Episode 45 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 45 - زنجیر - فاروق انجم

سحر بانو میں جانے کیابات تھی کہ مشتاق احمد دو دن میں ہی اس کے ساتھ گھل مل گیا تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ مشتاق احمد کی سحر بانو جیسی ہی بیٹی تھی۔چند سالوں سے اس کے ساتھ وہ مل بھی نہیں سکا تھا۔شاید بیٹی کی محبت کی وہ پیاس سحر بانو کے قریب آنے کی وجہ بنی تھی۔
سحر بانو کو بھی مشتاق احمد اچھا انسان لگا تھا۔جس کی نیت اور دل کا خلوص بالکل خالص تھا۔
سحر بانو کا دل کئی بار چاہا کہ وہ احتشام کے بارے میں مشتاق احمد کو آگاہ کردے تاکہ اس کے خطرناک ارادوں سے وہ بچ سکے۔لیکن اسے یہ بھی ڈر تھا کہ مشتاق احمد کو اس کی بات پر یقین آجائے گا۔؟کہیں احتشام کے بارے میں سنتے ہی و ہ اسے گھر سے ہی نہ نکال دے۔
شام کو جب سحر بانو اور مشتاق احمد اِدھر اُدھر کی باتیں کررہے تھے تو سحر بانو نے موقعہ محل دیکھتے ہوئے بات کا آغاز کر ہی دیا۔

(جاری ہے)

”کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں۔؟“
”ہاں پوچھ سکتی ہو۔“مشتاق احمد نے جلدی سے کہا۔
”لیکن مجھے ڈر بھی لگ رہاہے کہ کہیں آپ میری بات سن کر ناراض ہی نہ ہوجائیں۔“ سحر بانو بولی۔
”میں ناراض نہیں ہوا کرتا۔تم جو بات کہنا چاہتی ہو بے خوف کہہ سکتی ہو۔“مشتاق احمد مسکرایا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد سحر بانو نے بات کا آغاز کیا۔
”آپ کواحتشام صاحب پر کتنا اعتماد ہے۔“
”ایک پل کا بھی اعتماد نہیں ہے۔“اس کی بات سنتے ہی مشتاق احمد نے متانت سے بلا تامل جواب دے دیا۔
”آپ کو ان پر بالکل بھی اعتماد نہیں ہے۔“یہ بات سحر بانو کی توقع کے خلاف تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے مشتاق احمد سے ایسا جواب ملے گا۔
”بالکل بھی نہیں ہے۔وہ میری ناک کے نیچے کیاکررہاہے مجھے معلوم ہے۔
لیکن میں مجبور ہوں کیونکہ میرے پاس کام کرنے والا کوئی نہیں ہے۔اس کو نکالوں گا تو کوئی اور بھی اس سے زیادہ خطرناک ارادوں کے ساتھ میرے دائیں بائیں کھڑا ہوجائے گا،فی الحال تو میں احتشام کو قابو کرنے کا سوچ رہا ہوں۔“مشتاق احمد کے چہرے پر گہری متانت عیاں ہوگئی تھی۔
”کیا آپ کو سب کچھ پتا ہے۔؟“
”تم کو کیاپتا چلا ہے کہ تم دو دن ہی میں مجھ سے احتشام کے بارے میں پوچھ رہی ہو۔
“ 
”مجھے جو پتا چلا ہے…بلکہ میں نے ان کی باتیں سنی ہیں وہ اپنے موبائل فون پر کسی سے بات کررہے تھے ۔“
”کیا بات کررہے تھے۔؟“
”شاید وہ آپ کو …“
”ہاں بولو کیا مجھے۔“
”شاید وہ آپ کو …“سحر بانو کی زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی وہ ڈر بھی رہی تھی کہ مشتاق احمد بات سنتے ہی بھڑک ہی نہ اُٹھیں۔اس کی دانست میں تھا کہ مشتاق احمد محض یہ جانتا ہے کہ احتشام کاروبار میں گڑ بڑ کررہا ہے۔
جبکہ وہ اس کو جان سے مارنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔
”کیا تم نے یہ تو نہیں سنا کہ وہ مجھے جان سے مار دینے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔“ مشتاق احمد نے خود ہی یہ بات کہہ دی۔سحر بانو یہ بات سنتے ہی چونکی۔مشتاق احمد پھر بولا۔” مجھے معلوم ہے کہ وہ کیا کررہا ہے۔میرے سارے کاروبار کا وارث بننا چاہتا ہے۔لیکن میرے پاس ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں آیا ہے ورنہ میں اس احسان فراموش کو جیل کی ہوا کھلا دوں۔
”میں نے ان کی سب باتیں سنی ہیں۔“
”باتیں سننا کوئی ثبوت نہیں ہے۔کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ احتشام خود بخود جال میں آجائے،ورنہ آج اگر میں بات کروں تو وہ صاف مکر جائے گا۔کئی سالوں سے ہمیں ایک ساتھ دیکھنے والے لوگ بھی میری بات پر یقین نہیں کریں گے۔“
”آپ کو وہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور آپ اطمینان سے بس دیکھے ہی جارہے ہیں۔
“ سحر بانو متفکر ہوگئی۔
”اس کیا کیا حل کروں…؟؟“مشتاق احمد کے چہرے پر گہری متانت تھی اور وہ سوچنے لگااچانک وہ ایک دم چونکا ۔ایک عجیب خیال نے مشتاق احمد کوچونکا دیا تھا۔ مشتاق احمد جب کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیتا تھا تو وہ بڑے سے بڑا خطرہ لینے میں بھی دریغ نہیں کرتا تھا۔اس نے سحر بانو کی طرف دیکھا اور بولا۔”ایک طریقے سے وہ سامنے آسکتا ہے۔
اب تک جو وہ میری آستین کا سانپ بنا ہوا ہے وہ اسی طریقے سے باہر نکل سکے گا۔اس سے یقینا برداشت نہیں ہوگا۔مجھے ایسا ہی کرنا چاہئے۔“
”آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔“
”دیکھو میں نے تمہیں اپنی بیٹی کہا ہے ناں۔؟“
”جی ہاں ۔“
”تم میری بیٹی بن کر مجھے دکھانا۔“مشتاق احمدنے اپنا موبائل فون نکالا اور اپنے وکیل کو فون کرنے لگا۔
سحر بانو کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن مشتاق احمد نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔مشتاق احمد نے وکیل کو ابھی اور اسی وقت اپنے پاس بلا لیا تھا۔سحر بانو کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
ابھی مشتاق احمد نے فون بند کیاہی تھا کہ ایک بار پھر اس کا فون بجنے لگا۔مشتاق احمد نے فون کان سے لگا کر سنا اور پھر بولا۔”ملک صاحب…آپ نے بھی خوب یاد دلایا ہے۔
کل میں خود آپ کے پاس پہنچوں گا۔بہت دن ہوئے گھر سے نہیں نکلا اس بہانے سیر بھی ہوجائے گی۔اور اگر آپ میری وہ زمین خریدنا چاہتے ہیں تو اس کے بارے میں بھی بات ہوجائے گی…ہاں کیوں نہیں…میرے ساتھ میری بیٹی بھی ہوگی۔ٹھیک ہے کل ملاقات ہوگی۔“ فون بند کرتے ہی مشتاق احمد نے سحر بانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”کل ناشتے کے بعد تیار رہنا۔ہم ایک گاوٴں جارہے ہیں۔
آدھے گھنٹے کے اندر مشتاق احمد کا وکیل آگیا۔مشتاق احمد اسے اپنے کمرے میں لے گیا اور اس کے ساتھ بات چیت کرتا رہا۔مشتاق احمد کی بات سن کر وکیل کا چہرہ حیرت زد ہ ہوگیا تھا۔ جب مشتاق احمد ساری بات کہہ چکا تو وکیل نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن مشتاق احمد اپنی بات پر قائم رہا۔لاچاروکیل نے ایک کاغذ پر کچھ تحریر کیا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔
مشتاق احمد کا وکیل جانتا تھا کہ مشتاق احمد ایسے کئی فیصلے اس سے قبل بھی کرچکا تھا۔وہ اپنے ہر فیصلے میں کامیاب رہا تھا۔وکیل کے اندیشے کئی بار غلط ثابت ہوچکے تھے۔اس نے اپنے تئیں سمجھانے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن وہ جانتاتھاکہ مشتاق احمد کا یہ رسک بھی اسے کامیاب کردے گا۔مشتاق احمد عجیب کھیل کھیلنے جارہا تھا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum