Episode 60 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 60 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری شاید زندگی میں اتنا کبھی پریشان ہوا ہو جتنا وہ ان دنوں تھا۔ جنید اور سحر بانو کا زخم ابھی تازہ تھا اور اوپر سے اختر کے پیچھے پولیس پڑ گئی تھی۔اختر اس کی طاقت تھی،اس کا ایسا غلام تھا جو صرف اس کا حکم ماننا ہی جانتا تھا۔ ہاشم زبیری کو اپنے اس غلام پر بہت اعتماد تھا۔
ہاشم زبیری کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اس کے آدمی نے اسے بتادیا تھا کہ اختر پٹھان نے چلتی کار سے چھلانگ لگا دی تھی اور اب جانے وہ کہاں ہے۔
ہاشم زبیری نے اختر کو بڑی احتیاط سے اپنے بنگلے سے فارم ہاوس کی طرف بھیجا تھا اور اس کے باوجود پولیس کی نظر اس پر پڑ گئی تھی۔اس کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ اختر پر پولیس کی مسلسل نظر تھی۔ اب ہاشم زبیری یہ جانے سے قاصر تھا کہ پولیس نے اختر کو اس کے بنگلے سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا کہ کہیں راستے سے ہی اسے جا لیا تھا۔

(جاری ہے)

ہاشم زبیری نے اپنے ایک اور آدمی کو بلا لیا۔
اس کا نام نذیر تھا۔اسے سبھی جیرا کہتے تھے۔ اس کے چہرے پر زخم کا نشان بڑا واضح تھا۔ہاشم زبیری کا وہ بھی ایک ایسا مہرا تھا جو اس کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار رہتا تھا۔جب سے ایک لڑائی میں جیرے کے چہرے پر زخم کا نشان پڑا تھا،ہاشم زبیری اس سے بہت کم کام لیتا تھا۔ کیونکہ وہ جیل میں بھی رہ آیا تھا اور پولیس والے اس کی شناخت دو رسے ہی کرلیتے تھے۔
”مجھے اختر کی بہت فکر ہورہی ہے۔پتا نہیں وہ کہاں چلا گیا ہے اور کس حال میں ہے۔ اس وقت اسے ہماری شدید ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی چلے جاوٴ اور اختر کو تلاش کرکے لاوٴ۔“
”اختر کو تلاش کہاں کروں۔“جیرے نے کہا۔
”تم اس جگہ چلے جاوٴ جہاں اختر نے چلتی کار سے چھلانگ لگائی تھی۔“ہاشم زبیری بولا۔
”ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔
”ایک بات کا خیال رکھنا ۔تم یہ کام ایسے کرنا کہ کسی کو کوئی شک نہ پڑے۔تم پہلے ہی پولیس کی نظر میں ہو۔“ہاشم زبیری نے کہا۔
”میں احتیاط کروں گا۔“جیرے نے سر کو تھوڑا سا خم کیا اور چلا گیا۔ہاشم زبیری کے چہرے پر تشویش اور پریشانی عیاں تھی۔
###
مشتاق احمد کا بیٹا نصیر احمد اور اس کے دوسرے بچے باہر سے باپ کی تدفین کے لئے پہنچ گئے تھے۔
اپنے باپ کا آخری با ر چہرہ دیکھنے کے لئیساری اولاد اور ان کے بچے بھی جمع تھے۔ جو باپ زندگی کا آخری حصہ اپنی اولاد کے چہروں کو دیکھنے کے لئے صحرا میں بھٹکتے ہوئے پیاسے کی طرح اُمید سے ٹیک لگائے رہا،وہ اب یہ نہیں دیکھ سکتا تھا اس کی تدفین کے لئے اس کے بچے اس کے ارد گرد موجود ہیں۔
مشتاق احمد کی تدفین ہوگئی تھی۔افسوس کے دن گزر گئے تھے۔
مشتاق احمد کی بیٹی اور داماد کو جانے کی اس لئے جلدی تھی کہ ان کے ڈائزئن کئے ہوئے ملبوسات کی نمائش اور فیشن شو میں چند دن باقی رہتے تھے اور ان کے سر پر بہت سا کام ابھی باقی تھا۔اپنی فلائیٹ سے ایک گھنٹہ پہلے وہ چلے گئے۔
ایک دن کے بعد نصیر احمد اس بنگلے میں رہ گیا تھا۔اس نے اپنی بیوی کو واپس بھیج دیا تھا۔جبکہ باقی بھی کوئی نہ کوئی کام نکال کر چلے گئے۔
باپ کے مرنے کا جو افسوس انہوں نے کرنا تھا وہ کرلیا تھا۔باپ کی چھوڑی ہوئی وسیع جائیداد کا حساب کتاب کرنے کے لئے نصیر احمد کے سر پر زمہ داری تھی۔بہن اور بھائیوں کو نصیر احمد پر پورا بھروسہ تھا۔اور ویسے بھی نصیر احمد باپ کی تدفین کے علاوہ جائیداد کو نظر میں کرنے اور باپ کے وکیل سے ملنے کے لئے باقاعدہ فراغت لے کر وطن واپس آیا تھا۔
نصیر احمد نے احتشام کو اپنے پاس بلا لیا۔
احتشام رشتے میں نصیر احمد کا ماموں تھا لیکن دونوں کی عمر میں پانچ سال کا فرق تھا۔دونوں ایک ساتھ ہوتے تو یہ جاننا مشکل ہوتا تھا کہ احتشام اپنے بھانجے نصیر احمد سے پانچ سال بڑا ہے۔
”آپ ابا جی کے ساتھ ایک عرصے سے کام کررہے تھے۔سب کچھ آپ کے سامنے ہوگا کہ ابا جی کی جائیداد ،پیسہ ،بینک بیلنس اس کا کیا حساب ہے۔“
”مجھ سے بھی زیادہ اس کا علم مسٹر رضوی کو ہے۔
“احتشام بولا۔
”مسٹر رضوی…ابا جی کے وکیل اور دوست۔“نصیر احمد نے داہریا۔”اس وقت کہاں ہیں وہ۔؟“
”شاید اپنے آفس میں ہوں۔میں ان کو بلاوٴں۔“احتشام نے اجازت چاہی۔
”ابھی نہیں۔“نصیر احمد نے کچھ سوچتے ہوئے انکار کردیا۔”پہلے مجھے آپ سے معلومات لینی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں کہ اب اجی نے کتنا چھوڑا ہے۔“
”اس کا اندازہ لگانا میرے لئے مشکل ہے۔
”اندازہ لگانا میرا کام ہے۔آپ صرف نشاندہی کریں گے۔“نصیر احمد بولا۔”مجھے ان کی چیکس بکس چاہئیں۔“
”وہ ان کے آفس میں ہوتی ہیں۔“
”کیا آفس میں بیٹھ کر بات کریں۔؟“
”جیسی تمہاری مرضی۔“
”ابا جی کا ایک بنگلہ اور بھی تھا…“
”وہ بیچ دیا انہوں نے۔“احتشام نے جلدی سے اس لئے کہہ دیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ نصیر احمد اس بنگلے کا خیال اپنے دل سے نکال دے۔
اس بنگلے کو حاصل کرنے کے لئے تو احتشام نے رضوی سے کوئی چکر چلانے کی بات کی تھی اور رضوی اس کے لئے تیار بھی ہوگیا تھا۔
”کسی پارٹی کو بیچ دیا۔؟“
”ہاں…اچھی پارٹی مل گئی تھی اس لئے بھائی صاحب نے بیچ دیا تھا۔“ احتشام نے جواب دیا۔
”کب بیچا تھا۔؟“
”کوئی دو ہفتے قبل…“احتشام نے بلا تامل کہہ دیا۔
”کتنے کا بیچا تھا۔
؟؟“نصیر احمد نے دوسرا سوال کردیا۔
احتشام سوچنے لگا۔”سوا دو کروڑ کا…“احتشام کو اس بنگلے کے مطابق قیمت بھی بتانی پڑی۔
دو ہفتے پہلے ابا جی نے وہ بنگلہ بیچا۔اس کا مطلب ہے کہ وہ پیسہ ابھی بینک میں موجود ہوگا۔“نصیر احمد نے کہنے کے بعد اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔احتشام گڑبڑا سا گیا تھا۔
”ہاں…ہوسکتا ہے…“
”ہوسکتا ہے کیا…ایسا ہی ہوگا۔
اس کے اکاوٴنٹس میں پیسہ موجود ہوگا۔چلیں ان کے آفس میں چلتے ہیں۔“نصیر احمد کھڑا ہوگیا۔احتشام چاہتا تو نہیں تھا کہ نصیر احمد آفس میں جائے۔لیکن وہ مجبور تھا۔اسے غصہ بھی آرہا تھا کیونکہ وہ اس کا ماموں تھا اور اس وقت اس کے سامنے کسی غلام کی طرح بیٹھا اس کے سوالوں کا جواب دے رہا تھا۔
نصیر احمد نے دروازے کی طرف جاتے ہوئے ایک دم رک کر احتشام کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ بنگلہ خریدا کس نے ہے۔؟“
اس سوال کا جواب دینے کے لئے احتشام سوچنے لگا اور پھر بولا۔” کوئی بزنس مین لوگ ہیں۔“
”یہ بنگلہ کتنے کا ہوگا۔“
”یہ بنگلہ …تین کروڑ روپے سے کم نہیں ہے۔“
”اس بنگلے کی رجسٹری کہاں ہے۔؟“
”مسٹر رضوی کے پاس ہوتے ہیں تمام کاغذات۔“احتشام نے جواب دیا۔
”آپ ایک کام کریں۔مسٹر رضوی کے پاس چلے جائیں اور انہیں اپنے ساتھ لے کر آفس پہنچیں۔
میں آفس آپ دونوں کا انتظار کررہاہوں۔“ نصیر احمد نے ایسے حکم دیا جیسے اس کے سامنے اس کا ماموں نہیں بلکہ ملازم کھڑا ہو اور احتشام اسی جگہ کھڑا غصے سے اپنی مٹھیاں کبھی کھولتا اور بند کرتا رہا۔
نصیر احمد کار نکال کر چلا گیا تھا۔احتشام نے بھی کار نکالی اور رضوی کے پاس جانے سے قبل اس کو فون کرکے یہ پوچھا کہ وہ کہاں ہے۔ اس وقت رضوی اپنے گھر میں تھا۔
احتشام سیدھا رضوی کے گھر چلا گیا۔
”آپ کو نصیر احمد بلا رہا ہے۔“
احتشام کی بات سنتے ہی اس کی شکل دیکھتے ہوئے رضوی ہنسنے لگا۔احتشام کو رضوی کی بے وقت کی ہنسی زہر لگ رہی تھی۔
”آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔؟“
”بات ہی ہنسنے کی ہے۔میرے پاس تم نصیر احمد کا پیغام لے کر آئے ہو کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔“اپنی ہنسی روک کر رضوی بولا۔
”نصیر احمد تمہارا بھانجا ہے اور تم اس کے ماموں ہو۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ تم اس کے ملازم ہو…زر خرید غلام ہو…“
یہ بات سنتے ہی احتشام کا غصہ بے قابو ہوگیا اور اس نے رضوی کے سامنے میز پر پڑا پانی سے بھرا ہوا گلاس اُٹھایا اور پوری قوت سے زمین پر دے مارا۔گلاس ٹوٹنے کی آواز کمرے میں ایسے پیدا ہوئی جیسے کوئی دھماکہ ہوگیاہو۔
رضوی کے چہرے پر ابھی تک مسکراہٹ تھی۔
احتشام نے دانت پیس کر کہا۔”کتا بن کر رہ گیا ہوں۔“
ایک بار پھر رضوی نے قہقہہ لگایا۔ اور اپنی ہنسی کے بیچ بولا۔”جس کے پاس پیسہ اور اختیار ہو وہ اپنے سگے باپ کو بھی اپنے حکم کا غلام بنا لیتا ہے۔یہ دنیا ہے۔یہاں دولت،طاقت اور اختیار کی حکومت ہوتی ہے۔“
”میں نے اپنی زندگی اس طاقت کو پانے کے لئے ضائع کردی۔مجھے بہت پہلے کچھ کردینا چاہئے تھا۔
“احتشام کے لہجے میں تاسف تھا۔
”وقت اب بھی تمہارے ہاتھ میں ہے۔“
وقت کی سوئیاں تب ہی تھم سکتی ہیں جب آپ میرا ساتھ دیں۔“
”میں تمہارے ساتھ ہوں۔تم نصیر احمد کے پاس جاوٴ اور اسے کہو کہ میں اچانک شہر سے باہر چلا گیا ہوں۔دو دن کے بعد آوٴں گا۔اور اس دوران تم نصیر احمد کو جان سے مار دو۔اگر یہ کرنے کی ہمت نہیں ہے تو پھر کسی کو پیسہ د ے کر اسے مار دو۔
بس ایک نصیر احمد ہی ہے جس کے پاس باپ کی دولت کا حساب کرنے کا وقت ہے۔اور کوئی نہیں آئے گا۔نصیر احمد ختم تو ساری کہانی ختم اور تم اس دولت کو اپنے نام کروانے کے لئے پھر میرے پاس آنا۔میرا حصہ میری جیب میں اور باقی سب کچھ تمہارے ہاتھ پر ایسے سجادوں گا جیسے مہندی سجائی جاتی ہے۔“ 
احتشام کی نگاہیں رضوی کے چہرے پر مرکوز تھی۔اس نے سوچا رضوی ٹھیک کہہ رہا ہے۔
اب کچھ کرنے کا وقت ہے۔وہ لڑکی بیٹھے بیٹھائے ایک قیمتی بنگلہ لے گئی ۔وہ نصیر احمد کو مار سکتا ہے۔وکیل رضوی اس کے ساتھ ہے۔اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
رضوی نے چپ چاپ احتشام کو دیکھا تو بولا۔”کیا سوچ رہے ہو۔؟“
”سوچ رہا ہوں کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔“
”وکیل ہوں اپنے موکل کو ٹھیک مشورہ دینا میرا کام ہے۔“
”اگر میں نے کچھ کردیا تو میرا ساتھ تو نہیں چھوڑیں گے۔
؟“ایک بار پھر احتشام نے تسلی چاہی۔
”پیسہ کمانے کے لئے میں نے دن رات ایک کردیا۔عمر کے اس حصے میں جب پیسہ زیادہ اور محنت کم لگ رہی ہے تو مجھے کیا برا ہے۔تم یہ کام کرو۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔“ رضوی کا لہجہ مصمم تھا۔کسی پہاڑ کی طرح لگتا تھا۔
”آپ شہر سے باہر ہو اور میں نصیر احمد کے پاس جارہا ہوں۔“احتشام دولت کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار تھا۔
احتشام وہاں سے چلا گیا اور سیدھا نصیر احمد کے پاس جا پہنچا۔نصیر احمد اس کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جس پر اس کا باپ بیٹھا کرتا تھا۔پہلی نظر میں اس کرسی پر نصیر احمد کو بیٹھا دیکھ کر احتشام کے پیٹ میں اور بھی درد بڑھ گیا۔
احتشام نے بتایا کہ مسٹر رضوی اچانک اپنے ایک کیس کے سلسلے میں اسلام آباد چلے گئے ہیں۔ دو دن کے بعد آئیں گے۔
اس کی بات سن کر نصیر احمد نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا۔
”چلو ٹھیک ہے۔میں میں نے ابا کی تمام چیک بکس اور کچھ ضروری کاغذات جو مجھے یہاں سے مل گئے تھے وہ لے لئے ہیں۔“نصیر احمد نے کہا۔احتشام نے ایک پھولا اور چرمی بیگ میز پر دیکھ لیا تھا۔کسی قسمت کی بات تھی کہ جب احتشام نے اس آفس کی تلاشی لی تھی تو اسے کچھ بھی نہیں ملا تھا اور اب نصیر احمد کو چیک بکس بھی مل گئی تھیں۔
یہ بات بھی احتشام کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک گئی تھی۔
”اچھا کیا۔“اس کے سوا احتشام اور کیا کہہ سکتا تھا۔
”میں گھر جارہا ہوں۔آپ آفس بند کرکے گھر آجائیں۔“ایک اور حکم احتشام کے ماتھے پر گولی کی طرح لگا اور نصیر احمد بیگ لے کر چلا گیا۔جبکہ احتشام کا غصہ اس کے جسم میں آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے لئے تیا رتھا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum