Episode 52 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 52 - زنجیر - فاروق انجم

جنید کی نگاہیں سامنے درخت کی ایک شاخ پر بیٹھی ہوئی اس چڑیا پر تھی جو پھدک کر کبھی اس شاخ سے اُس شاخ کی طرف آجا رہی تھی۔ اس کے پاس بشارت بیٹھا ہوا تھا اور ایک طرف منظور کھڑا تھا۔بشارت کی نگاہیں جنید پر تھیں جبکہ منظور یہ جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ جنید کا دھیان کس طرف ہے۔
”جنید صاحب…“کچھ دیر کے بعد بشارت نے جنید کا بازو پکڑ ہلایا تو جنید ایک دم چونک گیا۔
”میں نے کچھ پوچھا تھا اور آپ جواب دینے کی بجائے کہیں کھو گئے ہیں۔“
”کیا پوچھا تھا آپ نے۔؟“جنید نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
بشارت ،منظور کی طرف دیکھ کر ہنسا۔”لو یہ تو بھول بھی گئے کہ میں نے کیا پوچھا تھا۔منظور تم بتاوٴ بھئی میں نے کیا پوچھا تھا۔“
”انہوں نے پوچھا تھا کہ کل فیکٹری کی بنیاد رکھ دیں۔

(جاری ہے)

“منظور نے بشارت کا سوال دہرایا۔

”منظور تم مجھے ایک کپ چائے کا بنا کر پلا سکتے ہو۔میں نے سنا ہے کہ تم اچھی چائے بنا لیتے ہو۔“جنید نے کہا۔
”یہ آپ نے صحیح سنا ہے۔منظور چائے بہت اچھی بناتا ہے۔منظور تم دو کپ چائے کے بنا کر لاوٴ۔“بشارت ایک دم بولا۔منظور اس جگہ سے جانا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا اس لئے وہ باد ل نخواستہ بولا۔
”جی بہتر۔
“ منظور کہہ کر اس جگہ سے چلا گیا۔جنید کا یہی مقصد تھا کہ منظور اس جگہ سے چلا جائے۔اس کے جاتے ہی جنید نے بشارت کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا۔
”ایک سوال پوچھوں۔“
”دس پوچھیں۔“بشارت نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”آپ جانتے ہیں کہ گھر کی بنیاد کس چیز سے مضبوط ہوتی ہے۔“جنید نے سوال کیا۔
بشارت نے فوراً جواب دیا۔”اس سوال کا بھی کوئی مشکل جواب ہے۔
آسان سی بات ہے۔گھر وہی مضبوط بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے جہاں دولت ہو۔“
”کبھی تم نے اس انسان کو دیکھا ہے جو دن بھر سخت محنت کرتا ہے۔اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اپنی بیوی اور بچوں کے لئے پیسہ کما کر گھر لے کر جاتا ہے۔پھر رات کو جب اس کی بیوی اس کی محنت کی کمائی سے روٹی بنا کر اسے دیتی ہے اور بستر پر لیٹتے ہی جب اس کی اولاد اپنے باپ کی ٹانگوں کو دباتی ہے تو وہ دن بھر کی ساری مشقت بھول جاتا ہے۔
اور دوسرے دن کی مشقت کے لئے پھر تیار ہوجاتا ہے۔اسے راحت اس چیز سے نہیں ملتی جو پیسہ کما کر وہ گھر لے کر گیا ہوتا،بلکہ اس کی راحت کا سامان اس کی بیوی اور بچے ہوتے ہیں۔یہ ہی اس کے گھر کی مضبوط بنیاد ہوتی ہے۔“
بشارت اس کی باتوں میں کھویا ہوا تھا۔جنید نے کچھ توقف کے بعد پھر کہا۔”کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جو دولت میں سکون تلاش کرنے کے لئے اپنے رشتوں کو گھر کی دہلیز سے پار کردیتے ہیں۔
بات ایسی تھی کہ بشارت کے سیدھی دل پر لگی اور وہ چونکے بغیر نہیں رہ سکا۔ایسا تھا جیسے اس کے دل کو کسی نے پکڑ کر جھنجوڑ دیا ہو۔جنید اپنی بات کہہ کر کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔اس کی نگاہیں بشارت کے چہرے پر اور کبھی سامنے درخت کی اس شاخ پر چلی جاتی تھیں جہاں اب چڑیا اپنے نر کے ساتھ پھدک رہی تھی۔
جب منظور چائے کے دو کپ لے کر آیا تو جنید اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور منظور سے یہ کہہ کر چلا گیا۔
”چائے تم پی لو۔“
منظور حیران اسے جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔پھر جب اس کی نگاہ بشارت پر گئی تو وہ اپنے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔منظور سوچنے لگا کہ جنید اسے ایسا کیا کہہ گیا ہے کہ بشارت کہیں کھو ہی گیا ہے۔
 ###
رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا۔جنید اس حویلی سے بھاگنے کے لئے تیار تھا۔ اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا اور پھر کمرے کا دروازہ کھول کر آہستہ سے باہر نکل گیا۔
حویلی میں جاگ رہے تھے وہ اپنے کمرے میں بند تھے ۔حویلی کے ملازم بھی کام کاج سے فارغ ہوکر چارپائیوں پر ڈھیر ہوگئے تھے۔
جنید بغیر قدموں کی آہٹ پیدا کئے مین دروازے تک پہنچا اور آہستگی سے کھول کر اس نے ایک بار باہر جھانکا،چوکیدار گیٹ کے پاس موجود نہیں تھا۔جنید تیزی سے لکڑی کے بنے گیٹ کے پاس پہنچا اور اسے کھول کر وہ باہر نکل گیا۔
باہر نکل کر اس نے دائیں بائیں دیکھا، گلیاں سنسان اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
جنید حویلی سے باہر نکلتے ہی ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔اس کے بھاگنے کی رفتار تیز ہوتی جارہی تھی۔پھر وہ پوری قوت سے بھاگنے لگا۔گاوٴں کی گلیاں سنسان تھیں۔دور کہیں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آجاتی تھیں۔اور آوازوں کے بیچ چوکیدار کی تیز سیٹی کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔
جنید اسی راستے پر بھاگ رہا تھا جو اس نے دیکھا تھا۔وہ بھاگتے بھاگتے نہر کے پاس پہنچ گیا۔وہ نہر عبور کرنے کے لئے اس پل کی تلاش میں تھا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔وہ نہر کے کنارے بھاگ رہا تھا۔اس کی متلاشی نگاہیں لکڑی کے پل کی طرف تھیں۔پھر اسے وہ پل بھی دکھائی دے گیا اور اس نے اس پل کے ذریعے سے نہر عبور کرلی۔
نہر عبور کرکے وہ مطمئن ہوگیا تھا۔
اب وہ آسانی سے اس گاوٴں کو چھوڑ کر شہر کی طرف جانے والی سڑک پر پہنچ جائے گا۔اور پھر سحربانو سے ملنا اس کے لئے مشکل نہیں ہوگا۔جنید سڑک کی طرف جانے کے لئے بھاگ ضرور رہا تھا لیکن اس کی رفتار اب اتنی تیز نہیں تھی۔
جنید ابھی کچھ ہی آگے گیا تھا کہ اچانک ایک طر ف سے مٹی کی دھول اڑاتی جیپ آکر اس کے سامنے کھڑی ہوگئی۔اندر کون تھا جنید دیکھ نہیں سکا اور وہ اچانک جیپ دیکھتے ہی اپنا رخ تبدیل کرکے دوسری طرف بھاگنے لگا۔
جنید بھاگ رہا تھا اور جیپ اس کے تعاقب میں تھی۔اس کے تعاقب میں آنے والی جیپ کی تیز ہیڈ لائیٹس کا فائدہ جنید کو بھی ہورہا تھا کہ اسے راستہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اسے بھاگنے میں آسانی ہورہی تھی لیکن وہ جگہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔بھاگ دوڑ کا سلسلہ جاری رہا اور ایک دم جیپ اس کے سامنے آڑھی ترچھی کھڑی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی جیپ کے اندر سے تین،چار آدمی باہر نکلے اور جنید کی طرف بھاگے۔
جنید ان سے بچنے کے لئے دوسری طرف بھاگ کھڑا ہوا۔وہ ان آدمیوں میں گھر گیا تھا۔بھاگ کر نکل جانا جنید کے لئے مشکل ہوگیا تھا۔آخرکار ان چار آدمیوں نے جنید کو قابو میں کرلیا۔ جنید ان سے اپنے آپ کو چھڑانے کے لئے مزاحمت کرنے لگا۔اس کی مزاحمت بے کار گئی اور انہوں نے جنید کے منہ پر بوری ڈال کر اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیئے اور پھر جنید کو جیپ میں ڈال دیا۔
جنید چلانے لگا۔”چھوڑو مجھے…چھوڑو…“
ایک نے اس کے منہ سے بوری اتاری اور دوسرے نے اسی وقت زبردستی اس کا منہ کھول کر اندر کپڑا ٹھونسا اور منہ پر کپڑا باندھ دیا۔جنید کی آواز اس کے حلق میں ہی گھٹ گئی۔پھر جنید کی آنکھوں پر پٹی بھی باندھ دی۔جنید نہ تو بول سکتا تھا اور نہ ہی وہ دیکھ سکتا تھا۔
وہ سب جیپ میں سوار ہوگئے اور جیپ ایک طرف چل پڑی۔
رفتہ رفتہ جیپ اندھیرے میں گم ہوگئی۔
 ### 
ملک صادق کو صبح اس بات کا علم اس وقت ہوا جب ملازم اس کے کمرے میں گیا تو کمرا خالی تھا۔ملازم کا خیال تھا کہ وہ شاید باتھ روم میں ہے۔کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد جب وہ پھر اس کے کمرے میں گیا تو کمرے میں جنید پھر بھی دکھائی نہ دیا تو ملازم نے باتھ روم کی طرف منہ کرکے آہستہ سے آواز دی۔
”باوٴ جی…باوٴ جی…“
باتھ روم سے کوئی آواز اور کسی قسم کی آہٹ بھی سنائی نہیں دی۔
ملازم کچھ انتظار کے بعد باتھ روم کے دروازے کے پاس چلا گیا۔ملازم نے ڈرتے ہوئے باتھ روم کے دروازے پر دستک دی تو دروازہ خود بخود ہی کھل گیا۔ملازم نے اندر جھانکا تو اندر کوئی نہیں تھا۔تب ملازم نے اچھی طرح سے باتھ روم دیکھا اور سیدھا ملک صادق کے پاس پہنچ کر بتادیا کہ کمرے میں باوٴ جنید نہیں ہے۔
ملک صادق کے لئے یہ بات حیران کن تھی کہ جنید کہاں چلا گیا۔
اسی دوران ایک دوسرے ملازم نے آکر یہ اطلاع دی کہ جب وہ صبح اُٹھا اور حویلی کا گیٹ کھولنے کے لئے گیا تو گیٹ کا کُنڈا کھلا ہوا تھا۔ملک صادق یہ سنتے ہی چونکا۔
”منظور کو بلاوٴ…“
آناً فاناً منظور بھی آگیا۔جب ملک صادق نے اسے بتایا تو وہ سوچتے ہوئے بولا۔” شہری بابو ہے سیر کے لئے نکل گیا ہوگا۔“
”جب وہ یہاں ہے وہ کبھی سیر کے لئے نہیں گیا۔
“ ملک صادق بولا۔
”شاید آج موڈ بن گیا ہو۔“منظور نے کہا۔
اس دوران بشارت بھی آگیا۔اسے بھی پتا چل گیا تھا۔بشارت کو دیکھتے ہی ملک صادق بولا۔”سنا تم نے،جنید اپنے کمرے میں نہیں ہے۔“
”وہ کہاں جائے گا ابا جی آپ تو ایسے ہی پریشان ہوگئے ہیں۔سیر ویر کے لئے نکل گیا ہوگا ابھی آجائے گا۔“بشارت لاپروائی سے بولا۔
ملک صادق چپ ہوگیا۔
منظور کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ناشتے کا وقت بھی گزر گیا تھا۔ملک صادق کی بے چینی بڑھتی ہی جارہی تھی۔اس وقت وہ بشارت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔بشارت کے ذہن میں جنید کی باتیں گردش کررہی تھیں۔
”جنید کہیں چلا تو نہیں گیا۔؟“
”وہ کہاں جاسکتا ہے۔آجائے گا۔“
”اگر وہ چلا گیا تو جانتے ہو کہ کیا ہوگا۔اس گاوٴں میں فیکٹری لگانے کا میرا خواب اُدھورا رہ جائے گا۔
میری شان میں جو چار چاند لگنے والے تھے وہ نہیں لگیں گے۔“ ملک صادق نے کہا۔
بشارت نے پوچھا۔”ابا جی ایک بات تو بتائیں۔ہمارے پاس کتنا پیسہ اور کتنی زمین ہے۔“
بشارت کا متانت میں ڈوبا چہرہ دیکھ کر ملک صادق نے سوال کیا۔”تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو۔؟“
”میں سوچ رہا ہوں کہ اتنا پیسہ اور اتنی زمین ہونے کے باوجود ہم اور پیسہ کمانے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔
اس پیسے کے لئے وہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا جس کی اہمیت پیسے اور زمین سے زیادہ تھی۔ہم بے جان چیزوں سے رشتہ جوڑنے کے لئے انسانی رشتوں کو کیوں بھول جاتے ہیں۔؟“
”اوئے…یہ تم نے کیسی باتیں شروع کردی ہیں۔یہ تم کس رشتے کی بات کررہے ہو جس کے ٹوٹنے کا آج تجھے افسوس ہورہا ہے…کہیں تجھے تیری بیوی کے جانے کا افسوس تو نہیں ہورہا ہے۔؟“ملک صادق اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
”جس چیز کا کبھی احساس نہیں ہوا اب بڑی شدت سے اس احساس نے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔“
”دیکھ بشارت…جو تم سوچ رہے ہو یہ سوچنا بند کرو۔دولت سے بڑھ کر کوئی رشتہ بڑا نہیں ہوتا۔“
بشارت نے اپنے باپ کی طرف غور سے دیکھا اور بولا۔”پھر ہم باپ اور بیٹے کے رشتے میں کیوں بندھے ہوئے ہیں۔؟ایک دوسرے کو چھوڑ کر دولت کو کیوں اہمیت نہیں دیتے۔
؟ میں آپ کی کیوں مان رہاہوں۔کسی کام کے لئے آپ مجھے کیوں آواز دیتے ہیں کسی زمین کے ٹکڑے کو کیوں نہیں بلاتے۔؟ پندرہ دن پہلے جب امی کی طبیعت خراب ہوئی تھی تو انہیں آدھی رات کو ڈاکٹر کے پاس میں لے کر گیا تھا،دولت کا انبار ان کی خدمت کے لئے نہیں بھاگا تھا۔نہیں ابا جی دولت سے بڑھ کر وہ رشتے ہیں جو خون کے رشتے ہوتے ہیں۔جو انسانی رشتے ہوتے ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ میرا بسا ہوا گھر اُجڑ گیا ہے۔اس دولت کی وجہ سے۔“ بشارت کہہ کر چلا گیا اور ملک صادق دم بخود کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔
دوپہر ہوگئی تھی ،جنید کا کہیں پتا نہیں چلا تھا۔ملک صادق کے اندر ایک تغیر نے جنم لے لیا تھا۔اس کے اندر جنید سے زیادہ اپنے بیٹے کی فکر ہونے لگی تھی ۔اس کا دھیان بار بار بشارت کی طرف جارہا تھا۔اس کی باتیں بار بار یاد آرہی تھیں۔سہ پہر تک جنید کی واپسی تو نہیں ہوئی لیکن ملک صادق کے قدم اپنے بیٹے کے پاس جانے کے لئے اُٹھ گئے تھے۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum