Episode 57 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 57 - زنجیر - فاروق انجم

رضوی نے اپنی ڈوبی ہوئی آنکھیں اُٹھا کر احتشام کی طرف دیکھا اور کہا۔”میں نے دنیا میں مشتاق احمد جیسا آدمی نہیں دیکھا۔عجیب آدمی تھا۔عجیب سوچتا تھا اور عجیب کرتا تھا۔تجھے ٹھوس ثبوت کے ساتھ گرفت میں کرنے کے لئے سچ مچ وہ بنگلہ اس لڑکی کے نام کردیا۔“
”وہ کاغذات کہاں ہیں۔“احتشام نے پوچھا۔
”اسی بنگلے میں ہونگے۔“رضوی بولا۔
”آپ کے پاس نہیں ہیں۔؟“
”میرے پاس ان کاغذات کا کیا کام۔میں تو مشتاق احمد کا منہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کیسا بزنس مین ہے۔“
”کیا وہ بنگلہ اس لڑکی کے نام ہوچکا ہے۔؟“احتشام نے پوچھا۔”یا پھر ابھی کوئی کسر باقی ہے۔؟“
”اب وہی اس بنگلے کی مالکن ہے۔کیسی قسمت ہے اس لڑکی کی ۔مجھے اس پر رشک آتا ہے۔ ادھر بنگلہ اس کے نام ہو ا اور اُدھر مشتاق احمد دنیا چھوڑ کر چلا گیا۔

(جاری ہے)

“رضوی کہہ کر تمسخرانہ لہجے میں مسکرایا۔
”کچھ کیجئے…اس بنگلے کی مالکن بدلنے کا کوئی راستہ نکالیں۔“احتشام کی آواز سانپ کی طرف پھنکارتی ہوئی تھی۔
”کچھ نہیں ہوسکتا۔وہ اس کی مالکن ہے۔کاغذات اسی کے پاس ہونگے۔اس بنگلے کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دو۔“
”اور کیا ہے آپ کے پاس…جو ہم آپس میں بانٹ سکیں۔“احتشام نے فی الحال اس بحث کو اسی جگہ ختم کرکے مزید کریدا۔
اس کی بات سن کر رضوی نے کچھ دیر اس کی طرف دیکھا اور پھر بولا۔
”یوں سمجھ لو کہ تم سمندر کے کنارے بیٹھے ہوئے ہو۔سمندر تمہارے سامنے ہے۔“ رضوی نے ایک گھونٹ لے کر کہا۔”یہ پیسہ بڑی عجیب چیز ہے۔جتنا بھی پاس ہو کم ہی لگتا ہے۔ مرنے والا مر گیا اور پیسہ جائیداد لینے والی اس کی اولاد اب میری بوٹیاں نوچے گی۔ اس نے جو وصیت لکھی تھی جب وہ پڑھیں گے تو وہ اولاد شاید مرے ہوئے باپ کو بھی بھول جائے۔
”اس وصیت کو گولی مارو۔آپ میرے لئے کیا کرسکتے ہیں یہ بتائیں۔اور جو آپ اپنے لئے رکھنا چاہئیں وہ آپ کی مرضی۔“احتشام بولا۔
”تمہارا خیال ہے کہ مشتاق احمد کی اولاد سے بھی پہلے ہم آپس میں کچھ بانٹ لیں۔“ رضوی نے کہا۔
”میں یہی چاہتا ہوں۔“
رضوی نے کچھ دیر سوچا اور بولا۔” ٹھیک ہے۔تم مشتاق احمد کی تدفین میں لگ جاوٴ اور میں کاغذات کا ہیر پھیر شروع کردیتا ہوں۔
اب تم اس وقت تک میرے ساتھ رابطہ نہیں کرو گے جب تک مشتاق احمد کی اولاد آکر اسے دفنا نہ دے ۔اس کے بعد جو بکس کھلے گا وہ کسی کے وہم و گھمان میں بھی نہیں ہوگا۔“
”یہ بات پکی ہے ناں۔؟“
”رضوی بھی گوشت پوست کا انسان ہے۔زندگی محض ایمانداری کے سہارے ہی نہیں گزار سکتا۔جو بات کہہ دی ہے وہ لوہے پر لکیر ہے۔لیکن یہ بات صرف ہم دو کے درمیان رہے گی۔
کوئی تیسرا بیچ میں نہیں آئے گا۔“
”یہ بات ہم دو کی ہی ہے۔“احتشام نے کہہ کر اپنا ہاتھ رضوی کی طرف بڑھایا اور رضوی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔دونوں مسکرائے ۔
”اس بنگلے کا بھی کچھ ہوسکتا ہے۔؟“ایک بار پھر احتشام اس بنگلے کا تذکرہ لے آیا۔
”اس لڑکی کی قسمت بہت تیز ہے۔بہرحال اس بارے میں بھی سوچتا ہوں۔ تم مشتاق احمد کی تدفین کا سوچو اور میں ان معاملات پر سوچتا ہوں۔
“ ایسا لگتا تھا کہ رضوی کا نشہ ہرن ہوچکا ہے اور وہ ایک نئی سوچ کے آنے سے کچھ پرجوش ہوگیا ہے۔ احتشام کے دل کو بھی اطمینان سا ہوگیا تھا۔اس کے علم میں تھا کہ رضوی بہت زیرک قانون دان ہے۔وہ کچھ بھی کرکے پانسہ پلٹ دے گا۔
###
ہاشم زبیری نے اختر کی طرف دیکھا جو اس کے سامنے کھڑا تھا۔اختر بمشکل اپنی جان بچا کر کسی نہ کسی طرح سے ہاشم زبیری کے پاس پہنچ ہی گیا تھا۔
ہاشم زبیری کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پولیس اختر کا تعاقب کیوں کررہی تھی۔
”تم نے اپنا کام ٹھیک سے کیا تھا۔“
”میں اپنا کام ٹھیک سے ہی کرتا ہوں۔“
”اس بار تم کچھ گڑبڑ کرآئے ہو۔تمہارے پیچھے پولیس کا لگنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم سے کوئی غلطی ہوگئی ہے جس کی بنیاد پر پولیس تم کو گرفتار کرنے کے چکر میں ہے۔“ہاشم زبیری سوچتے ہوئے بولا۔
”مجھے ایسا نہیں لگتا ہے۔“
”تو پھرکیا بات ہوسکتی ہے۔“
”کہیں جنید کی کوئی چال نہ ہو۔“اختر نے اپنا خیال عیاں کیا۔
”وہ چیونٹی ہے ۔وہ کیا کرسکتا ہے۔جس نے اپنی سانس میرے سامنے میری غلامی میں لی ہو اس سے ایسی اُمید نہیں کی جاسکتی۔تم ایسا کرو سیدھے فارم ہاوس میں چلے جاوٴ۔تب تک اس جگہ سے باہر نہیں نکلنا جب تک میں تمہیں نہ کہوں۔
”فارم ہاوس کیسے جاوٴں۔میرا مطلب ہے کہ میرا باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔“ اختر بولا۔
”تمہارا یہاں رہنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔یہاں سے جانے کا میں انتظام کردیتاہوں۔“ ہاشم زبیری نے کہا۔وہ اختر کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتاتھا ۔اسے اندازہ ہوگیا تھاکہ اختر اب پولیس کی نظر میں آگیا ہے۔ہاشم زبیری کسی بھی صورت اختر کو اپنے پاس رکھنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا۔
ہاشم زبیری نے ایک فون کال کی اور کچھ کہنے کے بعد ہاشم زبیری کمرے سے چلا گیا۔اختر کرسی پر بیٹھ گیا۔زندگی میں پہلی بار اس کے چہرے پر پریشانی دکھائی دے رہی تھی۔بیس منٹ کے بعد ہاشم زبیری کمرے میں داخل ہوتے ہی بولا۔
”میں نے تمہارے جانے کا انتظام کردیا ہے۔تم فارم ہاوس چلے جاوٴ اور اس وقت تک فارم ہاوس میں ہی رہنا جب تک میں تجھے فون نہ کروں۔
”میں فارم ہاو س میں ہی رہوں گا۔“اختر بولا۔
ہاشم زبیری کے حکم پر ایک ملازم کے ساتھ اختر کمر ے سے چلا گیا۔گیراج میں ایک کھٹارہ کار کھڑی تھی۔کار کے ساتھ لگ کر ایک شخص کھڑا تھا جو اپنے میلے کپڑوں سے مکینک لگتا تھا۔اختر نے کار کی طرف دیکھا اور بولا۔
”ہم اس کار میں جائیں گے۔؟“
”کار کی حالت پر مت جایئے۔اس کا انجن نئی کار جیسا ہے۔
“وہ آدمی مسکرا کر بولا۔ ہاشم زبیری اس کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا اور کار ہاشم زبیری کے بنگلے سے باہر نکل گئی۔
اختر کی نگاہیں دائیں بائیں گھوم رہی تھیں۔قریب سے گزرتی ہوئی ٹریفک کو دیکھ کر اسے ایسا ہی لگتا تھا جیسے ابھی پولیس نکل کر اس کے سامنے آجائے گی۔کار چلانے والا نوجوان ٹھیک کہہ رہا تھا۔کار کی حالت خستہ حال تھی اور اس کا انجن نئی کار جیسا تھا۔
وہ کار سڑک پر دوڑ رہی تھی۔
ناجانے پولیس اختر کے تعاقب میں تھی ،یا پھر اختر کاپیچھا پولیس کی تیز نگاہیں کررہی تھیں۔انسپکٹر زاہد اپنی جیپ میں ایک دم نمودار ہوا اور اس کار کے برابر میں آکر انسپکٹر زاہد نے کار کو روکنے کا اشارہ کیا۔
جیسے ہی اختر کی نگاہ پولیس پر پڑی وہ اپنے ساتھی سے بولا۔”تیز چلو…پولیس آگئی۔“
”پولیس آگئی…؟“ڈرائیونگ کرتے ہوئے نوجوان نے ایک نظر دیکھا اور کار کا گئیر بدل دیا۔
نوجوان نے کار کی رفتار اور بھی بڑھا دی تھی۔مصروف سڑک پر پولیس کی وین اختر کی کار کا تعاقب کرنے لگی۔کئی بار کار آگے جانے والی ٹریفک کے ساتھ ٹکراتے ہوئے بچی تھی۔اسی تعاقب میں نوجوان نے کار کا رخ ایک اور سڑک کی جانب موڑ دیا۔پولیس کی وین اس کے پیچھے ہی تھی۔
”ہم کہاں جارہے ہیں۔“اختر نے پوچھا۔
”ان سے پیچھاچھڑانے کے لئے میں یہ نہیں سوچ سکتا مجھے کس طرف جانا ہے، کس طرف نہیں جانا۔
“نوجوان نے جواب دیا۔
”تمہارے پاس پستول ہے۔“اختر نے پوچھا۔
”ہے …کیا کرنی ہے۔“
”میں ان پر فائر کرنا چاہتا ہوں۔“
”یہ مناسب نہیں ہے۔“
”یہی ایک حل ہے۔ وہ ہمارا پیچھا کرنا چھوڑ دیں گے۔مجھے پستول دو جلدی کرو۔“ اختربولا۔
”وہ جوابی کارروائی میں ہم پر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔“نوجوان نے کہا۔
”مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے،مجھے پستول دو۔
“ اختر چیخا۔
”ابھی رک جاوٴ۔“نوجوان نے کہہ کر کار کی رفتار اور بھی تیز کردی تھی۔نوجوان کار چلائے جارہا تھا۔اختر کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ کار کس علاقے میں داخل ہوگئی ہے اور وہ شہر سے کتنی دور نکل آئے ہیں۔ان کی کار ایک سنگل سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ دور تک اندھیرا تھا اور سڑک کے دائیں بائیں فصلیں ایستادہ تھیں۔ایک جگہ جونہی کار نے چھوٹا سا موڑ مڑا، اختر بولا۔
”کار آہستہ کرو۔“
نوجوان کی سمجھ میں نہیں آیا اور اس نے کار آہستہ کردی۔اختر نے ایک لمحے میں کہا۔” تیزی سے نکل جانا۔“اور اس کے ساتھ ہی اس نے دروازہ کھول کر چلتی کار سے باہر چھلانک لگادی۔نوجوان نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ بند کیا اور کار کی رفتار تیزکردی۔اسی اثنا میں پولیس کی جیپ بھی موڑ مڑ کر پیچھے آگئی اور وہ اس جگہ سے کار کے پیچھے آگے نکل گئی۔
اختر کار سے کودتے ہی تین چار قلابازیاں کھانے کے بعد سیدھا کھڑا ہوگیا اور ایک طرف دوڑ لگادی۔جیسے ہی وہ فصلوں سے نکل کر تیزی سے اینٹوں کی بنی سڑک پر آیا ایک جیپ تیزی سے نمودار ہوئی اور اس جیپ کی بریک عین اس وقت چیخ پڑی جب اختر کا فاصلہ محض ایک فٹ رہ گیا تھا۔اختر بھی رک گیا تھا۔جیپ کی لائٹ مدھم ہوئی تو جیپ کے اندر ملک خلیل کا بیٹا الیاس بیٹھا ہوا تھا۔
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور الیاس نے اپنا منہ باہر نکال کر پوچھا۔
”کون ہو تم۔؟“
”مسافر ہوں۔اس علاقے میں بھول کر آگیا ہوں۔رات گزارنے کے لئے جگہ مل سکتی ہے۔“اختر کے لئے یہی بہتر تھا کہ وہ اس گاوٴں میں کسی سے پناہ مانگ لے تاکہ وہ رات محفوظ رہ کر گزار سکے۔الیاس نے اس کی بات سنی اور اپنے محافظ کو اشارہ کیا۔اس نے باہر نکل کر اختر کی تلاشی لی اور اطمینان کرنے کے بعد الیاس نے اختر کو اپنے ساتھ جیپ میں بیٹھا لیا۔
الیاس کی جیپ حویلی میں چلی گئی تھی۔وہ اختر کو اپنے ساتھ مہمان خانے میں لے گیا۔
”کیا نام ہے تمہارا۔؟“الیاس نے پوچھا۔
”نادر۔“اختر نے اپنا اصل نام بتانے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنا فرضی نام بتادیا۔
”کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے۔؟“الیاس نے پوچھا۔
”اس گاوٴں کے ساتھ والے گاوٴں میں میرا چچا رہتے ہیں۔ایک عرصے کے بعد ان سے ملنے کے لئے جارہا ہوں۔
کئی سالوں سے ناراضگی چلی آرہی تھی۔ابا بیمار ہیں اور ان کے کہنے پر ان کو منانے کے لئے جارہا ہوں۔“اختر نے فرضی کہانی بھی سنا دی۔
”کیا نام ہے تمہارے چچا کا۔؟“الیاس بھی کب نامکمل تفتیش چھوڑنے والا تھا۔ 
اختر کو اس کے سوال و جواب پر غصہ آنے لگا۔”میرے چچا کا نام قدیر بخش ہے۔“
”ٹھیک ہے تم رات بسر کرو۔کچھ کھانا پینا ہے تو بتاوٴ ۔“
”نہیں میں سونا چاہتا ہوں۔“
”تم بے فکر ہوکر سو جاوٴ۔صبح میرے آدمی تمہیں ساتھ والے گاوٴں میں چھوڑ آئیں گے۔“الیاس کہہ کر کمرے سے باہر آگیا۔کمرے سے کچھ دور جاکر اس نے اپنے آدمی کو تاکید کی۔”اس کمرے کی نگرانی رکھنا۔مجھے یہ آدمی ٹھیک نہیں لگ رہا۔ضرور کوئی اور کہانی ہے۔کل صبح اس کا پتا چلائیں گے۔“

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum