Episode 56 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 56 - زنجیر - فاروق انجم

احتشام کو جیسے ہی موقعہ ملا وہ سیدھا آفس چلا گیا۔ اس وقت اس کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا جب آفس سے بھی اس کے مطلب کا کوئی کاغذ کوئی رجسٹری نہ ملی۔اس نے موبائل فون نکال کر اختر کا نمبر ملایا اور رابطہ ہوتے ہی پہلے اس نے مشتاق احمد کی موت کی خبر دی اور اس کے بعد بولا۔
”میں نے تمہارے لئے میدان خالی چھوڑ دیا ہے۔اس بنگلے میں اس لڑکی کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے۔
اب یہ تم دیکھ لو اس لڑکی کو کب اور کس وقت اس جگہ سے غائب کرنا ہے۔اور یہ کام ذرا جلدی کرنا۔“
”تم نے اچھا کیا کہ راستہ صاف کردیا ہے۔یہ کام شام ہوتے ہی کروں گا۔“دوسری طرف سے آواز آئی۔
”تم شام کا کیوں انتظار کررہے ہو۔ابھی یہ کام کیوں نہیں کرسکتے ، اب کیا مسئلہ ہے ۔؟ “ احتشام نے کہا۔

(جاری ہے)

”مجھے زیادہ پتا ہے کہ مجھے اپنا کام کب اور کیسے کرنا ہے۔
تم فکر نہیں کرو۔شام ہوتے ہی میں اس لڑکی کو اس جگہ سے غائب کردوں گا۔اب یہ میری فکر ہے تمہاری نہیں ہے۔“ اختر نے کہا۔
”مجھے ایک کاغذ بھی نہیں ملا جو میرے مطلب کا ہو۔سب کچھ اس بوڑھے نے اس وکیل کے پاس رکھا ہوگا۔اس وکیل کو بھی ہاتھ میں کرنا پڑے گا ۔مان گیا تو ٹھیک ہے ورنہ اسے مار دیں گے۔“
”تالے کی کنجی کو کبھی توڑا نہیں کرتے۔
وہ وکیل ہر اس تالے کی چابی ہے جس سے تمہاری خوشحالی کا دروازہ کھلے گا۔اسے مٹھی میں کرنا۔جذباتی مت ہونا ۔ورنہ ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔“اختر نے مشورہ دیا۔
”کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔اب بھی میں ہاتھ ہی مل رہا ہوں،اتنے سال صبر کے بعد بھی کچھ نہیں مل رہا ہے۔“احتشام ڈھیلا ہوگیا۔
”بنگلے کا گیٹ کو باہر سے تالا تو نہیں لگایا۔؟“ اختر نے پوچھا۔
”نہیں ابھی لگانے کے لئے جانا ہے۔“
”تالا نہیں لگانا بلکہ تم گیٹ کی چابی لے کر شام چھ بجے بنگلے کے پاس پہنچ جانا۔ٹھیک چھ بجے کا وقت یاد رکھنا۔“
”یاد رکھوں گا۔“احتشام نے کہا اور رابطہ منقطع ہوگیا۔
###
چھ بجے سے بھی پہلے احتشام بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا تھا۔وہ سڑک کی ایک طرف کار کھڑی کرکے اختر کا انتظار کررہا تھا۔
اس نے اپنی گھڑی پر وقت دیکھا پونے چھ کا وقت ہورہاتھا۔
اختر بھی ٹھیک وقت پر اپنے ٹھکانے سے نکل آیا تھا۔وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے تعاقب میں ایک درجن سادہ وردی میں ملبوس پولیس والے تھے۔
اختر نے جب ڈاکٹر رفاقت کو قتل کیا تھا تو اس کے وہم و گھمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ اس جگہ اپنا ایک ثبوت چھوڑ آیا ہے۔وہ ثبوت اس وقت ڈاکٹر رفاقت کی بیوی نادیہ کے ہاتھ لگ گیا تھا جب ڈاکٹر رفاقت کی لاش اس کمرے سے منتقل کی جارہی تھی۔
وہ ثبوت ایک چابی تھی۔وہ چابی ایک کی رنگ میں تھی اور خوبصورت کی رنگ ہاشم زبیری کی ٹرانسپورٹ گڈز کمپنی کا تھا۔اس کی رنگ کو نادیہ بہت اچھی طرح سے پہنچاتی تھی۔نادیہ نے اس چابی کو کپڑے سے اُٹھایا اور اپنے بھائی انسپکٹر زاہد کو اس بارے میں بتا دیا۔
انسپکٹر زاہد کو نادیہ نے بتایا تھا کہ یہ کی رنگ ہاشم زبیری کی ٹرانسپورٹ گڈز کمپنی کا ہے۔
اس کی رنگ سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی تھی کہ ڈاکٹر رفاقت کو مروانے والا ہاشم زبیری ہے ۔ کیونکہ ایسے کی رنگ کمپنی کا اشتہار ہوتے ہیں۔جو مختلف لوگوں میں بانٹ دیئے جاتے ہیں۔البتہ اس کی رنگ میں جو چابی تھی وہ ایک کار کی تھی۔
انسپکٹر زاہد نے انتہائی راز داری سے تمام قانونی کارروائی مکمل کی اور اس تلاش میں لگ گیا کہ وہ کار کی چابی کس کی ہے۔
جب اختر پٹھان قتل کرنے کے لئے ڈاکٹر رفاقت کے ہسپتال میں گیا تھا تو وہ اپنی کار میں نہیں گیا تھا،البتہ اس کی کار کی چابی اس کی جیکٹ کی جیب میں تھی جو مزاحمت کے دوران گر گئی تھی۔
کئی دن تک اسے اپنی کار کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔جب ایک بار اسے اپنی کار کی ضرورت محسوس ہوئی تو اسے چابی نہیں مل رہی تھی۔پھر اسے اس کار کی دوسری چابی لی اور کار لے کر چلا گیا۔
انسپکٹر زاہد نے بہت دنوں سے اپنا ایک آدمی ہاشم زبیری کے تعاقب میں بھی لگا رکھا تھا۔ اور پھر نادیہ کے کہنے پر اس نے ایک آدمی اختر پٹھان کے پیچھے بھی لگا دیا تھا۔نادیہ کی ایک بار ہی اختر پٹھان سے ہاشم زبیری کی ایک پارٹی میں سامنا ہوا تھا۔اس دن ڈاکٹر رفاقت نے مختصر بتایا تھا کہ یہ بہت خطرناک آدمی ہے اور ہاشم زبیری کے حکم کا غلام ہے۔
نادیہ نے سرسری اس رات اختر پٹھان کو اپنے ہسپتال میں بھی دیکھا تھا جس رات اس نے ڈاکٹر رفاقت کا قتل کیا تھا۔ لیکن نادیہ ایک ایمرجنسی میں مصروف تھی اس لئے اس نے نہ تو اس طرف دھیان دیا اور نہ ہی اس بارے میں سوچا تھا۔قتل کے بعد جب نادیہ کے ہاتھ میں ’کی رنگ ‘ والی چابی ملی تو اس کی آنکھوں کے سامنے ساری فلم چل گئی تھی۔تب اس نے ساری بات اپنے بھائی انسپکٹر زاہد کو بتائی تھی اور انسپکٹر زاہد نے فوراً کسی بھی کارروائی سے اجتناب برتتے ہوئے دھیرے دھیرے قدم اُٹھانا شروع کردیا تھا۔
اس دن جونہی اختر نے کار ایک جگہ کھڑی کی تھی۔انسپکٹر زاہد کے آدمی نے اس کا ر کے پاس جاکر جونہی چابی لگائی اس کار کو لگ گئی۔پولیس والے نے اس بات کی اطلاع انسپکٹر زاہد کو دے دی۔انسپکٹر زاہد نے اسے تاکید کی کہ وہ اس پر مسلسل نظر رکھے۔
اختر نے احتشام کے دیئے ہوئے حدف کو ٹھکانے لگانا تھا۔شام ہوچکی تھی ۔ اندھیرا پھیل گیا تھا۔
اختر کا رخ مشتاق احمد کے بنگلے کی طرف تھا۔بتائی ہوئی جگہ پر احتشام اپنی کار میں بیٹھا اس کا انتظار کررہا تھا۔اختر کی کار ابھی کچھ فاصلے پر تھی کہ اچانک انسپکٹر زاہد کی جیپ سرعت سے آگے آئی اور اختر کی کار کے آگے بریک لگادی۔اختر بھی غافل ڈرائیو نہیں کررہا تھا،جونہی اس نے پولیس وین دیکھی تو اس نے ایک دم کار کا اسٹیرنگ گھمایا اور دوسری طرف سے اپنی کار نکال کر لے گیا۔
اب انسپکٹر زاہد کی جیپ ،احتشام کی کار کے تعاقب میں تھی۔دونوں گاڑیاں رفتار سے سڑک پر دوڑ رہی تھیں۔اب جس سڑک پر دونوں ایک دوسرے کے تعاقب میں تھیں،وہ اس کالونی کی سڑک تھی اس لئے وہاں ٹریفک نہیں تھی۔
اختر سوچ رہا تھا کہ پولیس اس کے پیچھے کیوں لگ گئی ہے۔؟وہ اپنا کام انتہائی ہوشیاری سے کرتا آیا ہے اس نے کبھی کوئی ثبوت نہیں چھوڑا،وہ پولیس کی نظر میں کبھی آیا ہی نہیں، پھر پولیس اس کے پیچھے کیوں لگی ہے۔
اس بھاگ دوڑ میں اختر کی کار بے قابو ہوکر کھمبے کے ساتھ ٹکرا گئی۔کار آگے سے تباہ ہوگئی تھی۔ونڈ اسکرین ٹوٹ گئی تھی۔اختر کا ماتھا اسٹیرنگ سے ٹکرا گیا تھاجہاں زخم آگیا تھا اور خوب بہنے لگاتھا۔اختر سخت چمڑی کا بنا ہوا وہ انسان تھا جس کا دل بھی پتھر کا تھا۔وہ ایک دم کار سے باہر نکلا اور ایک طرف دوڑ لگا دی۔پولیس اب بھی اس کے پیچھے تھی۔
اختر اندھا دھند بھاگ رہا تھا۔بھاگتے بھاگتے وہ گلیوں میں کہیں گم ہوگیا اور پولیس اس کو متلاشی نگاہوں سے ڈھونڈتی رہی۔
انسپکٹر زاہد بہت دیر تک دائیں بائیں ہر طرف اس کو تلاش کرتا رہا،لیکن اخترتو بالکل ہی غائب ہوگیا تھا۔تھک کر پولیس واپس لوٹ گئی۔
احتشام بھی مضطرب اختر کا انتظار ایسے کررہا تھا جیسے وہ کانٹوں پر بیٹھا ہو۔
بہت دیر ہوگئی تھی۔اسے فون پر فون آرہے تھے۔تعزیت کے لئے اس بنگلے میں عزیز رشتے دار جمع ہورہے تھے۔غصے اور نفرت سے احتشام بھی اس جگہ سے چلا گیا۔وہ بڑے غصے سے کار چلاتا ہوا بنگلے میں پہنچا۔
ایک گھنٹہ تک احتشام مہمانوں کے ساتھ رہا۔لیکن اس کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔جب خاص عزیز رشتے دار چلے گئے اور کچھ ہی لوگ رہ گئے تو احتشام بہانہ کرکے وکیل رضوی کی طرف چلا گیا۔
اس کی دانست میں اختر نے اس کو دھوکہ دے دیا گیا تھا۔اس کا موبائل فون بھی بند تھا۔احتشام کے لئے اب ایک ہی کرن تھی کہ وہ رضوی کو کسی طرح سے شیشے میں اتار کر یہ معلوم کرسکے کہ مشتاق احمد کی جائیداد میں سے وہ کیسے اپنے نام کچھ کرسکتا ہے۔ رضوی اگر دولت کی چمک میں نہا گیا تو وہ اس کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا۔رضوی کو وہ ایک ایماندار وکیل کے طور پر جانتا تھا لیکن پیسے کی تپش میں بڑے بڑوں کو اس نے پگھلتے ہوئے دیکھا تھا۔
رضوی کو مشتاق احمد کی رحلت کا علم ہوچکا تھا۔وہ اپنے گھر کے خاص حصے میں سگریٹ کے دھوئیں میں جام نوش کررہا تھا۔نشہ رفتہ رفتہ اس پر غالب ہورہا تھا۔اس وقت آنے والے مہمانوں کو وہ کبھی نہیں بلاتا تھا جانے اس وقت وہ کس موڈ میں تھا کہ اس نے ملازم سے کہہ دیا کہ اسے اندر بھیج دو۔
احتشام جب اس کمرے میں گیا تو دھوئیں میں جام کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔
مصافحہ کرنے کے بعد جب احتشام اس کے سامنے بیٹھ گیا تو رضوی بولا۔
”میں کبھی کسی کو اس وقت اپنے پاس نہیں بلاتا۔ایک مشتاق احمد تھا جو آجاتا تھا۔لیکن پیتا نہیں تھا۔مجھے روکتا رہتا تھا کہ یہ چیز اچھی نہیں ہے۔میں نے اسے کئی بار سمجھایا کہ جب ہم جیسے بڑے لوگ پیسہ کماتے ہیں تو پھر اس کمائی کو ہضم کرنے کے لئے اس کے گھونٹ لیتے ہیں۔ مشتاق آگے سے کہا کرتا تھا کہ ہمیں اپنی ہر کامیابی پر جھک جانا چاہئے۔
شکر کرنا چاہئے۔جو میں یہ کرتا ہوں یہ شکر نہیں عذاب کو بلانے کی وہ دستک ہے جو ہم ہاتھ میں جام لے کر اس کے گھونٹ لیتے ہیں۔جیسے جیسے ایک گھونٹ لیتے ہیں وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی دروازے پر اپنی اُنگلی سے دستک دے۔ٹھک۔ٹھک۔ٹھک…“رضوی ایک لمحے کے لئے چپ رہنے کے بعد بولا۔” وہ ٹھیک ہی کہتا تھا۔اس جام کا ہر گھونٹ عذاب کو بلانے کی دستک ہے…“
احتشام اس کی طرف جھک کر بولا۔” مشتاق احمد کے اس بنگلے کے کاغذات آپ کے پاس ہیں۔؟“

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum