Episode 62 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 62 - زنجیر - فاروق انجم

جس وقت جنید اس پتے پر پہنچا جو مشتاق احمد نے اُسے حویلی آنے پر بتایا تھا،تو احتشام جلے ہوئے دل اور لٹکے ہوئے منہ کے ساتھ مشتاق احمد کا آفس بند کررہا تھا۔کچھ دیر قبل نصیر احمد کار میں بیٹھ کر گھر چلا گیا تھا۔
”مشتاق احمد صاحب کا آفس یہی ہے کیا۔؟“جنید نے پاس جاکر احتشام سے پوچھا۔
احتشام نے دروازے کو چھوڑ کر گردن گھما کر نوجوان کی طرف دیکھا اور اس کا سر سے لے کر پاوٴں تک جائزہ لینے کے بعدبولا۔
”جی ہاں مشتاق احمد کا یہی آفس ہے۔آپ کون ہیں۔؟“
”میرا نام جنید ہے۔کچھ دن پہلے میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے ساتھ ایک لڑکی تھی۔مجھے دراصل اس لڑکی سے ملنا ہے۔“جنید نے بتایا۔
”لڑکی…؟کون لڑکی تھی اور تم کہاں ملے تھے ان سے۔؟“احتشام کو اس کی بات سن کر کچھ حیرت ہوئی۔

(جاری ہے)

مشتاق احمد کے ساتھ ایک لڑکی تھی یہ سن کر تو جیسے احتشام کے اندر بے چینی سی دوڑ گئی تھی۔

”مشتاق احمد صاحب گاوٴں میں آئے تھے۔ان کے ساتھ جو لڑکی تھی اس کانام سحر بانو تھا…“
”سحر بانو…؟“ احتشام نے اس کی بات کاٹ کر فوراً کہا۔
”جی …سحر بانو مجھے اس سے ملنا ہے۔“جنید نے کہا۔
”آپ کا سحر بانو کے ساتھ کیا تعلق ہے۔“احتشام کو لگ رہا تھا جیسے اسے ایک نئی بات کا سر ا مل رہا ہے جس کی مدد سے وہ کچھ اور کرسکے گا۔
جنید سوچنے لگا کہ وہ اس سوال کا کیا جواب دے۔ کچھ اور کہنے کی بجائے اس نے کہہ دیا۔” وہ میری منگیتر ہے۔“
”منگیتر…؟؟“احتشام سنتے ہی دل میں مسکرایا۔ چال باز احتشام کو ان حالات میں سحر بانو کے منگیتر کا مل جانا ایسے ہی تھا جیسے کسی پیاسے کو صحرا میں پانی مل جائے۔
”میرا نام احتشام ہے اور مشتاق احمد میرے بہنوئی ہیں۔
تم مشتاق احمد سے ملنا چاہتے ہو ،یا سحر بانو سے۔؟“احتشام کی گھومتی ہوئی نگاہیں اس کے چہرے پر تھیں۔
”میں سحر بانو سے ملنا چاہتا ہوں۔“جنید نے جواب دیا۔ 
”چلو میرے ساتھ۔“ احتشام نے جلدی سے آفس کا دروازہ بند کیااور اپنی کار کی طرف چل پڑا۔ اس کے پیچھے جنید بھی لپکا۔اس کے پاس سوچنے اور سمجھنے کا وقت کم تھا۔
احتشام کی کار کا رخ اس فلیٹ کی طرف تھا جو مشتاق احمد کی ملکیت تھا اور فروخت کے لئے خریدا تھا۔
اس وقت وہ فلیٹ خالی تھا اور اس کی چابی احتشام کے پاس تھی۔فلیٹ خالی تھا اور اس کے ایک کمرے میں چند کرسیاں اور ایک میز پڑی تھی۔فرش پر گرد و غبار دکھائی دے رہی تھی۔جنید اس جگہ کا جائزہ لیتے ہوئے حیران ہورہا تھا۔
احتشام نے کمرے سے کرسیاں نکال کر نشست گاہ میں رکھیں اور بولا۔”بیٹھ جاوٴ۔“
”میں یہاں بیٹھنے کے لئے نہیں آیا۔سحر بانو کہاں ہے۔
؟“جنید نے کہا۔
”لگتا ہے کہ سحر بانو سے ملنے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہے۔“احتشام معنی خیز انداز میں مسکرایا۔
”میرا خیال ہے کہ مجھے چلنا چاہئے۔“جنید کو اس کی بات اچھی نہیں لگی اور وہ جانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا۔
”ارے ایک منٹ رک جاوٴ۔“احتشام نے سرعت سے آگے بڑھ کر جنید کو روک لیا۔” ہم کام کی بات کی طرف آتے ہیں۔“
”کام کی بات۔
؟“ جنید حیران ہوا۔
”میں صاف اور مختصر بات کرتا ہوں۔جس سے میرا اور تمہارا وقت بچ جائے گا۔سحر بانو اس وقت ایک عالیشان بنگلے میں رہتی ہے۔اس نے وہ بنگلہ ایک پائی دے کر خریدا بھی نہیں اور قانونی طور پر وہ اس کی مالکن بھی ہے۔یہ ایک عجیب اور دلچسپ کہانی ہے۔تم سحر بانو سے یہ کہانی خود ہی سن لینا۔“
”وہ ایک بنگلے کی مالکن ہے۔
؟“ جنید کو اس کی بات سن کر حیرت ہورہی تھی۔
”میں سچ کہہ رہا ہوں۔ تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے۔مشتاق احمد کا کچھ روز قبل انتقال ہوگیا تھا۔سحر بانو تمہاری منگیتر ہے۔تم اس سے ملنا چاہتے ہو۔سحر بانو سے ملانے کے لئے میں تم سے قیمت لوں گا۔“
احتشام کی بات سن کر جنید نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور بولا۔”کیا قیمت لینا چاہتے ہو۔
”ایک انسانی جان۔“احتشام بلا تامل بولا۔
”ایک انسانی جان…؟یہ کیا بکواس ہے۔؟“جنید کو جھٹکا لگا۔
”اس میں حیران ہونے ،یا پھر اُچھلنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ قیمت ہے جو میں وصول کروں گا۔مجھے ایک قتل کرنا ہے۔ایک انسان کی جان لینی ہے ۔یہ کام میں نہیں کرسکتا۔تم اگر سحر بانو سے ملنا چاہتے ہو تو تمہیں یہ کام کرنا پڑے گا۔
“احتشام اس کی طرف دیکھتے ہوئے پھنکارتی ہوئی آواز میں بولا۔
”تم پاگل تو نہیں ہو۔؟“جنید کو اس کی ذہنیت پر شک ہونے لگا۔
”میں پاگل نہیں ہوں۔پورے ہوش و حواس سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔سحر بانو ایک بنگلے کی مالکن بن گئی۔ایک پائی بھی اس نے خرچ نہیں کی ۔تم اس کے منگیتر ہو۔تم ہی کچھ قیمت ادا کردو۔بولو یہ کام کرو گے کہ نہیں۔“احتشام نے اپنے دل کی جلن نکالتے ہوئے کہا۔
جنید کے دل میں یہ جاننے کا تجسس بہت نمایا ں ہوگیا تھا کہ سحر بانو ایک عالیشان بنگلے کی مالکن کیسے بن گئی۔ سحر بانو سے ملنے کی خواہش اب تو دو چند ہوگئی تھی۔لیکن ایک انسان کا قتل کرنا جنید کے لئے ممکن نہیں تھا۔اس نے یہ بھی سوچا کہ اگر سحر بانو سے ملنے میں ایک قتل مانع ہے تو وہ یہ کام کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔اس نے سوچا وہ کوئی بحث نہیں کرے گا۔
بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ آکر اس کے سامنے کھڑا شخص کس انسان کا قتل چاہتا ہے اور کیوں۔؟
”اگر میں نے تمہارا کام کردیا تو تم مجھے سحر بانو سے ملوا دو گے۔“
”احتشام زبان کا پکا ہے۔جو کہتا ہے وہ پورا کرتا ہے۔“ احتشام نے کہا۔
”ٹھیک ہے…بتاوٴ کسے قتل کرنا ہے۔“جنید نے پوچھا۔
”قتل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔جسے قتل کرنا ہے وہ ایک بنگلے میں اکیلا رہتا ہے۔
اس بنگلے میں دو ملازم ہیں۔ایک چوکیدار اور دوسرا خانساماں۔چوکیدار گیٹ پر ہوتا ہے اور خانساماں رات کا کھانا کھلانے کے بعد بنگلے سے ملحق کواٹر میں چلا جاتا ہے۔“
”وہ ہے کون۔؟“
”تم اس بات کو چھوڑو اور میری پلاننگ سنو۔“احتشام نے اس کی بات نظر انداز کردی۔ ”تم اس بنگلے میں میری گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر جاوٴ گے۔گاڑی اس بنگلے کے اندر چلی جائے گی اور میں چوکیدار سے باتیں کرنے لگوں گا۔
تم ڈگی سے باہر نکل کر بنگلے کے مین دروازے سے اندر چلے جاوٴ گے اور بنگلے میں موجود نصیر احمد کو تیز دھار خنجر سے قتل کرکے مین دروازے کے پاس آجاوٴ گے۔“
”نصیر احمد کون۔؟“
”جسے تم نے قتل کرنا ہے۔چوکیدار سے باتیں کرتے کرتے میرا موبائل فون بجے گا میں فون سنوں گا اور چوکیدار سے کہوں گا کہ مجھے ابھی جانا ہے۔میں واپسی پر نصیر احمد سے ملتا ہوں۔
میں اپنی کار میں بیٹھ کر وسیع گیراج میں ہی کار گھما کر گیٹ کی طرف کروں گا۔ڈگی کا رخ تمہاری طرف ہوجائے گا اور تم جلدی سے ڈگی میں سوار ہوجانا۔کار باہر نکلے گی اور میں تمہیں سحر بانو کے بنگلے میں چھوڑ کر چلا جاوٴں گا۔چوکیدار قتل کے بعد اس بات کی گواہی دے گا کہ میں اندر گیا ہی نہیں تھا اور تم کسی کو دکھائی ہی نہیں دو گے اس لئے نصیر احمد کے قتل کا کوئی ثبوت نہیں ہوگا۔
“احتشام نے اپنا منصوبہ بیان کرنے کے بعد جنید کی طرف دیکھا۔
جنید سوچ رہا تھا کہ اس کا دماغ کسی شیطان سے کم نہیں سوچتا۔ اس نے ایسا منصوبہ ترتیب دیا تھا کہ واقعی قاتل کی گرفتاری ممکن نہیں تھی۔
”تم نے سوچا تو خوب ہے۔“
”میں خوب ہی سوچتاہوں۔“
”لیکن تم نے ایک بات سوچی ہے۔؟“
”وہ کیا۔؟“
”تم نے میرا نام سنا،یہ جانا کہ میں سحر بانو کا منگیتر ہوں اور مجھے اس کا م کے لئے مائل کرتے ہوئے اپنا منصوبہ بھی مجھے سنا دیا۔
ہوسکتا ہے کہ میرا تعلق پولیس سے ہو۔“ جنید نے کہہ کر اس کی طرف مسکراہٹ چھوڑی۔
جنید کی بات سن کر احتشام باریک سی ہنسی ہنسا۔”پہلی بات یہ کہ تم پولیس والے نہیں ہو۔اور دوسری بات یہ کہ جو میں نے کہا وہ تم نے سنا۔لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ میں نے تم سے ایسا کہا۔؟؟
”تم بہت شاطر ہو۔“
”بولو کام کرو گے یا پھر مایوس واپس جاوٴ گے۔
”سحر بانو سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ اس سے مل کر ہی جاوٴں گا۔اس لئے میں تمہارا یہ کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔“ جنید نے کہا۔
”تم کو واقعی سحر بانو سے محبت ہے۔“
”یہ کام کب کرناہے۔؟“
”یہ کام رات کے ڈنر کے بعد کرنا ہے۔“
”کتنی دیر ہے ڈنر میں۔؟“
احتشام نے گھڑی کی طرف دیکھا اور بولا۔”بس تین گھنٹے انتظا رکرنا ہوگا۔تب تک ہم کہیں گھومیں گے اورکھانا کھائیں گے۔“
”یہ اچھی تجویز ہے۔“جنید مسکرایا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum