Episode 7 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر7 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

عترت کے جیتے ہوئے جسم کا جشن ضرار دو دن تک مناتا رہا۔ پھر اُسے عترت کی یاد ستانے لگی، ضرار نے موبائل نکالا جو کہoff تھا۔ اُسے onکرنے کے بعد اُس نے عترت کا نمبر ملا دیا :
” حکم ضرار صاحب۔“ عترت کے لہجے میں ہلکا سا طنز تھا۔
”ملنا چاہتا ہوں تم سے۔“ ضرار نے اپنی خواہش بتائی۔
”پانچ دن ہیں آپ کے پاس…!“ یہ بتا کر عترت نے کال کاٹ دی۔
ضرار اس بے نیازی پر سیخ پا ہو گیا۔ وہ کار میں بیٹھا اور راوی کلفٹن کی طرف سفر کرنے لگا۔ مین سڑک کے کنارے کار کھڑی کرنے کے بعد وہ عترت کی گلی میں داخل ہوا تو سامنے سے دو بوڑھی خواتین آ رہی تھیں۔
”پُتر! تو عترت کا گھر والا ہے نا …؟“ پہلی خاتون نے ضرار کی طرف انگلی کر کے پوچھا۔
” جی “ ضرار نے بتایا۔
”بڑی شریف بچی ہے اپنی عترت ! “ دوسری خاتون نے کہا۔

(جاری ہے)


” اس کی ماں جتنی بد معاش تھی یہ اُتنی ہی بھلی مانس ہے۔“ پہلی خاتون نے رائے دی۔
” بڑا مقدر والا ہے تو پُتر“ دوسری خاتون نے ضرار کے سر پر ہاتھ پھیر دیا۔ پہلی نے بھی پیار دے دیا۔ ضرار چل پڑا۔ عترت کے گھر کا دروازہ بند تھا ضرار نے بیل دی۔ ایک لڑکی نے دروازہ کھولا، ضرار کے چہرے پر غور کرنے کے بعد وہ خلوص سے بولی :
”السلام بھائی ! “ ضرار نے اُس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
وہ اندر آ گیا۔ گیراج میں رُک کر اُس نے اوپر جانے والی سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔ پھر بوتیک کے دروازے پر نظر ڈالی۔
”آپی بوتیک میں ہیں۔ آپ اوپر بیٹھیں میں اُن کو بتاتی ہوں۔“ لڑکی نے جلدی سے بتایا۔ ضرار اُس لڑکی کی بات سنی اَن سنی کرتا ہوا، بوتیک کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ بوتیک میں موجود سب عورتوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے، جب انھوں نے ضرار کو دیکھا۔
بوتیک میں عترت کے علاوہ تین لڑکیاں اور ایک عورت تھی۔ عترت نے ضرار کو دیکھا تو فٹ سے بول پڑی :
” مسز جیلانی ! یہ میرے شوہر ہیں۔ انھیں معلوم نہیں ہے کہ میری بوتیک میں مردوں کا داخلہ منع ہے۔“ دروازہ کھولنے والی لڑکی بھی بوتیک کے اندر آ چکی تھی۔
عترت نے اس لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا :
” کوثر سر ! کو اوپر لے جاؤ۔“ پھر عترت نے ضرار کی طرف دیکھ کر ہونٹوں پر تبسم سجاتے ہوئے کہا :
” آپ جائیں میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔
“ ضرار اور کوثر کے جانے کے بعد اپنی بہن کی شادی کے لیے لہنگا پسند کرنے والی لڑکی نے تڑپ کر پوچھا :
” یہ آپ کے ہسبینڈ ہیں…؟“
”شادی والی لڑکی پہلے سے زیادہ اُداس ہو گئی تھی۔ ”آپ جانتی ہیں انھیں۔“ عترت نے پوچھا۔
” کہیں دیکھا ہے … جانتی تو نہیں ہوں۔“ لڑکی نے بات گول کر دی۔ تیسری لڑکی زیرلب مسکرائی تو عورت نے اُسے گھوری ڈالی۔
عترت یہ سب دیکھ رہی تھی۔
”آپ یہ والا دیکھیں۔“ عترت نے ایک لہنگا اُن کے سامنے لاتے ہوئے کہا۔
” آپ کی اس سے کب شادی ہوئی… ؟“ پہلی لڑکی نہ چاہتے ہوئے بھی بول پڑی تھی۔
” تین دن پہلے ہی نکاح ہوا ہے۔“ عترت نے خبر دی۔
” آنٹی ! مجھے نہیں کوئی لہنگا شہنگا لینا، آپ چلیں یہاں سے۔“ شادی والی لڑکی دھکی لہجے میں یہ کہتی ہوئی بوتیک سے نکل گئی۔
اُس کے پیچھے پیچھے اُس کی بہن پھر عورت، تیسری لڑکی نے تینوں کے جانے کے بعد عترت کی طرف دیکھا اور کہنے لگی :
” کس بندے سے شادی کر بیٹھی ہو۔“
###
عترت ہاتھ میں اپنا موبائل پکڑے ہوئے اوپر آئی تو ضرار ہال میں بے چین سا ٹہل رہا تھا۔ عترت نے نیچے اور اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں کا ہال میں کھلنے والا دروازہ بند کر دیا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، ضرار کچھ پریشان تھا اور عترت سنجیدہ تھی۔ عترت نے اُسی سنجیدگی کے ساتھ پوچھا :
” کیا خدمت کروں آپ کی۔“
”مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔“ ضرار نے بے تابی سے بتایا۔
” بند کریں یہ آپ، تم … تم، آپ کا ڈرامہ“ عترت نے خشک انداز میں کہا۔
” میں خود چل کر آپ کے گھر آیا ہوں۔“
”گھر…؟“ عترت صوفے پر بیٹھ گئی پھر دل شکنی سے کہنے لگی :
” مرنے سے پہلے گھر ہی تو بسانا چاہتی ہوں۔
آپ کے متعلق سب کچھ جانتے ہوئے بھی میں نے آپکا انتخاب کیا… ؟“ عترت نے ٹھنڈی آہ بھری پھر حوصلہ کر کے کہنے لگی :
”آپ یہاں سے چلے جائیں۔“ یہ سنتے ہی ضرار ہاتھ جوڑ کر عترت کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے بولا :
” پلیز مجھے معاف کر دیں۔“ عترت نے پلٹ کر دیکھا سیڑھیوں کی طرف سے ہال میں کھلنے والا دروازہ بند ہی تھا۔ عترت نے کہا :
” ضرار صاحب ! اوپر بیٹھیں۔
“ ضرار اوپر بیٹھ گیا۔
” ہاتھ بھی کھول دیں۔“ ضرار نے ایسا ہی کیا۔ عترت اپنی جگہ سے اُٹھی اور ایک نمبر ملایا پھر اُس نے ہال والا دروازہ اندر سے بھی Lock کر لیا۔
”بی بی ! ضرار صاحب آئے ہیں آپ اوپر نیچے خود ہی دیکھ لیجیے گا۔“ عترت نے بی بی خانم کو پیغام دینے کے بعد کال کاٹ دی، اُس نے ضرار کی طرف آتے ہوئے پوچھا :
” کچھ لیں گے…؟“
”صرف آپ کو لینے آیا ہوں۔
“ ضرار نے یک لخت بتا دیا۔ عترت اُس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی :
”کتنے رُوپ ہیں آپ کے … ؟“ عترت کے سوال پر ضرار سوچ میں پڑ گیا۔ عترت نے اُس کے چہرے پر اپنی نظریں جما رکھی تھیں۔ ضرار کی نظریں مٹر گشت کرنے لگیں۔
” آپ نے سات کروڑ پورے بھی نہیں کیے اور میں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔“ عترت کی بات پر ضرار کی شرمندگی میں اضافہ ہو گیا۔
”میں آپ کو طلاق کبھی نہیں دوں گا۔
آپ پلیز میرے ساتھ چلیں۔“ ضرار نے گرم جوشی سے بتایا۔
” اپنی شرط سے پیچھے ہٹتے ہوئے میں تو خود آپ کے ساتھ گئی تھی… میرے کپڑوں والا بیگ اب بھی شاکرہ بی بی کے پاس ہے۔“
”مجھے آپ سے محبت ہے۔“ ضرار نے فٹ سے بتایا۔
” کار پارکنگ میں … اپنے بیڈ روم میں پھر میرے بیڈ روم میں۔ آپ اپنی محبت کا ثبوت دے چکے ہیں۔“
”کیا کروں جو آپ کو یقین آ جائے…؟“ ضرار نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔

” کچھ نہیں … بس آپ تشریف لے جائیں۔“ عترت نے بیٹھے بیٹھے ہی تحمل سے بول دیا۔ ضرار بھی بیٹھتے ہوئے ضدی بچے کی طرح کہنے لگا :
” میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔“ ہال کے دروازے پر دستک ہوئی۔ عترت کے کان کھڑے ہوئے اُس نے پوچھا :
” کون ہے…“
” کوثر“ زور سے آواز آئی۔ عترت نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔
” آپی ! وہ …“
”بولو کوثر کیا بات ہے …؟“ عترت نے زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے پوچھا۔

” سب لڑکیاں… جیجا جی سے ملنا چاہتی ہیں۔“
”بی بی خانم کدھر ہیں …؟“ عترت نے پوچھا۔
”نیچے بوتیک پر… “ کوثر نے بتایا۔
” ٹھیک ہے سب کو بلا لاؤ… “ عترت نے اجازت دے دی۔ ایک منٹ کے اندر اندر ہی پندرہ لڑکیاں پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ ہال میں وارد ہو گئیں۔
عترت نے سب کو نظروں سے ہی احکامات جاری کیے اور خود اپنے بیڈ روم میں چلی گئی۔

” بھائی آپ کیا کرتے ہیں …؟“ ایک لڑکی نے فٹ سے سوال داغ دیا۔
” دو فیکٹریاں ہیں…؟“ ضرار نے بتایا۔
” گاڑیاں کتنی ہیں … ؟“ دوسری نے پوچھا۔
” گھر پر تین ہیں … فیکٹریوں میں بہت ساری ہیں۔“
” ملازم کتنے ہیں … ؟“ تیسری لڑکی بول پڑی۔
” ملازم… گھر پر تو چھ ہیں… فیکٹریوں میں کتنے ہیں یہ چیک کرنا پڑے گا۔“
ایسے بے شمار سوال ایک ایک کرکے تیرہ لڑکیوں نے پوچھ لیے جب آخری دو رہ گئیں اُس وقت عترت سر پر لپیٹے ہوئے دوپٹے کے ساتھ اپنے بیڈ روم سے ہال میں واپس لوٹی تھی۔

” نماز کا وقت جا رہا ہے۔“ عترت نے اطلاع دی۔
”آپی ! میر ااور اس کا سوال رہتا ہے ابھی“ کوثر نے اپنے ساتھ کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی معصومیت سے بتایا۔
”جیتو پاکستان چل رہا ہے، یہاں پر “ عترت نے سنجیدگی سے کہا۔
”آپی پلیز!“ کوثر نے التجا کی۔ عترت نے نظروں ہی سے سوال کرنے کی اجازت دے دی۔ کوثر کے ساتھ والی لڑکی نے فٹ سے پوچھا :
” سر اتنے امیر ہونے کے باوجود آپ نے ولیمہ کیوں نہیں کیا … ؟“
”میں اور آپ کی آپی عمرے پر جا رہے ہیں… عمرے سے واپس لوٹتے ہی ایک شاندار ولیمے کی دعوت کی جائے گی۔
آپ سب کو ابھی سے دعوت دے رہا ہوں۔“ سب لڑکیوں کے چہرے کھل گئے۔ کوثر نے عترت کی طرف دیکھ کر کہا:
”آپی ! میں بھی اپنا سوال پوچھ لوں …؟“ عترت نے ضرار کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کر دیا تھا۔
”بھائی ! آپ تو بڑے سے بڑے خاندان میں شادی کر سکتے تھے پھر آپ نے عترت آپی سے ہی شادی کیوں کی …؟“ عترت کو کوثر سے ایسے کسی سوال کی توقع نہیں تھی وہ کوثر کی طرف دیکھنے لگی۔

” میں نے بڑے خاندان کی بجائے اعلیٰ خاندان کا انتخاب کیا۔“ جیسے ہی ضرار کا جملہ عترت کے کانوں میں پڑا اُس نے چونک کر ضرار کی طرف دیکھا۔ ضرار عترت سے نظریں ملاتے ہوئے پھر سے گویا ہوا :
” مجھے لڑکیوں کی کمی نہیں تھی مگر اُن میں سے کوئی بھی آپ کی آپی جیسی نا تھی۔ نا کردار میں، نا اخلاق میں اور نا ہی حسن میں۔ سچ کہوں تو میں عترت کے قابل نہیں ہوں۔
آج آپ سب کے سامنے میں کہتا ہوں مرتے دم تک میں عترت کو نہیں چھوڑوں گا۔“
سب لڑکیاں اپنی سانسوں کو روکے ہوئے تھیں۔ کوثر نے تالی بجانی شروع کر دی اُسے دیکھ کر دوسری لڑکیاں بھی شروع ہو گئیں۔ عترت نے نظر بھر کے لڑکیوں کی طرف دیکھا سب چپ چاپ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئیں۔ لڑکیوں کے جانے کے بعد عترت نے ضرار سے بے زار سے انداز میں کہا :
” ضرار صاحب ! میرے لیے میری عزت سب سے اہم ہے۔
بڑی مشکل سے شاہ چانن کے نام کو اور اپنے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ کمایا ہے میں نے۔ باتوں باتوں میں اپنے بارے میں آپ کو بہت کچھ بتا چکی ہوں۔ اس لیے کہ آپ مجھے سمجھ جائیں۔ آپ کے متعلق صرف اتنا سمجھ پائی ہوں۔ ایک تو آپ کو غصہ بہت جلدی آ جاتا ہے۔ دوسرا آپ کے نزدیک عورت صرف ایک جسم ہے۔ آپ چلے جائیں اور آئندہ کبھی بھی ادھر کا رُخ مت کیجیے گا۔

ضرار کھڑا ہو کر دروازے کی طرف چل پڑا، دروازہ دیکھ کر اُسے ایک بات یاد آ گئی وہ پلٹ کر صلح و آتشی کے انداز میں بولا :
”میاں جی ! نے چند دن پہلے مجھے بتایا تھا۔ اللہ اپنے بندوں پر واپسی کے دروازے کبھی بند نہیں کرتا۔ آپ کیسی اللہ کی بندی ہیں جو مجھے واپس آنے سے روک رہی ہیں۔“ ضرار وہاں سے چلا گیا۔ ضرار کی باتوں سے عترت کے وجود میں ہلچل مچ گئی تھی۔

###
” صاحب کھانا کھا لیں …!“ شاکرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
” بھوک نہیں ہے۔ تم جاؤ یہاں سے۔“ ضرار نے چیختے ہوئے جواب دیا۔ شاکرہ کھانے والی ٹرولی لے کر ضرار کے بیڈ روم سے نکل گئی۔ ضرار بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ شاکرہ اُس سے بے خبر تھی۔ جب شاکرہ کچن میں داخل ہوئی تو ضرار کچن کے دروازے کے پاس کھڑا ہو گیا۔
” کھایا نہیں… “ ساجد نے کچن میں واپس لوٹنے پر اپنی ماں کو پوچھا۔
شاکرہ نے گردن کو نفی میں ہلا دیا۔
” شکر خدا کا راؤ صاحب کے خاص ملازم میاں جی کے ماننے والے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کب کی دونوں فیکٹریاں لوگ چٹ کرجاتے۔“ ساجد نے فکر مندی سے کہا۔
” ساجد تو میاں جی کو بتا ساری بات ! “ شاکرہ نے مشورہ دیا۔ ساجد نے چند لمحے سوچا پھر کہنے لگا :
” اماں ! آپ آپی سے بات کرو۔“
” اُن سے کیا بات کروں ساجد! اُن کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا ہے چھوٹے صاحب نے“ ساجد نے موبائل پر عترت کا نمبر ملاتے ہوئے اپنی ماں کو دیا۔

” جی ساجد…! “
”ساجد نہیں چھوٹی بیگم ! میں شاکرہ بات کر رہی ہوں۔“
” جی بی بی ! کیا بات ہے…؟“ عترت نے پوچھا۔
” وہ جی صاحب نے کل سے کچھ نہیں کھایا …؟“ شاکرہ نے بتایا۔
” ٹھیک ہے۔“ یہ بول کر عترت نے کال کاٹ دی۔ ضرار بھی کچن کے دروازے سے اپنے بیڈ روم میں واپس چلا گیا۔
###
” عترت آ جاؤ کھانا کھا لو۔
“ بی بی خانم نے عترت کے بیڈروم کے کھلے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے کہا۔ عترت موبائل پکڑتے ہوئے ہال میں آئی۔ بی بی خانم میز پر کھانا لگا چکی تھی۔
”بی بی آپ کھاؤ میں بعد میں کھا لوں گی۔“ عترت نے سنجیدگی سے کہا۔ بی بی خانم نے ٹٹولتی نظروں سے عترت کی طرف دیکھا پھر بولی :
” کل داماد جی کے جانے کے بعد سے اُداس ہو۔“
” ارے نہیں بی بی ! میں چھت پر جا رہی ہوں۔
“ عترت نے بات گول کر کے وہاں سے فرار کی راہ اختیار کی۔ اُس نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے خود سے سوال کیا :
” میں اُداس کیوں ہوں…؟“
”ساری زندگی اپنی محبتیں سنبھال سنبھال کر رکھتی رہی ہو کہ شادی کے بعد اپنے شوہر پر نچھاور کروں گی۔ اب وقت آیا ہے تو اُس سے جھگڑ رہی ہو۔“ عترت کے اندر سے آواز آئی۔
”میں جھگڑ رہی ہوں … ؟ وہ غلط ہے…!“ عترت نے چھت پر پہنچ کر خود کلامی کی۔

”اُسے غلط ثابت کرنے کی بجائے اپنی محبتیں اُس پر نچھاور کر دو، وہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔“ عترت کے موبائل پر بیل ہونے لگی۔ جس کی وجہ سے اُس کے اندر سے آواز آنا بند ہو گئی۔ عترت نے اسکرین پر نام دیکھا وہ سوچ میں پڑ گئی، کال کٹ جانے سے پہلے اُس کی کال رسیو کر ہی لی :
”جی ضرار صاحب “ ضرار نے کوئی جواب نہیں دیا۔
” بولیں… اب بول کیوں نہیں رہے۔
“ عترت نے گملوں میں کھلے ہوئے پھولوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
”اگر آپ نے بات نہ کی تو میں کال کاٹ دوں گی۔“ عترت نے دو ٹوک انداز میں بتایا۔
”مجھے آخری موقع دے دیں۔“ ضرار عجلت میں بولا۔ عترت سوچ میں پڑ گئی۔
”ماما کی قسم اب آپ سے کوئی بد تمیزی نہیں کروں گا۔“
” ٹھیک ہے۔“ عترت نے جواب دیا۔
” میں آ رہا ہوں۔“ ضرار نے اطلاع دے کر ساتھ ہی کال کاٹ دی۔
عترت کے چہرے پر بھی اُداسی کی جگہ راحت نے قدم رکھے تھے۔ اس نے بڑی محبت سے گلاب کے پھولوں کو چھوا۔ اُس کے بعد ساجد کا نمبر ملایا۔
” السلام علیکم آپی۔“ ساجد نے خوشی سے کہا۔
” صاحب کو اکیلے مت آنے دینا۔ صاحب کوسڑک پر اُتارنے کے بعد مجھے کال کرنا۔“
” جی آپی۔“ ساجد کا جواب سنتے ہی عترت نے کال کاٹ دی۔ عترت ہشاش بشاش ہو گئی۔ وہ نیچے کی طرف لپکی۔
ہال کے دروازے کے پاس پہنچ کر اُس نے اپنے جذبات کو قابو میں کیا۔ بی بی خانم کچن سے ہاتھ میں چائے والا مگ پکڑے ہوئے نمودار ہو رہی تھی۔ عترت ہال میں داخل ہو کر بولی :
” بی بی وہ مجھے لینے آ رہے ہیں … چلی جاؤں…؟“ بی بی خانم پہلے زیر لب مسکرائی پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی :
” میں بھول گئی… میاں جی نے اُس دن کیا فرمایا تھا۔“
” محرم کے ساتھ جاتے ہوئے کسی میاں جی کی اجازت درکار نہیں ہوتی۔
“ عترت نے فٹ سے بتایا۔
” کسی بی بی خانم کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں… جا میری بچی جا … “ بی بی خانم نے بڑی محبت سے کہا۔
عترت وہیں کھڑی رہی۔بی بی خانم نے اوپر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا :
” ایسے ہی جاؤ گی۔ تیار تو ہو جاؤ۔“
بی بی خانم کے جاتے ہی عترت جھومتے ہوئے اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئی۔

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan