Episode 9 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر9 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

نادرا کے آفس سے نکلتے ہوئے عتر ت نے حتمی لہجے میں کہا :
”آپ مجھے پاسپورٹ آفس چھوڑ کر سیدھا فیکٹری جائیں گے۔“
” میں آپ کو اکیلے چھوڑکر نہیں جا سکتا۔“ ضرار نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا۔ عترت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کار میں بیٹھ گئے۔ ضرار کار چلانے لگا۔ عترت اُس کے ساتھ خاموش بیٹھی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کے پاس سے گزرتے ہوئے ضرار بے تکلفی سے بولا :
” اچھا یار چلا جاؤں گا فیکٹری ! “ عترت نے سنجیدگی سے ضرار کی طرف دیکھا پھر ہنسے لگی۔
ضرار نے تھوڑی جھجھک کے ساتھ پوچھا :
” یہ غصے والی ہنسی ہے یا … ؟“
”اکیلے میں آپ مجھے یار، جان، جگر، کچھ بھی بول سکتے ہیں۔“ عترت نے محبت بھری نظروں کے ساتھ اجازت دے دی۔
راوی کا پرانا ٹول پلازہ پار کرتے ہی عترت نے کہا : ” دوسری سائیڈ پر آفس ہے۔

(جاری ہے)

آپ مجھے ادھر ہی اُتار دیں۔“
”پاسپورٹ آفس کے سامنے اُتار کر سیدھا فیکٹری چلا جاؤں گا۔

“ ضرار نے بتایا۔
” فیکٹری کے بعد آپ کلفٹن راوی آ جائیے گا۔ پھر گھر چلیں گے۔“ عترت نے کہا۔
”صبح گھر سے نکلتے ہوئے پروگرام بتایا تھا آپ نے۔“ ضرار نے میٹروبس اسٹیشن شاہدرہ کے پہلے اسٹاپ سے یوٹرن لیتے ہوئے کہا۔ عترت نے غور سے ضرار کی طرف دیکھا۔
”کیا دیکھ رہی ہیں۔“
”اپنی جان کو۔“ عترت نے بتایا۔
” آپ ایکسیڈنٹ کروا کے ہی چھوڑیں گی۔
“ ضرار نے پاسپورٹ آفس کے سامنے بریک لگاتے ہوئے کہا۔
” گاڑی احتیاط سے چلائیے گا۔“ عترت بولی۔ ضرار نے پچھلی سیٹ سے فائل اُٹھا کر عترت کو دیتے ہوئے کہا :
” ٹھیک ہے یار۔“ عترت نے اپنی مسکراہٹ کو نقاب سے چھپایا اور کار سے اُتر گئی۔ جب تک وہ آفس کے اندر داخل نہ ہوئی ضرار اُسے دیکھتا رہا۔
###
پندرہ دن بعد ضرار اور عترت عشاء کے بعد میاں جی سے ملنے کے لیے گئے۔
انھیں دیکھتے ہی میاں جی کھڑے ہوتے ہوئے بول اُٹھے :
” میرے بھاگ جاگ گئے۔ میری بیٹی مجھے ملنے آئی ہے۔“
” میاں جی میں بھی ساتھ ہوں۔“ ضرار نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
” تم تو ہو ہی مطلبی آدمی ! “ میاں جی نے عترت کے سر پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اسی شفقت کے ساتھ ضرار کے کندھے پر بھی تھپکی دی۔
”یہ کیسے مطلبی ہیں …؟ میاں جی “ عترت نے پوچھا۔

میاں جی نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا :
”نکاح کے بعد یہ آج آیا ہے میرے پاس۔“ عترت نے ضرار کو گھوری ڈالتے ہوئے کہا :
” میرے پوچھنے پر آپ نے کہا تھا۔ میں میاں جی کی طرف چکر لگاتا رہتا ہوں۔“
” ایسے ہی بول دیا ہوگا۔ چلو کوئی بات نہیں“ میاں جی نے بات کا رُخ بدلنے کے ساتھ ساتھ عترت سے سوال کیا :
” تم کدھر مصروف ہو آج کل… تم نے بھی چکر نہیں لگایا۔

”میاں جی ان کا ایک پلازہ خالی ہوا تھا ڈیفنس میں۔ میں نے سوچا موقع اچھا ہے میں نے اُسی پلازے میں بوتیک کھول لی ہے۔“
”میں نے تو بڑی مخالفت کی تھی۔“ ضرار نے جلدی سے کہا۔
”وہ کیوں…؟“ میاں جی نے پوچھا۔
”ان کو کمانے کی کیا ضرورت ہے … ؟میں جو ہوں۔“ ضرار نے بڑے فخر سے کہا تھا۔
میاں جی ہلکا سا مسکرائے پھر سنجیدگی کے ساتھ ضرار سے مخاطب ہوئے :
”ضرار بیٹا ! تم جمع کرنے کے لیے کماتے ہو اور یہ تقسیم کرنے کے لیے!“ ضرار میاں جی کے جملے پر غور کرنے لگا۔

”وزیرِ ٹُکر کدھر ہو بھائی ! “ میاں جی نے آواز دی۔ لانگری ہاتھ جوڑے حاضر ہو گیا۔ لانگری نے پوچھا :
” حکم میاں جی ! “
”عترت بیٹی آئی ہے کوئی چائے پانی لاؤ۔“ میاں جی کے کہنے کے بعد لانگری نے اُس سے بھی زیادہ عقیدت سے عترت سے پوچھا :
” حکم بی بی ! کیا پیش کروں …؟“
”وزیر جی ! وہ قہوہ پلا دو۔“ عترت نے فرمائش کر دی۔ لانگری بڑے ادب کے ساتھ اُلٹے پاؤں وہاں سے چلا گیا۔
ضرار اب بھی کچھ سوچ رہا تھا۔ عترت نے اُسے دیکھنے کے بعد پوچھا :
” میاں جی ! جیسی محبت آپ کے اور اماں جی کے بیچ تھی۔ ویسی میاں بیوی کے درمیان کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔“
”مرد سختی کرنے کے باوجود عورت سے محبت کی امید رکھتا ہے اور عورت دماغ سے مرد کو زیر کرنا چاہتی ہے۔“ عترت نے میاں جی کے جملے پر غو رکرنے کے بعد کھنکتی آواز میں کہا :
” آپ دانائی کی نفی کر رہے ہیں۔
میاں جی ! “ میاں جی مسکرائے پھر بڑی شائستگی سے کہنے لگے:
”دانائی کی نہیں مرد کے مقابلے میں عورت کے دماغ کی نفی کر رہا ہوں۔ عورت کے دماغ کا وزن مرد کے مقابلے میں کم ہوتا ہے عترت بیٹی ! “
”آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عورت کم عقل ہے۔“ عترت نے ترش لہجے میں جواب دیا۔
” ہر گز نہیں… بات محبت سے چلی تھی اور محبت کا تو عقل سے تعلق ہی نہیں ہے۔
عورت کا مرد کے مقابلے میں دماغ کا وزن ضرور کم ہے مگر دل کی وسعت بہت زیادہ ہے۔ “ ضرار کبھی عترت کو دیکھتا اور کبھی میاں جی پر نظر ڈالتا۔
میاں جی اپنی گردن کو ہلاتے ہوئے بولے :
” مرد سختی کی جگہ نرمی سے پیش آئے اور عورت دماغ کی بجائے دل سے کام لے پھر پیدا ہوتی ہے محبت!“ عترت میاں جی کے لفظوں پر غور کر رہی تھی۔ وہ کسی نقطے کی تلاش میں تھی۔
اسی دوران لانگری قہوہ لے آیا اُس نے میاں جی سے بھی پہلے عترت کو قہوہ پیش کیا۔
” بی بی قہوہ ! “ عترت نے ٹرے میں سے چینی کی پیالی اُٹھا لی۔ لانگری میاں جی کی طرف بڑھ گیا۔ جب وہ ضرار کے سامنے آیا تو ضرار کو یاد آیا :
” میاں جی ہم تو مٹھائی بھی لائے تھے۔“ ضرار نے کوٹ کی جیب میں سے چابی نکال کر لانگری کو دیتے ہوئے بتایا :
”یہ بٹن دبانے سے ڈگی کھل جائے گی۔
اُس میں سے مٹھائی کی ٹوکری اُٹھا لاؤ۔ “ لانگری کے جاتے ہی عترت نے میاں جی سے نظریں ملاتے ہوئے معنی خیز انداز میں پوچھا :
”میاں جی ! آپ اکثر فقیری کی بات کرتے ہیں آپ کے نزدیک فقیری کی تعریف کیا ہے …؟“ میاں جی کبوتر کی طرح اپنی گردن کو ہلانے لگے ذرا تامل کے بعد گویا ہوئے :
”نہ طمع نہ منع اور نہ ہی جمع“ اس جواب پر عترت غور کرنے لگی ضرار نے اپنی لا علمی بتا دی :
” سمجھ نہیں آئی میاں جی۔
“ میاں جی نے عترت کی طرف دیکھا جو سوچ میں گم تھی، تھوڑا سا توقف کیا پھر کہنے لگے :
” اپنی ذات سے حرص و ہوس کو ختم کرنا… اللہ کے بھیجے ہوئے سوالی کو انکار نہ کرنا او رمال و دولت کی محبت میں گرفتار نہ ہو جانا۔“ لانگری مٹھائی لے کر آ گیا۔ اس بار وہ سب سے پہلے میاں جی کی طرف گیا تھا اُس نے مٹھائی کی ٹوکری میاں جی کے سامنے رکھی اور اُلٹے پاؤں چلا گیا۔
فوراً ہی واپس لوٹا اُس کے ہاتھ میں مٹی کی تین چھوٹی پلیٹیں تھیں۔ اُس نے مٹھائی کی ٹوکری کھول کر میاں جی کے سامنے پیش کی، میاں جی نے اُس میں سے برفی کی ایک ڈلی مٹی کی پلیٹ میں رکھ لی۔ لانگری ضرار کی طرف چلا گیا۔ ضرار نے ٹوکری میں سے دو رس گلے نکال کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیے۔ لانگری نے قمیض کی جیب سے چابی نکال کر پیش کی :
” صاحب یہ !“ اس کے بعد لانگری عترت کی طرف آیا عترت کی نظروں میں لانگری کے لیے محبت تھی، جبکہ لانگری کا انگ انگ عقیدت کی تسبیح جپ رہا تھا۔
عترت نے ایک چھم چھم اُٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھتے ہوئے حکم دیا :
” وزیر جی ! باقی بانٹ دو!“ لانگری ادب سے گردن ہلاتے ہوئے اُلٹے پاؤں حجرے سے نکل گیا۔
”پرسوں ہم اللہ کے گھر جا رہے ہیں۔“ ضرار نے قہوے کا گھونٹ لینے کے بعد بڑے تفاخر سے بتایا۔ میاں جی کا چہرہ کھل اُٹھا وہ ضرار کی طرف متوجہ ہو کر بتانے لگے :
”گھر … ! وہ اپنے کسی گھر میں نہیں رہتا، پھر بھی اپنے سب گھروں میں موجود ہے۔
“ میاں جی برفی کی ڈلی سے چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر اسے کھانے لگے۔
پھر قہوے کا ایک گھونٹ بھرا۔ عترت خاموشی سے چھم چھم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کھانے کے بعد ساتھ ساتھ گرم قہوے سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ میاں جی نے عترت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
”عترت بیٹی آخر تمھیں عمرے پر جانے کے لیے محرم مل ہی گیا!“
”آپ کی دعاؤں سے۔“ عترت نے مختصر سا جواب دیا۔

”ضرار تم اب عترت کے محرم ہو۔ محرم اگر مرہم لگانے والا نہ ہوتو اُسے من کا مجرم بنتے دیر نہیں لگتی۔“ ہمیشہ عترت سے نرمی سے پیش آنا پھر سختی تمھاری زندگی میں نہیں آ سکتی۔“ میاں جی کے خاموش ہوتے ہی ضرار سوچ میں پڑ گیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتا عترت بول پڑی :
”میاں جی کوئی نصیحت مجھے بھی کر دیں !“ میاں جی گردن جھکائے تھوڑی دیر مسکراتے رہے پھر گردن اُٹھا کر کہنے لگے :
”محبت اگر خدمت سے خالی ہو پھر وہ صرف چار حروف کا مجموعہ رہ جاتی ہے۔
اپنے بندوں سے محبت کرنے والوں کو ہی وہ اپنا عشق عطا کرتا ہے۔ بندگی تو عشق کے چہرے کا جھومر ہے۔“
”میاں جی ! بہت رات ہو گئی ہے ! اب ہمیں اجازت دیں۔“ ضرار نے کہا۔ میاں جی اپنی نشست سے کھڑے ہونے کے بعد بولے :
” رات سورج کی غیر حاضری کا نام ہے۔“ میاں جی حجرے سے باہر نکل آئے۔
ڈیرے کے صحن میں الاؤ جل رہا تھا۔ میاں جی کے آٹھ دس عقیدت مند الاؤ تاپ رہے تھے۔
ملنگ سب سے بے نیاز برگد کے پیڑ کے نیچے اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ میاں جی کو دیکھتے ہی سب ادباً کھڑے ہو گئے۔ میاں جی ڈیرے کے دروازے سے باہر نکل کر کھڑے ہو گئے۔ کار تھوڑی دور کھڑی تھی۔
” اجازت میاں جی !“ ضرار نے پوچھا۔ میاں جی نے ضرار کو گلے سے لگا لیا۔ چند لمحوں بعد خود سے الگ کرتے ہوئے کہنے لگے :
” خیر سے جاؤ۔“ ضرار نے عترت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
عترت نے کہا :
” آپ گاڑی میں بیٹھیں میں دو منٹ میں آئی۔“ ضرار کار کی طرف چل پڑا جب وہ کار میں بیٹھ گیا تو عترت نے بڑے ادب کے ساتھ میاں جی کو مخاطب کیا :
” میاں جی ! آپ سے ہمیشہ ترش لہجے میں بات کی۔ آپ میرے لیے باپ سے بڑھ کر ہیں اس لیے آپ کو کبھی اباّ نہیں کہا۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کا احسان نہیں رکھا۔ مگر آپ کے احسان چکا نہیں سکی۔
“ عترت پھڑ پھڑاتے ہوئے میاں جی کے سینے سے لگ گئی، پھر اُس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے :
” میاں جی ! میری گستاخیاں معاف کر دیجیے گا۔“ عترت کے گالوں پر اُس کے آنسو رقص کر رہے تھے۔ میاں جی نے فرطِ محبت کے ساتھ عترت کا سر سے بوسہ لیا پھر گردن اُٹھا کر ستاروں سے بھرے آسمان کی طرف دیکھ کر نم آواز میں دعا دی :
”یا اللہ! کملی والے کے صدقے اس بچی کو لمبی بابرکت عمر عطا کر دے۔
“ میاں جی سے الگ ہوتے ہوئے عترت نے کہا :
” اجازت دیجیے۔“
” فی امان اللہ۔“ میاں جی نے سرپر پیار دیا۔
عترت کار کی طرف چل دی۔ میاں جی اُسی مقام پر کھڑے تھے۔ کار میں بیٹھنے سے پہلے عترت نے پلٹ کر میاں جی کو نظر بھر کے دیکھا پھر کار میں بیٹھ گئی۔
”آپ رو رہی ہیں۔“ ضرار نے فکر مندی سے پوچھا۔
” جی “ عترت نے کار چلانے کا اشارہ کرتے ہوئے اقرار کیا۔
جب تک ضرار کی کار میاں جی کی نظروں سے اوجھل نہ ہوئی وہ اُسی مقام پر کھڑے رہے۔
” رو کیوں رہی ہیں…؟“ ضرار نے عترت کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ عترت نے ٹشو کی مدد سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا :
” بس دل بھر آیا تھا۔“ ضرار نے مسکراتے ہوئے پوچھا :
”مجھ سے دل تو نہیں بھر گیا۔“ عترت نے نظر بھر کے ضرار کو دیکھا تو وہ ہلکی سے شرمندگی کے ساتھ کہنے لگا :
”اب آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔
“ عترت نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ ونڈاسکرین سے آگے سڑک کی طرف دیکھنے لگی ۔
”آپ نے میری دولت کی وجہ سے مجھ سے شادی نہیں کی۔“ ضرار نے عترت کو دیکھے بغیر یقین کے ساتھ کہا تھا۔ عترت نے بھی دیکھے بغیر ہی پوچھا :
” پھر کیوں … ؟“
” مجھ جیسے بندے سے محبت بھی نہیں ہو سکتی۔“
” محبت کیوں نہیں ہو سکتی … ؟“ عترت نے بڑی سنجیدگی سے سوال کیا۔

” آپ اتنی نیک اور میں … ؟“ ضرار نے سڑک سے نظریں ہٹا کر عترت کو دیکھا تھا۔ عترت نے بھی اُسے دیکھتے ہوئے بتایا :
”نیک بننے کے لیے نیت پہلی شرط ہے۔“
###
اگلے دن عترت نے شوکت خانم ہسپتال سے اپنا ماہانہ چیک اَپ کروایا۔ مہینے کی دوائی لی۔ اُس سے اگلے دن وہ دونوں عمرے کے لیے روانہ ہو گئے۔
رات دس بجے مکہ مکرمہ کے ایک ہوٹل میں سامان رکھنے کے بعد، ہوٹل کی انتظامیہ نے اُن دونوں کو اپنے ہوٹل کا ایک ایک وزٹنگ کارڈ تھما دیا تھا۔
ہوٹل سے نکلتے ہی عترت دیوانہ وار حرم کی طرف تیز تیز قدموں سے چلی جا رہی تھی۔ ضرار کو اُس کے ساتھ قدم ملانے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ ہمیشہ معتدل چال چلنے والی عترت کے قدم جلد سے جلد اُس مقام پر پہنچنے کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں سب جہانوں کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیے تھے۔
وہ دونوں باب النبی ﷺ سے حرم کے اندر داخل ہوئے۔
خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی عترت کا دل دہل گیا۔ وہ ایک ستون کا سہارا لے کر اُس کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ پھر بھی دل کی دھڑکن تیز رہی تو عترت نے آنکھیں بند کرتے ہوئے ضرار کا ہاتھ تھام لیا۔ جب عترت کے دل کو سکون ملا تو اُس کے دل سے ایک ہوک اُٹھی۔ یکایک اُسے اپنے اندر ایک نور کا حالہ اُترتا ہوا محسوس ہوا، پھر ترکی بہ ترکی اُس کے سارے اندیشے دھوئیں کی طرح اُس کے دل سے اُڑنے لگے۔
ضرار نے اپنے برابر کھڑی عترت کو غور سے دیکھا۔ وہ کسی اور ہی دنیا میں تھی۔
ہجوم میں ضرار اُس کی ڈھال بن گیاتھا۔ کچھ دیر بعد عترت نے آنکھیں کھولیں تو اُسے اپنے کافی سارے سوالوں کے جواب مل چکے تھے۔ اُن میں سے ایک یہ بھی تھا :
” عورت کے ساتھ محرم کیوں ضروری ہے؟“ وہ اپنے محرم کی طرف دیکھ کر فاتحانہ انداز میں مسکرائی پھر اُس کا ہاتھ تھامے ہوئے طواف کی غرض سے اُس کے قدم خانہ کعبہ کی طرف بڑھے۔

###
عمرے کی سعادت حاصل کرتے کرتے فجر کا وقت ہو گیا تھا۔ حرم میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہی وہ ہوٹل لوٹے تھے۔ اپنے کمرے میں پہنچتے ہی ضرار بول اُٹھا :
”مجھے افسوس ہے میں اس جگہ پہلے کیوں نہیں آیا۔“ عترت کے چہرے پر اطمینان تھا جیسے کچھ پا لیا ہو جبکہ ضرار میں تڑپ تھی کچھ پانے کی۔ عترت نے سوٹ کیس سے اپنے اور ضرار کے کپڑے نکالے اور واش روم میں چلی گئی واپس لوٹی تو اُس نے احرام کی جگہ سفید سوتی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔
ضرار نے عترت کو اپنا احرام سیدھا کر کے سوٹ کیس میں رکھتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا :
” کل نہیں عمرہ کرنا کیا … ؟“ عترت نے بولتی آنکھوں کے ساتھ ضرار کو دیکھا تو وہ فٹ سے بول اُٹھا :
” میں نے پاکستان سے آئے ہوئے ایک مولوی صاحب سے ساری معلومات لے لی ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ ہم مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر پھر عمرہ کر سکتے ہیں۔

” دوسرا کلمہ سنائیں … ؟“ عترت نے کہا، تو ضرار نے دوسرا کلمہ سنا دیا۔
”اب تیسرا… “ ضرار نے تیسرا کلمہ بھی ٹھیک ٹھیک سنا دیا۔
” آج ہم چوتھا کلمہ یاد کریں گے۔ یہ پکڑیں اور پہلے مجھ سے سنیں۔“ عترت نے ایک چھوٹی اسلامی کتاب ضرار کو پکڑانے کے بعد چوتھا کلمہ سنا دیا۔ عترت نے ضرار سے اشارے سے کتاب مانگی تو وہ کتاب دیتے ہوئے بچوں کی طرح گلہ کرتے ہوئے بولا :
” یاد کرایا نہیں تو سناؤں کہاں سے…؟“
” آپ پہلے احرام کھول دیں۔
“ عترت نے کہا۔ ضرار واش روم چلا گیا۔ جب وہ واپس لوٹا تو عترت نے اپنے سر پر سفید اسکارف باندھ لیا تھا۔
” چلیں بھوک لگی ہے۔ ناشتہ کر آتے ہیں۔“ عترت نے فٹ سے کہہ دیا۔ ضرار نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے منہ بنا کر کہا :
” میں تو پہلے ہی بہت تھک گیا ہوں۔“
” چلیں اُٹھیں نا…“ عترت نے ضرار کو بازو سے پکڑ کر اُٹھایا۔ بیڈ روم سے نکلتے ہوئے ضرار برا سا منہ بنا کر بولا :
”کہا بھی تھا… سٹار پیکج لے لیتے ہیں… مگر آپ کو تو اکانومی ہی لینا تھا… ہمارا ہوٹل خانہ کعبہ سے کتنی دور ہے… سٹار پیکج والے کعبہ کے سامنے کلاک ٹاور میں رہائش دے رہے تھے۔

”طے یہ پایا تھا عمرہ اپنے اپنے پیسوں سے کریں گے۔“ عترت نے اپنی شرط یاد کرائی۔ ضرار نے لفٹ کابٹن دبانے کے بعد عترت کی طرف دیکھا پھر دھیرے سے بولا :
” آپ مجھے اپنا نہیں سمجھتی کیا … ؟“
” خود کو سونپ دیا ہے آپ کو !“ عترت نے لفٹ کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں خالی لفٹ میں چڑھ گئے۔
” پھر میرے پیسوں سے عمرہ کیوں نہیں کیا…؟“ ضرار نے شکوے سے پوچھا۔

”سالوں سے عمرے کے لیے پیسے جوڑ رہی تھی۔ اگر میری کسی غریب سے شادی ہو جاتی تو وہ عمرے کے پیسے کہاں سے لاتا…؟“ عترت نے ضرار کے شکوے سے بھرے لہجے کا بڑی مٹھاس سے جواب دیا۔ ضرار کچھ کہنے ہی والا تھا کہ عترت بول پڑی :
”آج ہم نے یہاں کی سمز بھی لینی ہیں۔“ لفٹ کا دروازہ کھلا چند افراد اُس میں سوار ہوئے عترت نے ضرار کا بازو پکڑ لیا۔
گراؤنڈ فلور پر لفٹ کا پھر سے دروازہ کھلا سب کے نکلنے کے بعد وہ لفٹ سے باہر آئے تھے۔
ہوٹل کے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک جوڑے کے ہاتھ میں ناشتے والا پارسل دیکھ کر عترت نے خاتون سے پوچھا :
” ناشتہ کدھر سے لائی ہیں آپ … “
” ہم تو کراچی دربار سے لاتے ہیں… دوسرے ہوٹلوں کا تو مجھ سے کھایا ہی نہیں جاتا۔ ایک دم پھیکا پھیکا۔“ خاتون نے پتہ بتانے کی بجائے اپنی پسند بتانا شروع کر دی تھی۔

” کراچی دربار کدھر ہے …؟“ عترت نے پوچھا۔
”باہر نکلیں… اُلٹے ہاتھ پھر سیدھا چلتے جائیں… بڑی سڑک پرآپ کو کراچی دربار نظر آ جائے گا۔“
”شکریہ ! “ بول کر عترت چل پڑی۔
” ناشتہ کر کے ہم سو جائیں گے … بارہ بجے اُٹھ کر مسجد عائشہ جائیں گے وہاں سے احرام باندھ کر سیدھا حرم واپس۔ عشاء کی نماز پڑھ کر ہی ہم ہوٹل واپس آئیں گے۔“ ضرار نے سارے دن کا شیڈول بتایا تو عترت مسکرا دی۔
ناشتے کاپارسل لانے کی بجائے عترت نے ریسٹورنٹ میں ہی ناشتہ کرنے کو ترجیح دی۔ ناشتے کے بعد وہ اپنے ہوٹل لوٹ آئے۔
سونے سے پہلے عترت نے خود بھی دانت صاف کیے اور ضرار سے بھی برش کروایا۔ جب وہ اپنے اپنے بیڈ پر سونے کے لیے لیٹ چکے تو عترت نے اُس کی طرف منہ کر کے پوچھا :
” اپنی رائے دے سکتی ہوں کیا …؟“
” کس بارے میں …؟“
”عمرے کے بارے میں … !“ عترت نے کہا۔
ضرار نے نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ بولنے کا اشارہ کیا۔
”دین کے بہت سارے معاملات کی طرح عمرے کے حوالے سے بھی ہمارے علماء کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔“
عترت کے بتانے پر ضرار نے آنکھیں پوری طرح سے کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا :
”کیسا اختلاف… ؟“
”کچھ کہتے ہیں ایک سفر میں ایک ہی عمرہ کرنا چاہیے۔ کچھ کہتے ہیں جتنے مرضی کریں۔
“ عترت کے سانس لیتے ہی ضرار نے فٹ سے پوچھ لیا :
” آپ کیا کہتی ہیں۔“
”میں کسی اختلافی مسئلے میں کبھی نہیں پڑی۔ سب کی دلیلیں سننے کے بعد جو بات مجھے سمجھ آتی ہے اُس کے مطابق عمل کر لیتی ہوں۔“ ضرار نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا :
”آپ کس پر عمل کریں گی۔“ عترت بھی بیٹھ گئی پھر آنکھیں بند کر کے کہنے لگی :
” خانہ کعبہ زمین کے عین مرکز میں ہے۔
زمین صدیوں سے گھومتی چلی جا رہی ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے زمین خانہ کعبہ کے گرد ہی گھوم رہی ہو۔ کبھی کبھی تو مجھے ایسے بھی محسوس ہونے لگتا ہے، جیسے یہ ساری کائنات ہی خانہ کعبہ کا طواف کر رہی ہو۔ ساری کائنات اس گھر کا طواف کر رہی ہے۔“ عترت آنکھیں بند کر کے اپنی شہادت والی انگلی کو مدار کی طرح گھمانے لگی۔ ضرار کو کچھ تشویش لاحق ہوئی تو اُس نے جلدی سے اپنے بیڈ سے اُٹھ کر عترت کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا :
”آپ ٹھیک تو ہو … نا؟“ عترت نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھول دیں پھر بڑے اعتماد سے بولی :
”اب تو بالکل ٹھیک ہوں۔
“ ضرار کے چہرے پر اب تشویش کی جگہ کچھ اور ہی تھا، وہ عترت کو سمجھنے کے چکر میں خود اُلجھ بیٹھا تھا۔
” وہ ہم عمرے کی بات کر رہے تھے۔“ ضرار نے اپنے بیڈ پر واپس بیٹھتے ہوئے بتایا۔
” میں تو عمرہ کر چکی ہوں۔ آپ اگر مزید عمرے کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں۔“ عترت نے آرام سے اپنی رائے دے دی۔ ضرار پچھلے بارہ گھنٹوں میں عترت کی شخصیت کے چند پراسرار پہلو دیکھ چکا تھا۔ ضرار نے نپے تلے انداز میں سوال کیا :
”میں عمرہ کروں گا تو آپ کیا کریں گی…؟“
”طواف کروں گی اور کیا … ؟“ عترت نے موٴدب اندازمیں بتایا۔
”میں بھی طواف ہی کروں گا۔“ ضرار نے دبی سی آواز میں کہا۔

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan