Episode 49 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 49 - زنجیر - فاروق انجم

مشتاق احمد کا وکیل ساٹھ سال کی عمر کے لگ بھگ تھا۔ اس کے چہرے پر ہر وقت گہری سوچ اور متانت عیاں رہتی تھی۔وہ کسی بھی معاملے کو بڑی گہری نگاہ دیکھتا تھا۔اس کے لاتعداد موکل تھے جو اس وکیل پر بھروسہ کرتے تھے۔وہ اپنے ہر وکیل کے ساتھ بہت پر خلوص تھا۔ زندگی میں ایسے کئی لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑنے کے باوجود جیسا شخص مشتاق احمد کی صورت میں اسے ملا تھا ایسا انسان اس نے کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا۔

اس وکیل کا نام نعیم رضوی تھا۔بعض اوقات وہ سوچتا تھا کہ مشتاق احمد کیا کوئی انسان ہے کہ کوئی اور ہی مخلوق ہے جس کی سوچ الگ اور کام کرنے کا انداز اپنا ہی ہے۔ وہ سانپ کو دودھ پلانے کا بھی قائل تھا اور سانپ کو مارنے کے لئے وہ محض لاٹھی کا ہاتھ میں ہونا ضروری نہیں سمجھتا تھا۔

(جاری ہے)

سانپ کو مارنے کے لئے اس کے پاس اس کے مارنے کی معقول وجہ کا ہونا بھی اس کی نظر میں بہت ضروری تھا۔

اس وقت بھی دونوں کمرے میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔رضوی نے اپنی عینک کے شیشے صاف کرنے کے بعد اس کو ایک بار پھر اپنی آنکھوں پر جماتے ہوئے مشتاق احمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں نے تم جیسا انسان نہیں دیکھا۔تم عجیب سوچتے ہو۔ہر کسی پر اعتبار کرلیتے ہو اور جب تمہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہے تو تم اس وقت تک کوئی کارروائی کرنے سے گریز کرتے ہو جب تک کوئی ٹھوس ثبوت تمہارے ہاتھ نہ لگ جائے، عجیب منطق ہے۔
”تم جانتے ہو کہ میں ایسا ہی ہوں۔میں عجیب دل کا مالک ہوں۔بحرحال میں یہ جانتا ہوں کہ احتشام مجھے مار کر میرے سارے کاروبار پر قبضہ جمانے کی سوچ رہا ہے۔لیکن رضوی تم مجھے بتاوٴ میں اگر پولیس کو اطلاع کروں تو کس بنیاد پر یہ کہوں کہ یہ مجھے ماردینا چاہتا ہے۔کیونکہ احتشام جو کچھ بھی کررہا ہے وہ کچھوے کی چال سے اور بہت محتاط ہوکر کررہا ہے۔
مجھے بھی اس وقت پتا چلا جب میں نے ایک دن اس کی فون پر باتیں سن لی تھیں۔اب وہ باتیں تو کوئی ثبوت نہیں ہے۔“
”تم اس کو اپنی کمپنی سے فارغ کردو۔“
”وہ میرے بچوں کا ماموں ہے۔میں اگر ایسا کروں گا تو سب مجھے ہی قصور وار ٹھہرائیں گے ۔اس لئے جو منصوبہ میں نے بنایا ہے وہ ٹھیک ہے۔اور پھر یہ کہ ثبوت کے ساتھ وہ پولیس کی تحویل میں ہوگا۔
”تم اپنا یہ بنگلہ اس اجنبی سحر بانو کے نام کرکے احتشام کو سامنے آنے کا موقعہ دینا چاہتے ہو۔یہ بہت بڑا رسک ہی نہیں بلکہ میں یہ کہوں گا کہ یہ پاگل پن ہے۔“رضوی بولا۔
”احتشام جتنا ٹھندا کھلاڑی ہے یہ جان کر کہ میں نے ایک لڑکی کے نام بنگلہ کردیا ہے، احتشام سے یہ برداشت نہیں ہوگا اور وہ جذباتی ہوکر اسی وقت کوئی نہ کوئی قدم اُٹھا لے گا اور بات سامنے آجائے گی۔
“مشتاق احمد سوچ رہا تھا۔
”ایسا تم سحر بانو کے نام کچھ نہ بھی کرکے کرسکتے ہو۔“
”جب تک دستاویز اس کے سامنے نہیں آئے گی احتشام بھڑکے گا نہیں۔میں اسے جانتاہوں ۔اس کے ساتھ ایک عرصے سے ہوں۔وہ اپنے سائے کو بھی چھپا کر رکھنے کا عادی ہے۔“
”لیکن یہ بہت بڑا رسک ہے۔تم ایک اجنبی جس کے بارے میں تم جانتے بھی نہیں ہو اس کے نام اپنا بنگلہ کررہے ہو۔
وہ تمہیں دھوکہ دے سکتی ہے۔“
”وہ مجھے دھوکہ نہیں دے گی۔میں کئی بار ایسے رسک لے چکا ہوں یہ تم جانتے ہو۔“ مشتاق احمد اپنی بات پر قائم رہا۔
”وہ معاملات اور تھے۔“
”تم زیادہ مت سوچو اور کاغذات مکمل کرو۔“
”جھوٹی دستاویز تیار کردیتا ہوں۔“
”احتشام میرے ساتھ پراپرٹی کا کام کرتا ہے وہ سب کچھ جانتاہے کہ جعلی اور اصلی میں کیا فرق ہوتا ہے۔
اس لئے تم وہی کرو جو میں کہہ رہاہوں۔“مشتاق احمد نے اُٹھ کر کوٹ پہنا اور بولا۔”میں نے احتشام کو نہیں بتایا کہ میں سحر بانو کے ساتھ گاوٴں جارہا ہوں۔دراصل میں تھک گیاہوں۔موقعہ ملا ہے تو میں نے سوچا کچھ وقت باہر گزار آوٴں۔وہاں میری ایک زمین بھی ہے اس کی بھی ڈیل ہوجائے گی۔“
”تم یہ بنگلہ احتشام کی زبان کھلوانے کے لئے اس لڑکی کے نام کررہے ہو۔
یہ کام ہوجاتا ہے۔احتشام کھل کر سامنے آجاتا ہے۔اور تم اس کو ثبوت سمیت پولیس کے حوالے کردیتے ہو۔بعد میں وہ لڑکی دوبارہ یہ بنگلہ آپ کے نام کرنے کے لئے رضا مند نہیں ہوتی تو۔؟“رضوی کا ذہن ابھی تک اس معاملے میں الجھا ہوا تھا۔
اس کی بات سن کر مشتاق احمد اداس ہوگیا اور سوچتے ہوئے بولا۔” ماں باپ اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔ان کی ضروتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی ضرورتیں پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
جب اولاد جوان ہوجائے اپنے اپنے روزگار میں کامیاب ہوجائے تو پھر وہ یہ کیوں یاد رکھتے ہیں کہ انہوں نے کمانا ہے اور اپنی اولادوں کو ایک خوشحال زندگی دینی ہے وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو کیوں یاد نہیں رکھتے۔کیا ماں باپ زندہ رہ کر بھی اولاد کی نظر میں مرجاتے ہیں۔؟میری اولاد باہر کے ملکوں میں سیٹ ہے۔مجھ سے وہ ملنے کے لئے سال دو سال بعد آجاتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ میں زندہ ہوں۔
؟کیا میرا دل نہیں ہے کہ میری اولاد میرے پاس رہے۔میری اولاد کی بے اعتنائی نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں اولاد کا پیار بے سہارا اور مجبور بچوں میں تلاش کروں،اسی لئے میں ہر کسی پر اعتبار کرلیتا ہوں۔“ مشتاق احمد کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔پھر کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔”ویسے بھی میں اپنی جائیداد کسی ٹرسٹ کے نام کردوں گا۔اگر یہ لڑکی مجھے میرا بنگلہ واپس نہیں کرے گی تو مجھے دکھ نہیں ہوگا۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گی۔“
”ٹھیک ہے…کب تک واپسی ہے۔“رضوی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا۔
”شام کو واپس آجاوٴں گا۔کاغذات تیار کردینا۔میں دستخط کردوں گا۔“ مشتاق احمد نے کہا۔
”تم نے جو بھی سوچا ہوگا ٹھیک ہی سوچا ہوگا۔“رضوی نے طویل سانس خارج کی۔
”سوچوں کا عذاب میں نے پالنا چھوڑ دیا ہے۔جو کرنا ہوتا ہے وہ کرلیتا ہوں۔
“ مشتاق احمد مسکرایا۔
نعیم رضوی نے ایک نظر مشتاق احمد کی طرف دیکھا جو ایک مظلوم باپ کی تصویر بنا ہوا تھا۔بالکل اس انسان کی طرح لگتا تھا جو سمندر کے کنارے کھڑا ہونے کے باوجود پیاسا رہے۔اس نے اپنی فائل پکڑی اور اجازت لے کر چلا گیا۔
باہر سحر بانو تیار کھڑی تھی۔وہ جاتے ہوئے ڈر بھی رہی تھی کہ کہیں ہاشم زبیری کا اس کے ساتھ سامنا نہ ہوجائے اور اس کی بات کھل جائے۔
اس نے ہیرے اور کرنسی اپنے کمرے میں ایک محفوظ جگہ دیکھ کر چھپا دی تھی۔دونوں کار میں بیٹھے اور مشتاق احمد کار چلانے لگا۔کار جب سڑک پر دوڑنے لگی تو مشتاق احمد نے کہا۔
”میں نے کبھی دولت کو سب کچھ نہیں سمجھا۔میں نے انسانیت کو اہمیت دی ہے۔دھوکہ کھانے کے لئے تیار ہوں لیکن لوگوں پر اعتبار کرنا نہیں چھوڑ سکتا جانے کونسا انسان واقعی اعتبار کا حق دار ہو اور وہ دھوکہ دے کر جانے والوں کی صف میں شامل ہوکراپنے حق سے محروم رہ جائے۔
”اچھی بات ہے۔“سحر بانو بولی۔
”میں نے تم پر بھی اعتبار کیا ہے۔کچھ اور اعتبار بھی کررہا ہوں مجھے دھوکہ تو نہیں دے جاوٴ گی۔“
”آپ نے مجھ بے سہارا لڑکی کو رہنے کے لئے چھت دی اور مجھے بیٹی کہا ہے میں آپ کو کیسے دھوکہ دے سکتی ہوں۔“سحر بانو سوچ رہی تھی مشتاق احمد مزید اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے۔
مشتاق احمد مسکرایا اور بولا۔
”مجھے تم سے یہی اُمید ہے۔“
 کار سڑک پر دوڑتی رہی اور دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی۔مشتاق احمد سوچ رہا تھا کہ اس نے جو فیصلہ کیاہے وہ ٹھیک ہی کیا ہے اس سے احتشام کے اندر کا حیوان جاگ جائے گا اور اسے گرفت میں کرنا آسان ہوجائے گا۔
جبکہ سحر بانو سوچ رہی تھی کہ جانے مشتاق احمد کے دل میں کیا ہے اور وہ اس سے کیا کام لینا چاہتا ہے۔
وہ کچھ متفکر بھی تھی۔
شہر اور اس گاوٴں کی مسافت محض پون گھنٹہ پر محیط تھی۔جب کار ملک صادق کی حویلی میں پہنچی تو ملک صادق نے خود مشتاق احمد کا استقبال کیا۔دونوں میں پرانی شناسائی تھی۔اس تعلق کی وجہ خرید و فروخت تھی۔جب بھی ملک صادق کو شہر میں کوئی زمین خریدنی ہوتی تو وہ مشتاق احمد کے پاس ہی جاتا تھا۔اس طرح سے دونوں کے درمیان ایک اچھا تعلق بن گیا تھا۔
سحر بانو کا تعارف مشتاق احمد نے اپنی بیٹی کی حیثیت سے کرایا تھا۔سحر بانو کو ملک صادق نے گپ شپ کے لئے سنبل کے پاس بھیج دیا اور وہ سب ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔کچھ دیر کے بعد جنید کو بھی وہاں بلالیا۔جنید کا تعارف کرانے کے بعد ملک صادق نے کہا۔
”جنید کی وجہ سے آپ آج ہمارے مہمان بنے ہیں۔اسی نے وہ زمین خریدنے کی بات کی اور آپ یہاں آگئے۔
“ملک صادق بولا۔
”سچ تو یہ ہے کہ میں تھک گیا تھا اور ایک آدھ دن کے لئے کہیں باہر نکلنا چاہتا تھا۔ اس لئے میں نے خود یہاں حاضر ہونے کی بات کی تھی۔ورنہ آپ لوگوں کو شہر میرے پاس آنا پڑتا۔“مشتاق احمد نے کہا۔
”ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے پاس آئے۔ہم آپ کی وہ زمین خریدنا چاہتے ہیں۔“ملک صادق نے ساتھ ہی زمین کی بات چھیڑ دی۔
”آپ نہ بھی خریدیں تو وہ زمین آپ کی ہی ہے۔“مشتاق احمد ہنسا۔
”یہ تو آپ کی مہربانی ہے۔“
”ویسے اس جگہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔“
”ہم اس جگہ صابن کی فیکٹری لگانا چاہتے ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ بہت بڑی فیکٹری ہو۔“ ملک صادق نے بتایا۔
”یہ تو اچھی بات ہے۔گاوٴں میں انڈسٹری لگنے کا مطلب ہے روزگار کے دروازے کھلنا۔
یہاں کے لوگوں کو روزگار ملے گا۔کئی چولہے روشن ہونگے،آمدنی بڑھے گی۔“ مشتاق احمد بولا۔”ویسے ملک صاحب ساری زندگی تو آپ لوگوں نے کھیتی باڑی کی ہے یا پھر شہر میں زمین لے کر خرید و فروخت کی ہے۔صابن کی فیکٹری چلانے کا تجربہ ہے آپ کو۔؟میرا مطلب ہے کہ یہ کام کرلیں گے آپ۔؟“
”صابن کی فیکٹری جنید چلائے گا۔شہر میں ایک بہت بڑی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔
“ ملک صادق بولا۔
”کس فیکٹری میں کام کرتے رہے ہیں آپ۔؟“مشتاق احمد نے گھوم کر جنید کی طرف دیکھا۔
جنید سوچنے لگا کہ اگر اس نے ہاشم گروپ کا نام لے دیا تو کہیں وہاں بھی مشتاق احمد کی واقفیت نہ نکل آئے۔ اس لئے اس نے ایک پرانا نام لیتے ہوئے بتایا۔”آر کے کیمیکل انڈسٹری میں میں نے ایک عرصہ کام کیا ہے۔ان کی صابن کی بھی فیکٹری تھی۔“
”آر کے گروپ کا بڑا نام تھا لیکن وہ تو چار سال قبل بند ہوگئی تھی۔“مشتاق احمد نے نام سنتے ہی کہا۔
جنید جلدی سے بولا۔”ایک سال بند رہی تھی۔تین سال سے اب اس کو ایک اور گروپ چلا رہا ہے۔“

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum