Episode 51 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 51 - زنجیر - فاروق انجم

جنید اب چاہتا تھا کہ وہ جلد سحر بانو کے پاس چلا جائے۔جب سے اس نے سحر بانو کو دیکھا تھا اور اسے کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کہاں رہتی ہے،اس کے اندر کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا تھا۔اب وہ اس جگہ سے جانا چاہتا تھا۔وہ اس ڈرامے کو ختم کرنا چاہتا تھا۔سحر بانو کے پاس کرنسی بھی تھی اور قیمتی ہیرے بھی تھے۔وہ نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا تھا۔

جنید اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ابھی کچھ دیر قبل ہی وہ باہر سے واپس آیا تھا۔ اس نے بشارت سے بہانہ کیا تھا کہ اس کے پیٹ میں ہلکی درد ہورہی ہے اور وہ کچھ دیر چہل قدمی کرنا چاہتا ہے۔یہ ایک بہانہ تھا وہ دراصل یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ جب وہ باہر جاتا ہے تو کون کونسی نظر اس کا تعاقب کرتی ہے اور اس کے علاوہ وہ اگر اس جگہ سے فرار ہوتا ہے تو وہ کونسا راستہ اختیار کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)

رات کے اندھیرے میں اس نے کئی بار اپنی گردن کسی نہ کسی بہانے سے دائیں بائیں گھما کر دیکھا تھا،اسے کوئی ایسا دکھائی نہیں دیا تھا جو کسی بہانے اس کی نگرانی کررہا ہو۔ جنید کو یہ اطمینا ن ہوگیا تھا کہ منظور کے علاوہ کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی نگرانی پر مامور ہو۔اس کا صاف مطلب تھا کہ اس گاوٴں میں آنے سے قبل جو باتیں منظور اور ملک خلیل نے کی تھیں وہ سراسر جھوٹ تھیں۔
اس طرف سے اطمینان کرلینے کے بعد اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ وہ بھاگ کر کس طرف جاسکتا ہے۔باتوں باتوں میں جنید نے بشارت سے یہ بھی پوچھ لیا تھا کہ یہ راستہ کس طرف جاتا ہے۔بشارت نے بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ یہ راستہ نہر کی طرف جاتا ہے۔ اس نہر کو اگر عبور کرلیا جائے تو سامنے درختوں کے جھنڈ شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے بعد سامنے سڑک آجاتی ہے جو شہر کی طرف جاتی ہے۔
جنید اور بشارت کے ساتھ منظور ایسے چل رہا تھا جیسے وہ بہرا ہو۔جیسے وہ ان کی باتوں پر دھیان دینے کی بجائے اپنے ہی خیالوں میں مخمور ان کے ساتھ چل رہا ہو۔لیکن اس کے کان ان کی باتوں پر ہی مرکوز نہیں تھے بلکہ وہ ان باتوں کا مطلب بھی اخذ کررہا تھا۔
واپس آکرجنید فیصلہ کرچکا تھاکہ وہ موقعہ ملتے ہی اس جگہ سے فرار ہوجائے گا۔ مشتاق احمد کے آفس کا پتا اس کے ذہن میں تھا۔
وہ آسانی کے ساتھ وہاں تک پہنچ سکتا تھا اس کے بعد سحر بانو کے پاس وہ کسی بھی بہانے سے جاسکتا تھا۔
جنید ابھی ان ہی خیالوں میں تھا کہ اس کے دروازے پر ہلکی دستک ہوئی۔ جنید نے رک کر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر اس کی نگاہ دیوار کے ساتھ لگے کلاک پر چلی گئی۔رات کے ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔گاوٴں کی گلیاں خاموش اور ویران تھی۔اس حویلی میں بھی ایسا سکوت تھا جیسے یہاں کوئی انسان نہ بستا ہو۔
جنید نے دروازہ کھولا تو وہ ایک دم چونک پڑا۔سامنے سنبل کھڑی تھی اور اس کے کندھے پر اس کا پالتو طوطا بھی تھا۔جنید دروازہ کھول کر اس کی طرف دم بخود دیکھ ہی رہا تھا کہ سنبل نے خود ہی اس کو ایک طرف ہٹایا اور اندر چلی گئی۔
جنید نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔”تم اس وقت کیوں آئی ہو۔؟“
”میرے آنے سے ڈر لگ رہا ہے۔؟“سنبل مسکر ا کر لاپروائی سے بولی۔
”جانتی ہو کہ اس وقت اگر کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔“ جنید کی متوحش نگاہیں اس پر مرکوز تھیں۔
”آپ کو اس قیامت کا اندازہ نہیں ہے جو میرے دل میں برپا ہے۔“سنبل نے کہا۔
”پلیز تم جاوٴ۔“جنید نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
”اگر میں نہ گئی تو۔؟“سنبل نے کہہ کر اپنی گردن ایسے ہلائی جیسے وہ اس کو چھیڑ رہی ہو۔
”میں کسی مذاق کے مود میں نہیں ہوں۔
“جنید نے کہا۔
”میں بھی آپ سے سنجیدہ بات ہی کرنے کے لئے آئی ہوں۔“پہلی بار سنبل کے چہرے سے مسکراہٹ معدوم ہوئی۔
”بات کرنی ہے تو صبح آنا۔“جنید اس کی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔
”صبح یہ بات آپ تک پہنچ جائے گی۔لیکن اس سے پہلے میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں تاکہ آپ کو پہلے سے علم ہوسکے۔“سنبل نے کہا۔
”کیا بات ہے۔
؟“جنید کو بھی کچھ حیرانی سی ہوئی۔
”میں نے اپنی ماں سے ساری بات کرلی ہے۔ان کو بتا دیا ہے کہ میں آپ کو پسند کرتی ہوں۔اور آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔“سنبل کی آنکھیں جنید کی آنکھوں پر جمی ہوئی تھیں۔
اس کی بات سن کر جنید چونکا۔”مجھ سے محبت کرتی ہو۔؟“
”ہاں۔“
”دو دن میں مجھ سے محبت ہوگئی۔محبت بھی ایسی ہوئی کہ مجھ سے شادی کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا۔
“جنید بولا۔
”محبت ہونے کے لئے دو لمحے ہی بہت ہوتے ہیں۔“سنبل نے کہا۔”تم د و دن کی بات کرتے ہو۔“
جنید نے اس کی طرف دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر تبسم کی لکیر عیاں کرتے ہوئے کہا۔”تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے۔تمہیں اس وجود سے محبت نہیں ہے۔اور تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔“
”یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔“سنبل حیرانی سے بولی۔
”آج تمہیں آئینہ دکھانے لگا ہوں۔
یہ حقیقت تم پر واضح کرنے لگا ہوں کہ تمہیں کس چیز سے محبت ہے۔تم شہر سے محبت کرتی ہو۔اس زندگی کو چاہتی ہو جو لوگ شہر میں گزارتے ہیں۔ تم اس چیز سے محبت کرتی ہو جس سے تم دوسروں سے ممتاز دکھائی دو اور تمہارے خیال میں ان گاوٴں والوں پر برتری کا طریقہ یہ ہے کہ تم ان لوگوں میں رہ کر سانس لینے کی بجائے شہر کے ماحول میں رچ بس کر ان پر اپنے اعلیٰ ہونے کا رعب ڈال سکو ۔
سنبل کا چہرہ متانت میں ڈوب گیا تھا اور اس کی نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ ایسی باتیں اس سے قبل کسی نے بھی سنبل سے نہیں کی تھیں۔جنید پھر بولا۔
”میں اگر اسی گاوٴں کا رہنے والا ہوتا۔میرا چہرہ بھی یہی ہوتا۔میرے پاس تعلیم بھی ہوتی تو کیا تم مجھ سے محبت کرتی۔؟ بالکل بھی نہیں کرتی کیونکہ تم پڑھے لکھے خوبصورت لڑکے کو نہیں بلکہ شہر کو چاہتی ہو،جو تمہارا خواب اور جنون ہے۔
سنبل کی سانس تیز ہوگئی تھی۔اسے غصہ بھی آرہا تھا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جنید جو بھی کہہ رہاتھا وہ سچ تھا اور سچ برداشت کرنا ہر کسی کا ظرف نہیں ہوتا۔جنید نے پھر کہا۔
”سنبل بی بی …اس حقیقت کو تسلیم کرو اور اسی گاوٴں کے کسی اچھے لڑکے کو اپنا جیون ساتھی بنالو۔پھر جب تمہیں اس سے محبت ہوگی تو وہ محبت ہوگی۔کیونکہ اس محبت میں کوئی اور چیز حائل نہیں ہوگی۔
نہ شہر،نہ شہر کی زندگی ۔صر ف وہی ہوگا جس سے تمہیں محبت ہوگی۔ اور وہ تمہارا جیون ساتھی ہوگا۔“
”تم بہت زیادہ بول رہے ہو۔“سنبل کی زبان زبردستی یہ الفاظ بول رہی تھی شاید وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی۔شاید وہ یہ کہنا چاہتی تھی کہ میرے اندر کی آواز بھی وہی ہے جو تم کہہ رہے ہو۔
”ابھی میں بولا ہی نہیں ہوں۔ورنہ حقیقت کا پردہ اور بھی اُٹھ جاتا۔
“ جنید نے کہا۔” بہتر ہے کہ تم اب میرے کمرے سے چلی جاوٴ اور جو میں نے کہاہے اس پر سوچو۔اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم ملک صادق کی عزت ہو۔اپنے جنون اور خواہشوں کی غلامی میں اس طرح کسی کی دہلیز پار مت کرو کہ دن کا اجالا سیاہی بن کرطلوع ہو۔“
سنبل اس کی طرف دیکھتی رہی۔اس کے چہرے سے نہ تو یہ عیاں تھا کہ وہ غصے میں ہے اور نہ یہ پتا چلتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔
کچھ کہنے کے لئے اس نے دو بار منہ کھولنا چاہا لیکن زبان او رالفاظ میں خلیج آگئی تھی۔وہ کمرے سے نکل گئی۔
کمرے کا دروازہ بند ہوگیا تھا۔جنید اپنی جگہ کھڑا اس دروازے کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے جسم میں حرکت ہوئی اور وہ پلنگ پر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ ،وہ کسی کی عزت کو پامال نہیں کرسکتا۔وہ ملک خلیل کے انتقام کا حصہ بن کر کسی معصوم کے سر سے دوپٹہ نہیں کھینچ سکتا۔
وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا جس سے ایک ماں نظریں چرانے پر مجبور ہوجائے اور باپ کی نگاہیں جھک جائیں۔ وہ سنبل کو اس چار دیواری سے باہر نہیں لے کر جائے گا۔وہ اکیلا ہی چلا جائے گا۔قدرت نے سحر بانو کو ملا دیا تھا اور اب وہ اس کے پاس جانے کے لئے مضطرب ہے۔
سنبل سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔اس کے ساتھ والی چارپائی پراس کی ماں لیٹی ہوئی تھی۔
اس کی ماں نیند میں تھی۔کب سنبل اُٹھ کر کمرے سے گئی اور کب واپس آگئی اسے کچھ خبر نہیں تھی۔
سنبل بہت لاپرواہ لڑکی تھی۔اپنی ضد پر قائم رہنے والی اور اپنی ہر بات کو منوا کر دم لینے والی سنبل کبھی کسی بات پر رنجیدہ نہیں ہوتی تھی لیکن آج جنید کی باتوں نے اسے سوچنے پر مجبو ر کردیا تھا۔جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا وہ اپنے خوابوں کے پیچھے ایسے ہی بھاگتی رہی تھی جیسے کوئی جگنو کا پیچھا کرتا ہے۔
اس نے اپنے دل میں اپنی الگ دنیا بسائی ہوئی تھی۔آج پہلی بار کسی نے اسے کچھ ایسا کہا تھا کہ وہ سوچوں میں الجھ گئی تھی۔وہ اپنے آپ سے ایک ہی سوال کررہی تھی کہ کیا واقعی وہ شہر سے محبت کرتی ہے ۔؟کسی انسانی وجود سے بھی اس کی محبت محض اس لئے ہے کہ وہ شہر کا رہنے والا ہے۔؟
رات کا ہمسفر چاند دھیرے دھیرے چلتا ہوا دن کے اجالے کے ساتھ ہی جانے کہاں غائب ہوگیا اور سورج نے اپنی آنکھیں کھول لیں۔
نئے دن کا آغاز ہوگیا تھا۔نیند کی وادی سے نکل کر سبھی ایک نئے دن میں داخل ہوگئے تھے۔
سنبل کی ماں فجر کی نماز کے بعد اس کمرے میں نہیں آتی تھی۔وہ نماز پڑھنے کے بعد قرآن پاک پڑھنے میں مشغول ہوجاتی تھی اور پھر اس کے ہاتھ میں تسبیح آجاتی تو وہ ارد گرد سے بے نیاز ہوجاتی تھی۔
سنبل کی آنکھوں میں نیند نہیں آئی تھی۔وہ ساری رات جاگتی رہی اور اس کی سوچ کا محور جنید کی باتیں تھیں۔
وہ باتیں جن پر سنبل کو کئی بار غصہ آیا تھا لیکن آخر کار وہ اپنے آپ سے یہ کہنے پر مجبور ہو ہی گئی کہ ،جنید نے جو بھی کہا ہے وہ سچ ہے۔جب پہلی بار اسے یہ پتا چلا تھا کہ جنید اس حویلی میں آیا ہے تو اسے اس بات نے متاثر کیا تھا کہ وہ شہر سے آیا ہے۔وہ ایک شہری بابو کو دیکھ کر دم بخود ہوئی تھی۔اسے جنید کو دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ اس لئے خوش ہوئی تھی کہ شہر سے آنے والا وہ خوبصورت نوجوان اسے بھی اپنے ساتھ شہر لے جائے گا۔
اس نے تو جنید سے محبت کی ہی نہیں تھی۔وہ محبت نہیں تھی وہ تو کئی سالوں سے اس کے دل کے اندر دفن وہ جنون تھا جو باہر نکلا تھا۔
سنبل اپنی جگہ سے اُٹھی اور دیوار کے ساتھ لگے آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔وہ کچھ دیر اسی طرح اپنے آپ کو دیکھتی رہی اور پھر اس نے پلنگ پر پڑا اپنا دوپٹہ اُٹھایا اور اسے اوڑھ کر بولی۔
”سنبل بی بی…اس طرح کسی کے سامنے نہیں جاتے۔وہ اپنا نہیں غیر ہے۔“

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum