Last Episode - Zanjeer By Farooq Anjum

آخری قسط - زنجیر - فاروق انجم

جب احتشام اوپر کی منزل سے سیڑھیوں کے زریعے سے نیچے آرہا تھا تو احتشام کے چہرے ر پریشانی عیاں تھی اور وہ بول رہا تھا۔”مسٹر رضوی یہاں تو نصیر احمد کی لاش کہیں بھی نہیں ہے…“
جیسے ہی اس کی نگاہ سامنے پڑی اس کی آواز بھی بند ہوگئی اور قدم جہاں تھے وہاں منجمد ہوگئے۔ احتشام خیرہ نگاہوں سے سامنے دیکھے جارہاتھا۔ سامنے کا منظر بھی اس کے لئے غیر متوقع تھا۔
اس کے دماغ کے کسی حصے میں ایسی سوچ بھی نہیں آئی تھی کہ اس کے ساتھ ایسا ہوجائے گا۔
سامنے ایک صوفے پر مشتاق احمد کا وکیل براجمان تھا اور کے ساتھ نصیر احمد جیتا جاگتا بیٹھا تھا۔جبکہ دائیں طرف دوسرے صوفے پر ساتھ ساتھ جنید اور سحر بانو بیٹھے تھے۔احتشام نے باری باری ان چاروں کی طرف دیکھا اور اس کے منہ سے نکلا۔

(جاری ہے)

”یہ کیا…“
”تشریف لے آیئے تاکہ میں آپ کو اس سوال کا جواب ذرا تفصیل سے بتاوٴں۔
تاکہ آپ کو ہر بات کی اچھی طرح سے سمجھ آجائے۔“رضوی اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
احتشام دم بخود ایک ایک سیڑھی اُترنے لگا اور ان کے سامنے کھڑا ہوگیا۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
”یہ نصیر احمد ہیں آپ کے بھانجے ہیں۔یہ جنید صاحب ہیں اور یہ سحر بانو ہیں جن کو مشتاق احمد اپنے بنگلے میں لے آیا تھا۔جنید صاحب ،سحر بانو کی تلاش میں آئے تو آپ مل گئے اور آپ نے ان کو نصیر احمد کے قتل پر آمادہ کرلیا۔
جنید صاحب نے آپ کی بات مان لی لیکن جب وہ اس بنگلے میں آپ کے بتائے ہوئے طریقے سے داخل ہوئے تو وہ نصیر احمد کے سامنے جاتے ہی بول پڑے کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں اور احتشام کا کیا پلان ہے۔نصیر احمد نے مجھے فون کیا۔ میں نصیر احمد کے ساتھ پہلے ہی مل کر آپ کے بارے میں آگاہ کرچکا تھا۔ اور ہماری منصوبہ بندی یہ طے پائی تھی کہ احتشام بالکل کھل کر سامنے آجائے۔
اسی لئے اس دن میں نے آپ کو اتنا طیش دلایا کہ آپ نصیر احمد کو قتل کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔اس قتل کرنے کے لئے میں نے بھی آپ کو پوری ہوا دی تھی۔اب اتفاق تھا کہ قتل خود کرنے کی بجائے آپ کو جنید صاحب مل گئے اور جنید صاحب کی حاضر دماغی کہ انہوں نصیر احمد کو حقیقت سے آگاہ کردیا۔“
رضوی کچھ دیر کے لئے چپ ہوگیا۔احتشام حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ایک ایک لفظ غور سے سن رہا تھا۔
”میں نے فون پر نصیر احمد کو کچھ ہدایت کی اور جنید صاحب نے نصیر احمد کو حقیقت سے آگاہ تو کردیا لیکن اس کو قتل نہیں کیا۔چھری لی اور اس پر کیچپ لگا کر کپڑے میں لپیٹ کر لے گیا تاکہ تم کو یقین آجائے۔یہاں جنید نے اچھی عقل مندی کا مظاہر ہ کیا۔اس کے بعد تم اس کے جھانسے میں آگئے اور جنید کو سحر بانو کے پاس چھوڑ دیا۔میں یہاں پہنچ گیا اور چوکیدار سے جیسا کہا اس نے ویسا فون پر تجھے بول دیا۔
تم کو مزید یقین آگیا اور تم میرے پاس آگئے۔“
”تو یہ کھیل کھلا جاتا رہاتھا…“احتشام کی حیرت کے پردے چاک کرتی ہوئی آواز نکلی۔
”جنید اور سحر بانو یہاں آگئے۔دونوں نے اس بنگلے کے کاغذات نصیر احمد کو واپس کردیئے اور تم اب یہاں کھڑے حقیقت جان رہے ہو۔“
وہاں خاموشی چھا گئی۔سبھی احتشام کی طرف دیکھ رہے تھے اور احتشام کسی سوچ میں مستغرق تھا۔
پھر ایک دم اس کا چہرہ پر اعتماد ہوگیا اور وہ مسکرا کر نصیر احمد سے مخاطب ہوا۔
”اب کیا ارادے ہیں۔؟؟“
”سب کچھ واضح ہوگیا ہے اور ہم میں کوئی رشتہ باقی نہیں رہا ہے۔اب آپ جیل جائیں گے۔“نصیر احمد کا چہرہ سپاٹ تھا۔
”میں کس جرم میں جیل جاوٴں گا۔؟“احتشام نے سوال کیا۔
”تم نے مجھے قتل کرنا چاہا اور میری جائیداد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔
“نصیر احمد بولا۔
”اس بات کا کوئی ثبوت کہ میں نے تمہیں قتل کرنا چاہا تھا۔میں نے تمہاری جائیداد ہتھیانے کی کوئی کوشش کی ہے۔“احتشام ٹہلتے ہوئے بات بھی کررہا تھا اور ان کی جانب دیکھ کر مسکرا بھی رہا تھا۔
”ثبوت…؟؟“نصیر احمد نے رضوی کی طرف دیکھا۔
”ہاں نکالو کوئی ثبوت۔؟تم لوگوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ مجھے تم لوگوں نے ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ میرے جو واجبات بنتے ہیں ان کی ادائیگی سے تم بچ سکو۔
اس کے علاوہ بھی کچھ اور معاملات بھی ہیں جن کو بنیاد بنا کر میں تم پر نصیر احمد تم پر میں مقدمہ کروں گا۔“
”میں گواہی دوں گا کہ تم نے مجھے نصیر احمد کا قتل کرنے کے لئے مجبور کرنے کی کوشش کی تھی۔“جنید بولا۔
”یہ سب باتیں ہوا پر لکھے ہوئے وہ الفاظ ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔لیکن میں جو کچھ عدالت میں کہوں گا وہ حقیقت پر مبنی ہوگا۔
“احتشام نے ایک قہقہہ لگایا۔
”تم نے تو الجھن کھڑی کردی۔“رضوی اپنی ٹھوڑی کھجانے لگا۔
احتشام نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا۔”تم وکیل ہو لیکن دماغ میرے پاس ہے۔دماغ کو استعما ل کرنا میں اچھی طرح سے جانتا ہوں۔“
”اب پولیس کو تم بلاوٴ گے یا ہم بلائیں۔؟؟“رضوی نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”یہ حق میرا ہے۔“احتشام نے کہا۔
”میں ایسا کھلاڑی ہوں جو شطرنج کا ہر مہرہ کھیلتا بھی ہے اور پتا بھی نہیں لگنے دیتاکہ کیا چال چل دی ہے۔“
”تم کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ پڑھ لو۔یہ اس تحریرکی کاپی ہے جو میں نے پہلے ہی کروا کر جیب میں ڈال لی تھی۔ اصل کاپی پر تم اپنے دستخط کرچکے ہو۔“رضوی نے ایک کاغذ جیب سے نکال کر ا س کی طرف بڑھا دیا۔ احتشام نے ایک نظر کاغذ کی طرف دیکھا اور بادل نخواستہ کاغذ پکڑ کر اس کی تہہ کھولی اور پڑھنے لگا۔
جیسے جیسے وہ کاغذ پڑھتا گیا اس کے ماتھے پر حیرت کی شکنیں اُبھرنے لگیں۔
اس تحریر میں اپنے بہت سے جرائم کا اعتراف احتشام نے کیا تھا۔رضوی نے اپنے گھر پر اس سے دستخط بھی کروا لئے تھے اور اسے وہ تحریر پڑھنے بھی نہیں دی تھی۔احتشام کی برداشت جواب دے گئی اور اس نے کاغذ ایک طرف اچھال کر ریوالور نکال لیا اور نصیر احمد پر تان کر ابھی اس نے ٹریگر نہیں دبایا تھا کہ جنید نے ایک ہی جست میں احتشام کو نیچے گرا کر اسے قابو میں کرلیا۔
نصیر احمد نے پولیس بلا لی تھی۔رضوی قانون دان تھا۔ اس نے نصیر احمد کے منہ سے ایسا بیان دلوایا تھا کہ احتشام کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا ہی رہ گیا تھا۔وہ قانون کی گرفت
 میں آگیا تھا۔لالچ کا جو کنواں اس کے پیٹ میں تھا وہ بھرا نہیں تھا اور وہ اپنے انجام کر پہنچ گیا تھا۔
جب سب چلے گئے اور ایک بار پھر وہ چاروں ہی رہ گئے تو جنید نے جانے کی اجازت چاہی۔
”تم لوگ کہاں جارہے ہو۔؟“
”کہیں بھی چلے جائیں گے۔“جنید نے جواب دیا۔
”لیکن میں نہیں چاہتا کہ تم دونوں کہیں جاوٴ۔میرا باپ سحر بانو کو بیٹی بنا کر گھر لایا تھا۔ یہ ان کی بیٹی کی طرح ہی رہے گی۔تم کہیں چلے گئے تو مسٹر رضوی کے ساتھ مل کر ہماری جائیداد اور پراپرٹی کے کاروبار کی کون دیکھ بھال کرے گا۔“
جنید حیرت سے نصیر احمد کی طرف دیکھ رہا تھا۔
رضوی نے کہا۔”نصیر احمد ٹھیک کہہ رہا ہے۔تمہاری ایمانداری کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ تم دونوں نے وہ بنگلہ واپس کردیا جس کی قیمت کروڑوں میں ہے۔“
”جو چیز ہماری نہیں تھی وہ ہم کیسے رکھ سکتے تھے۔“
”اوکے اب تم دونوں اسی بنگلے میں رہو گے۔تم دونوں کا نکاح بھی ہم کروائیں گے۔ اور پھر تم نکاح کے بعد چند دن اپنی بیوی کے پاس رہنے کے بعد اپنے کام پر آجانا ۔
جہاں پرکشش سیلری تمہارا انتظار کررہی ہو گی۔“نصیر احمد بولا۔
نصیر احمد کی بات سن کر جنید اور سحر بانو ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا پڑے۔
###
دوسرے دن کے تمام اخبارات میں ہاشم زبیری کی اچانک موت کی خبر شائع تھی۔ اس خبر کو جب جنید نے پڑھا تو وہ سحر بانو کی طرف اخبار بڑھا کر بولا۔
”دیکھو اس شخص کا انجام جو دولت،ہوس،گھمنڈ ،انا اور تکبر کا غلام تھا۔
اپنے انجام سے بے خبر وہ اپنی ہی دنیا میں مست تھا۔دیکھو وہ بھی خالی ہاتھ چلا گیا۔“
”ہاں…“سحر بانو نے محض سر ہلادیا۔”جنید۔“
”بولو۔“جنید نے کہا۔
”ہم ان ہیروں اور غیرملکی کرنسی کا کیا کریں ۔؟“سحر بانو نے پوچھا۔
”ایک فیصلہ میں نے کیا تھا اب یہ فیصلہ تم کرو۔“جنید نے اس پر چھوڑ دیا۔
”میرا فیصلہ منظور ہوگا۔
؟“
”ہاں کیوں نہیں۔ ایک دوسرے کی مان کر شانہ بشانہ چل کر ہی تو ہم نے زندگی کو اور بھی حسین کرنا ہے۔“جنید نے کہا۔
سحر بانو بولی۔”ہم وہ ہیرے اور کرنسی کسی ایسے ادارے کو دے دیں گے جو انسانیت کے لئے دن رات کام کرتا ہے۔ہم جو بھی کمائیں گے اپنی محنت سے کمائیں گے چاہئے ہمیں سالوں لگ جائیں۔لیکن ہم ہاشم زبیری جیسے شخص کی کوئی چیز نہیں رکھیں گے جو جانے کس کا خون چوس کر اس نے حاصل کی ہو۔“
”مجھے تمہارا یہ فیصلہ اچھا لگا۔بلکہ یہ میرے دل کی بات ہے جو تم نے کہی ہے۔“ جنید خوش ہوکر بولا اور سحر بانو مسکرا دی۔
ختم شد

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum