔اختر ابھی راستے میں ہی تھا وہ مزید ہاشم زبیری کے ساتھ مشورہ کرکے ہی شیرو کو کوئی جوب دے سکتا تھا۔
شیرو پھر اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔شیر نے اپنے جس ہمسائے کے ساتھ بات کی تھی وہ پیٹ کا بہت ہلکا تھا۔شیرو سے بات کرکے جیسے ہی وہ آگے گیا تھا اس کو ملک خلیل کی حویلی کا خاص ملازم مل گیا۔
ا س نے اس سے پوچھا کہ تم لوگوں کی حویلی میں کون آیا تھا۔اس بارے میں شیرو پوچھ رہا تھا۔ملک خلیل کے ملازم نے متانت سے شیرو کے بارے میں جانا اور اس کے ہمسائے سے اجازت لے کر حویلی میں جاکر ملک خلیل کے بیٹے الیاس سے جب اس بات کا تذکرہ کیا تو اس کو ایک دم تشویش ہوئی۔
الیاس نے اپنے اسی ملازم کو بھیجا کہ وہ دیکھے شیرو کہاں ہے۔وہ ملازم حویلی سے باہر نکل کر ابھی کچھ دور ہی گیاتھا کہ اسے شیرو آتا ہوا دکھائی دیا۔
جونہی شیرو اس کے پاس آیاملازم نے اس سے گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور باتیں کرتے ہوئے اسے حویلی کے پاس ہی لے گیا۔اس وقت دائیں بائیں کوئی بھی نہیں تھا۔ملازم نے شیرو کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر حویلی کے اندر لے گیا۔شیرو کے لئے یہ سب غیر متوقع تھا۔وہ ایک دم گھبرا گیا۔وہ ملازم اسے سیدھا حویلی کے ایک خاص حصے میں لے گیا اور ایک کمرے میں شیرو کو دھکیل کر باہر سے کنڈی لگادی ۔اندر شیرو دروازہ پیٹتا رہ گیا۔وہ حویلی کاایسا حصہ تھا کہ اندر سے باہر اور باہر سے اندر آواز ہی نہیں جاتی تھی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum