Episode 42 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 42 - زنجیر - فاروق انجم

ملازم نے الیاس کو اطلاع کردی تھی کہ اس نے شیرو کو کمرے میں بند کردیا ہے۔الیاس اپنے باپ ملک خلیل سے بات کرچکا تھا۔وہ بھی اس بارے میں سوچ رہا تھا کہ شیرو ،جنید کے بارے میں کیوں پوچھ رہا تھا۔ملک خلیل کی ہدایت پر الیاس اس سے پوچھ گچھ کے لئے حویلی کے اس حصے میں چلا گیاجہاں شیرو کو بند کیا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا محافظ بھی تھا۔وہ دروازے کے پاس ہی کھڑا ہوگیا۔
الیاس اندر چلا گیا۔شیرو اس کو دیکھتے ہی بولا۔
”ملک صاحب مجھے کیوں آپ نے پکڑ کر بند کردیاہے۔میں نے کیا قصور کیا ہے۔؟“ شیرو گھبرا رہاتھا۔
الیاس نے اس کا جائزہ لیا اور بولا۔”شیرو…تم ہمارے گاوٴں کے رہنے والے ہو۔نوکری شہر میں کرتے ہو۔جاسوسی ہماری حویلی کی کررہے ہو کہ کون اس حویلی میں آیا اور کون اس حویلی سے گیا۔

(جاری ہے)

بات کیا ہے۔

؟“
”کوئی بات بھی نہیں ہے۔؟“شیرو نے الیاس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔” کوئی بھی بات نہیں ہے ملک صاحب۔“
”پھر تم پوچھتے کیوں پھر رہے تھے۔؟کوئی بات تو ہے۔“الیاس کی نگاہیں ابھی تک اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔
”میں نے تو کسی سے بھی نہیں پوچھا۔“شیرو نے جھوٹ بول دیا۔
”جھوٹ بول کر تم حقیقت کو چھپا نہیں سکتے شیرو۔
تم جانتے ہو کہ میں غصے کا بڑا تیز ہوں۔جھوٹ سے ویسے ہی مجھے نفرت ہے۔“الیاس کا لہجہ درشت ہوگیا تھا۔اس کا یہ تغیر دیکھ کر شیرو مزید گھبرا گیا۔
”میں نے تو ایسے ہی پوچھا تھا۔“شیرو ایک دم بھیگی بلی بن گیا۔
”ایسے ہی تو کوئی بھی کسی کے بارے میں نہیں پوچھتا۔تیرے گھر کون آتا ہے کون جاتا ہے،کبھی ہم نے کسی سے پوچھا۔کوئی بات ہوتی ہے تو سوال کئے جاتے ہیں۔
“الیاس نے کہا۔
”کوئی بات بھی نہیں ہے۔“شیرو کی آواز نکلنی مشکل ہوگئی تھی۔
اس بار الیاس نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مار دیا۔تھپڑ لگتے ہی شیرو ایسے زمین پر گرا جیسے کٹا ہوا درخت گرتا ہے۔شیرو کی آنکھوں کے سامنے تارے گھومنے لگے تھے۔الیاس نے اس کو اُٹھا کر سیدھا کیا اور بولا۔”اب سچ بتا کہ بات کیا ہے،ورنہ اس بار تھپڑ نہیں پڑے گا۔
گولی تیرے سر میں سوراخ کرکے پار چلی جائے گی کیونکہ ہم دشمنی کو پانی دینے کے عادی نہیں ہیں۔“
”بتاتا ہوں…بتاتا ہوں۔“شیرو کاجسم لرز رہا تھا۔ اس نے ساری بات الیاس کے گوش گزار کردی۔الیاس ایک ایک بات سننے کے بعد جیسے ہی چپ ہوا اس نے پوچھا۔” جس جنید کا تم نام لے رہے ہو یہ ہاشم زبیری جو تمہارا مالک ہے اس کے پاس کیا کام کرتا ہے۔“
”اس کا سارا کام دیکھتا ہے جی۔
پتا نہیں کیا کیا کام کرتا ہے۔ہر ویلے وہ ہاشم صاحب کے ساتھ ہی رہتا ہے۔“شیرو نے بتایا۔
”اب ہاشم اس کو کیوں تلاش کررہا ہے۔؟“الیاس نے پوچھا۔
”یہ مجھے پتا نہیں ہے۔“شیرو نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”سچ کہہ رہے ہو۔“الیاس نے اس کو گھورا۔
”ہاں جی بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔“شیرو نے ڈر کر دو قدم پیچھے ہوتے ہوئے کہا۔ الیاس جان گیا تھا کہ اس بار وہ جھوٹ نہیں بول رہاہے۔
”میں جاوٴ ں جی۔؟؟“شیرو نے معصومیت سے پوچھا۔
”ابھی تم ہمارے مہمان ہی رہو گے۔“یہ کہہ کر الیاس کمرے سے باہر چلا گیا۔اس نے ساری بات ملک خلیل کو بتادی۔ملک خلیل بہت گہرا آدمی تھا۔وہ سوچنے لگا۔اور پھربولا۔
”یہ پیچھے اطلاع کرچکا ہے۔کوئی معاملہ ہے ۔خیر ان سے تو ہم نمٹ لیں گے۔جنید کا چکر کیاہے یہ جاننا ہمارے لئے اس لئے ضروری ہے کہ ہوسکتا کہ ہمارے فائدے کی کوئی بات نکل آئے۔
تم اسے دھمکی شمکی دو اور اسے اس بات پر راضی کرلو کہ یہ ہمارے لئے ہاشم کے پاس جاسوسی کرے گا۔اور ہمیں یہ بتائے گا کہ جنید کا چکر کیاہے۔اس بات پر منا کر اسے چھوڑ دو۔“ 
الیاس ایک بار پھر شیرو کے پاس چلا گیا۔شیرو نے ابھی تک اپنی گال پر ہاتھ کھا ہو اتھا۔ اس کے کان سے سائیں…سائیں کی آواز ابھی تک آرہی تھی۔الیاس نے اشارہ کیا تو ایک ملازم دودھ کا گلاس لے کر اندر آگیا۔
الیاس نے دودھ شیرو کو پلایا اور پھر اس کے سامنے اپنے ملازم سے کہا۔
”شام سے پہلے اس کے گھر گندم،چاول اور گھی کا بڑا کنستر پہنچادو۔کہنا کہ یہ ہماری طرف سے شیرو کے لئے تحفہ ہے۔اور کل صبح ایک بھینس کا سارا دودھ اس کے گھر پہنچا دینا۔سن لیا۔“
”جی سن لیا۔“ملازم نے کہا 
”جاوٴ اور یہ کام کرکے مجھے بتاوٴ۔“
”مارنے کے بعد یہ مہربانی۔
؟؟“شیرو کو حیرت ہورہی تھی۔”کہیں آپ مجھے اور تو مارنا نہیں چاہتے۔؟“
”دیکھ شیرو۔ہم لوگ ایک گاوٴں کے رہنے والے ہیں۔تم شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہو اور ہم دشمن دار لوگ ہیں۔تمہاری اور ہماری دشمنی سجتی تو نہیں ہے ناں۔کہاں تم اور کہاں ہم،تمہارا سب کچھ سیلاب کی طرح بہا کرہم لے جائیں تو تم کیا کرلو گے۔اس لئے تعلق اچھا ہی رہنا چاہئے۔
تم اس بات کو بھول جاوٴ اور واپس اپنے کام پر چلے جاوٴ۔بس مجھے یہ بتانا ہے تم نے کہ جنید کو وہ لوگ کیوں تلاش کررہے ہیں۔حقیقت کیاہے۔“
”آپ کا کام کردیا تو مجھے ماریں گے تو نہیں۔؟“شیرو کی متوحش نگاہیں الیاس کی جانب تھیں۔
”جب کام ہی کردو گے تو ماروں گا کیوں۔بلکہ تجھے انعام دوں گا۔اور جس کو تم نے یہ بتایا ہے کہ جنید ہماری حویلی میں آیا تھا اسے کیسے بھی ٹال دے۔
ٹل گیاتو ٹھیک ورنہ ہم ٹال دیں گے پھر۔“الیاس معنی خیزلہجے میں بولا۔
”ملک صاحب بھلا آپ لوگوں سے مجھے کون اچھا ہے۔میں آپ کو بتادوں گا اور جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی کروں گا ۔“شیرو نے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر جاوٴ تم۔اگر تم نے میرے ساتھ کوئی دھوکہ کیا تو میں تیرے گھر کے ایک ایک فرد کو جانتاہوں۔“الیاس کے الفاظ دھمکی کے زہر میں نہائے ہوئے تھے۔
”نہ جی نہ میں کیوں دھوکہ دوں گا۔آپ نے میرے گھر اناج پہنچا دیا ہے۔مجھے تو لگتا ہے جیسے میری ساری فکر ہی اتر گئی ہے۔“ایک دم شیرو کا لہجہ خوشامدانہ ہوگیا۔
الیاس نے اسے مزید کچھ سمجھایا اور اسے ملازم کے ساتھ حویلی سے باہر بھیج دیا۔شیرو پھر اسی سڑک پر چلنے لگا۔دور دھول اُڑاتی ایک کار تیزی سے اس کی طرف بڑھی اور پاس آکر بریک لگا دی۔
اندر اختر تھا۔
”میں کب کا تجھے تلاش کررہا تھا۔“اختر اسے دیکھتے ہی بھڑک اُٹھا۔
”میں جنید کے بارے میں خبر شبر لے رہاتھا۔“شیرو نے جلدی سے بہانہ کیا۔
”کیا خبر ہے۔“اختر کا لہجہ ابھی تک بگڑا ہوا تھا۔
”کوئی خبر نہیں ہے۔ وہ تو کوئی اور تھا۔جنید نہیں تھا۔وہ تو ڈاکٹر تھا۔شہر سے آیا تھا۔خبر غلط تھی۔“ شیرو نے ٹال دیا۔
”کمال کرتے ہو تم۔پھر تم نے مجھے فوراً فون کیوں کیا تھا۔میں بھاگتے ہوئے آیا ہوں۔“اختر نے کہا۔
”بس جی میں نے بھی نہیں سوچا۔“شیرو اپنا سر کھجانے لگا۔
اختر نے اس کا جائزہ لیا اور بولا۔”بیٹھو کار میں۔“
”چلیں جی۔“شیرو کار میں بیٹھ گیا۔
اختر نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔وہ اس دشت کا پرانا کھلاڑی تھا۔
اس نے ایک زمانہ دیکھا تھا اور ایسے ایسے لوگ دیکھے تھے جن کے ماتھے پڑھ کر وہ آگے بڑھا تھا۔شیرو کا لہجہ اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔اس کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔اس نے بھی شیرو کو شک نہیں ہونے دیا کہ وہ اس حویلی کے بارے میں پتا کرکے ہی سانس لے گا،اس نے بھی اس کی بات پر یقین کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے گاڑی کا رخ شہر کی طرف موڑ لیا۔
سفر ہورہا تھا اور دونوں کے دماغ اپنی اپنی سوچ رہے تھے۔
اختر یہ سوچ رہا تھا کہ کوئی بات ہے جس کی وجہ سے شیرو نے اپنا بیان بدلا ہے اور شیرو یہ سوچ رہا تھا کہ اسے ہر حال میں یہ پتا کرنا ہے کہ جنید کو یہ لوگ کیوں تلاش کررہے ہیں تاکہ وہ الیاس کو خوش کرکے اپنا گھر مزید انعام اوراناج سے بھر سکے۔
اختر نے جب ساری بات ہاشم زبیری کو بتائی اور اپنا اندیشہ جو شیرو کے متعلق تھا اس کو بھی عیاں کیا تو ہاشم زبیری ایک پل سوچنے کے بعد بولا۔
”ہم شیرو پر نگاہ رکھتے ہیں تم اس گاوٴں میں کسی بھی طرح یہ کھوج لگانے کی کوشش کرو کہ جنید کا اس حویلی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔وہ جنید ہی ہوگا ۔شیرو ہم سے حقیقت چھپا رہا ہے۔“

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum