Episode 55 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 55 - زنجیر - فاروق انجم

”کیا یہ بنگلہ ٹھیک نہیں ہے۔یہاں انہوں نے ایک مدت گزاری تھی اور وہ بنگلہ تو خریدنے کے بعد ان کے زیادہ استعمال میں نہیں رہا۔“ملازم نے ڈرتے ڈرتے کہہ ہی دیا۔
”تم نہیں جانتے لیکن مجھ سے وہ اس بارے میں پہلے ہی بات کرچکے تھے۔اس لئے تم ویسا ہی کرو جیسا میں کہہ رہا ہوں۔تمام ملازمین کو لے جاوٴ اور بنگلے کی اچھی طرح سے صفائی کرکے تعزیت کے لئے آنے والوں کے بیٹھنے کا انتظام کرو۔
”جی بہتر۔“ملازم کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی احتشام نے ایک نظر پورے بنگلے پر دڑائی۔سحر بانو اس کی نظر سے پوشیدہ دروازے کے پیچھے کھڑی تمام باتیں سن رہی تھی۔مشتاق احمد کی موت کا اسے بھی علم ہوگیا تھا۔مشتاق احمد کی اچانک موت نے سحر بانو کو خیرہ کردیا تھا۔

(جاری ہے)

سحر بانو نے سوچا کہ احتشام کہیں اسے اس بنگلے سے نکالنے کی کوشش نہ کرے۔
وہ جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔اس نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کیا اور کچھ دیر وہ مضطرب یہ سوچتے ہوئے ٹہلتی رہی کہ وہ کیا کرے۔اس کا دل بھی دھڑک رہا تھا۔اسے اس بات کا بھی خوف تھا کہ ملازمین کے چلے جانے سے کہیں احتشام اسے کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔
ایک دم اس کا ذہن ان ہیروں اور کرنسی کی طرف چلا گیا جو اس نے اسی کمرے میں ایسی جگہ چھپا دی تھی کہ کسی کی نظر اس طرف جا ہی نہیں سکتی تھی۔
اس نے سوچا اگر احتشام نے اسے زبردستی اس بنگلے سے نکال دیا تو ان ہیرو ں اور کرنسی کا کیا ہوگا۔وہ اسے نکال کر اپنے ہاتھ میں بھی نہیں پکڑ سکتی اس طرح سے احتشام پر ہیروں اور کرنسی کی حقیقت منکشف ہوجائے گی۔ایک بات کا اطمینان اسے ضرور تھا کہ یہ بنگلہ اب اس کے نام ہوچکا تھا اور اس کے کاغذات اس کے پاس تھے۔ان کاغذات کو بھی سحر بانو نے ہیروں اور کرنسی کے بیگ میں ڈال کر اسی جگہ چھپا دیئے تھے۔
سحر بانو خوفزدہ کمرے میں کبھی ٹہلنے لگتی اور کبھی وہ رک کر دروازے کی طرف دیکھنے لگتی ۔ ہر پل اسے یہی لگتا تھا کہ ابھی دروازے پر دستک ہوگی اور باہر احتشام کھڑا ہوگا۔وقت گزر رہا تھا لیکن باہر کسی کی آہٹ بھی سنائی نہیں دی تھی۔سحر بانو اسی شش و پنج اور خوف میں معلق تھی۔
سحر بانو کا ڈر اور خوف اپنی جگہ تھا ،جبکہ احتشام کبھی بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا۔
سحر بانو کو ٹھکانے لگانے کا کام وہ اختر پٹھان کے ذمے لگا چکا تھا۔وہ اپنا کھیل بڑے زیرک انداز میں کھیل رہاتھا۔
اس بنگلے کے ملازمین اس بنگلے کی طرف چلے گئے تھے جہاں مشتاق احمد کی تدفین کا انتظام کرنا تھا۔اب اس بنگلے میں صرف ایک چوکیدار رہ گیا تھا جو غمزدہ اپنی کرسی پر براجمان تھا۔
احتشام کے قدم مشتاق احمدکے بیڈ روم کی طرف اُٹھ گئے تھے۔
اس نے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا اور پھر اندر جاکر اس نے مشتاق احمد کی الماری کا ایک ایک کونہ بڑی احتیاط سے دیکھا،وہاں پر موجود ایک ایک کاغذات کو اس نے پڑھا اور پھر اسی جگہ رکھ دیئے۔کوئی بھی کاغذ اس کے کام کا نہیں تھا۔
جب اس نے مشتاق احمد کے کمرے کی اچھی طرح سے تلاشی لے لی تو وہ ہونٹ بھینچ کو کمرے سے باہر نکل گیا۔اس کے چہرے پر الجھن تھی۔
وہ دل ہی دل میں مشتاق احمد کو برا بھلا بھی کہہ رہا تھا جس نے ایک بھی اس کے کام کا کاغذ اس کمرے میں نہیں چھوڑا تھا۔اس نے سوچا کہ شاید کوئی کاغذ اسے مشتاق احمد کے آفس سے مل جائے ۔اگر وہاں بھی کچھ نہ ملا تو پھر اس کا وکیل رضوی ہی ایک ایسی تجوری تھا جس کے خانے میں جانے کیا کیا پوشیدہ ہوگا۔اس بنگلے کے کاغذات جو سحر بانو کے نام پر تھے،وہ فائل بھی اسے کہیں نہیں ملی تھی۔
یقینا وہ فائل رضوی کے پاس ہی ہوگی۔
احتشام کا رخ اب سحر بانو کے کمرے کی طرف تھا۔ وہ ایک ایک قدم بڑے اطمینان سے اُٹھا رہا تھا۔جب وہ سیڑھیان چڑھ رہا تھا تو اسے تین فون کال موصول ہوئی تھیں۔اس نے ہر کال اطمینان سے سنی اور غمزدہ لہجے میں مشتاق احمد کی موت کے بارے میں بتایا۔ایک کال مشتاق احمد کی بیٹی کی بھی تھی۔
فون کال سے فارغ ہوکر اس نے سحر بانو کے کمرے کے سامنے کھڑے ہوکر دروازے پر دستک دی تو اندر کھڑی سحر بانو چونک گئی۔
احتشام نے ایک بار پھر دستک دی۔سحر بانو نے سوچا کہ وہ کیا کرے۔دروازہ کھول دے ،یا چپ چاپ کھڑی رہی۔ہوسکتا ہے کہ احتشام اکیلا نہ ہو۔اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہو ۔جب تیسری بار دستک ہوئی تو سحر بانو نے ہمت کرکے اور یہ سوچ کر کہ یہ بنگلہ اب اس کے نام ہے اور وہ اس بنگلے کی مالکن ہے،اس نے دروازہ کھول دیا۔سامنے احتشام کھڑا تھا۔
”ایم سوری …میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا۔
؟“احتشام نے بڑے ادب سے پوچھا۔
”نہیں۔“سحر بانو نے نفی میں گردن ہلائی۔
”میں آپ کو ایک افسوس ناک خبر دینے کے لئے آیا ہوں۔آپ کا تعلق جانے بھائی صاحب کے ساتھ کیا تھا،کہاں سے وہ آپ کو اس شیش محل میں لے آئے،اس تعلق کے ناطے میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ وہ اچانک ہارٹ اٹیک سے اس دنیا میں نہیں رہے۔“ احتشام نے نشتر چلا تے ہوئے بھی اپنے لہجے کو اپنے قابو میں رکھا تھا۔
سحر بانو کو پتا تو پہلے ہی چل چکا تھا پھر بھی اس نے چونکنے کی ادکاری کرتے ہوئے غمناک لہجے میں کہا۔”کیا واقعی ایسا ہوگیا ہے۔؟“
”یہ حقیقت ہے۔ان کی تدفین چند روز میں ان کے دوسرے بنگلے میں ہوگی۔ان کے بچے باہر سے آئیں گے تو پھر ہی تدفین ہوگی۔آپ اسی جگہ رہنا چاہئیں گی کہ اس بنگلے میں جانا پسند کریں گی۔“
”آپ کیا چاہتے ہیں۔
؟“
”یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔“احتشام نے کہتے ہی اپنی رائے دی۔”ویسے میرا خیال ہے کہ ابھی آپ یہیں رک جائیں۔ان کے بیٹوں کو آنے میں دو،چار رن لگ جائیں گے پھر ہی تدفین ہوگی۔“
”بہتر۔میں اسی بنگلے میں رک جاتی ہوں۔“
”بھائی صاحب نے کوئی کاغذات آپ کو دیئے تھے کیا۔“احتشام نے پوچھا۔” میرا مطلب ہے کہ کوئی کاغذ آپ کو رکھنے کے لئے دیا ہو۔
”کیسے کاغذات۔؟“ سحر بانو نے انجان بنتے ہوئے سوال کیا۔”میرے علم میں کوئی کاغذ نہیں ہے۔“
”میں ایسے ہی پوچھ رہا ہوں۔شاید انہوں نے کوئی فائل آپ کو دے دی ہو۔“ احتشام نے کہا۔
”مجھے انہوں نے کوئی فائل نہیں دی تھی،کیا کوئی ضروری فائل تھی۔“سحر بانو کے دھیمے لہجے میں اعتماد تھا۔
احتشام نے سوچا کہ سحر بانو سچ کہہ رہی ہے۔
اگر اس کے پاس وہ فائل ہوتی تو اس کا لہجہ ایسا نہ ہوتا۔اس لے لہجے میں معصومیت اور لاعلمی کی جھلک عیاں تھی۔اب یہ سحر بانو کی اداکاری تھی کہ احتشام جیسا مشاق شخص بھی اس کی بات پر یقین کر بیٹھا تھا۔
”اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں۔“احتشام نے اجازت چاہی۔
”جی پوچھیں۔“
”بھائی صاحب پر آپ نے کیا جادو کیا تھا کہ وہ آپ کو اس بنگلے میں لے آئے اور تخت پر بھی بیٹھا دیا۔
”یہ ان کے دل کی نرمی تھی کہ انہوں نے مجھ بے سہارا پر ترس کھایا،اس کے علاوہ کوئی بات نہیں تھی۔“سحر بانو نے جواب دیا۔
احتشام اس کا جواب سن کر چپ ہوگیا۔اس کا د ل تو یہ چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی سحر بانو کا بازو پکڑے اور اسے بنگلے سے نکال دے۔لیکن وہ فی الحال ایسا نہیں کرسکتا تھا۔وہ کاغذات پڑھ چکا تھا۔یہ بنگلہ اس کے نام ہوگیا تھا۔
ابھی اس بات کی تصدیق باقی تھی کہ وہ کاغذات رضوی کے پاس تھے کہ سحر بانو اس سے جھوٹ بول رہی تھی۔دوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ سحر بانو کو اس بنگلے سے ایسے ہی غائب کروانا چاہتا تھا جیسے وہ کبھی اس بنگلے میں آئی ہی نہیں تھی۔وہ سحر بانو کے ساتھ الجھ کر کوئی ہنگامہ برپا نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے اس کے لئے مشکل کھڑی ہوجائے۔
”ٹھیک ہے اپنا خیال رکھیئے گا۔
میں چلتاہوں۔کل ملاقات ہوگی۔میں چوکیدار کو بھی اپنے ساتھ لے کر جارہا ہوں۔وہ بھائی صاحب کا پرانا وفادارغلام ہے۔غم سے نڈھال ہے۔ آپ دھیان سے رہنا ۔“احتشام سیڑھیوں کی طرف چلا گیا۔
”ٹھیک ہے۔“
گیٹ کے پاس جاکر احتشام نے چوکیدار سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ آجائے ۔کار بنگلے سے باہر نکل گئی تھی۔چوکیدار نے گیٹ بند کردیا تھا۔احتشام نے ابھی باہر سے تالا نہیں لگایا تھا۔
وہ یہ کام چوکیدار کو اس بنگلے میں چھوڑنے کے بعد کرنے والا تھا۔احتشام نے اختر پٹھان کے لئے راستہ بالکل صاف کردیا تھا۔اب وہ آسانی سے سحر بانو کو اس بنگلے سے غائب کرسکتا تھا۔اور کوئی ثبوت بھی نہ بچتا۔کسی کے کانو ں کان خبر بھی نہ ہوتی کہ اس بنگلے میں مشتاق احمد کسی سحر بانو کو لے کر بھی آئے تھے کہ نہیں اور اگر لے کر آئے تھے تو وہ خود ہی جانے کہاں بغیر بتائے چلی گئی۔
جب بنگلے کا گیٹ بند ہوگیا تو سحر بانو نے کھڑکی چھوڑ دی۔سحر بانو نے احتشام کے اندر چھپی ہوئی نفرت دیکھ لی تھی۔
سحر بانو نے سوچا اس بنگلے میں اب وہ اکیلی ہے۔ملازمین چلے گئے ہیں۔خود بخود اس کے لئے بنگلہ خالی ہوگیا ہے۔اب کوئی اس کی اجازت کے بغیر نہ اندر آسکتا ہے اور نہ باہر جاسکتا ہے۔سحر بانو کو مشتاق احمد کی موت کا شدید افسوس تھا۔وہ ایک طرف بیٹھ کر آنسو بہانے لگی۔ جب اس کا دل ہلکا ہوا تو کمرے سے باہر نکلی اور گیٹ اندر سے بند کردیا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum