Episode 10 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر10 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

مکہ مکرمہ میں چودہ دن گزارنے کے بعد صبح آٹھ بجے اُن کو مدینہ منورہ کے لیے نکلنا تھا۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے لیے عترت بے چین تھی۔ بس میں سوار ہونے سے پہلے عترت نے پاکستان بی بی خانم کو فون کیا۔ بی بی خانم سے بات کر کے وہ اُداس ہو گئی تھی۔ پھر اُس نے ایک اور نمبرملایا۔
السلام علیکم کے بعد اُس نے پوچھا :
” کیا ہوا تھا اُن کو … ؟“ وہ غور سے دوسری طرف کی سنتی رہی۔
اشک اُس کے رخساروں سے ٹکراتے ہوئے، مکہ مکرمہ کی پاک زمین میں جذب ہو رہے تھے۔ سب مسافر بس میں سوار ہو چکے تھے۔ ضرار بس سے اُتر کر اُس کے پاس آیا۔ عترت کے آنسو دیکھ کر اُس نے تڑپ کرپوچھا :
” کیا ہوا آپ کو … ؟“
”میرے ایک عزیز فوت ہو گئے ہیں۔“ عترت نے ٹشو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا، پھر وہ خود ہی بس کے اندر داخل ہو گئی تھی۔

(جاری ہے)

ضرار بھی اُس کے پیچھے پیچھے بس میں سوار ہو گیا۔

ونڈو سیٹ پر عترت بیٹھی تھی۔ بس چل پڑی، عترت نے بس کا پردہ پیچھے ہٹا دیا۔ وہ جاتے جاتے بھی مکہ کی وادی کے در و دیوار کو نظروں سے چومنا چاہتی تھی۔
پندرہ بیس منٹ تک ضرار نے بھی کھڑکی سے باہر دیکھنے میں عترت کا ساتھ دیا، پھر اُس کی آنکھ لگ گئی۔ عترت نے چشم الفت سے ضرار کو دیکھا جو نیند کی آغوش میں جا چکا تھا۔
بس کا سفری میزبان ایک دو افراد کو چھوٹا سا سفری Blanket دے چکا تھا۔
عترت نے بھی اُسے اشارہ کر دیا۔ وہ مصری لڑکا فٹ سے Blanket لے آیا۔ عترت نے وہ ضرار کے اوپر بڑی احتیاط سے ڈالا کہیں اُس کی آنکھ نہ کھل جائے۔
سارے رستے رہ رہ کر عترت کی آنکھوں سے خاموش آنسو اُس کے گالوں پر ٹپکتے رہے، وہ بھی ٹشو سے اُنھیں صاف کرتی رہی۔ جیسے جیسے مدینہ منورہ قریب آ رہا تھا۔ عترت کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔
ظہر کی نماز سے پہلے وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے تھے۔
ہوٹل میں سامان رکھنے کے بعد وہ مسجد نبوی کی طرف چل پڑے۔ عترت کی چال میں ایک وقار تھا۔ وہ بڑے ادب سے مسجد نبوی کے میناروں کو دیکھتے ہوئے اُس کی طرف بڑھ رہی تھی۔
مسجد نبوی پہنچ کر سب سے پہلے اُن دونوں نے نماز ادا کی۔ نماز کے بعد وہ دونوں مسجد نبوی کے صحن میں آ گئے۔ عترت نے ضرار کا ہاتھ تھاما اور گنبد خضریٰ کی طرف ہولے ہولے چلنے لگی۔
گنبد خضریٰ پر پہلی نظر پڑتے ہی عترت کے قدم تھم گئے اور سانسیں رُک گئیں، اُس کے دل کو قرار مل گیا۔ وہ کتنی دیر ملائم نظروں سے محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کو دیکھتی رہی۔ ضرار کبھی اپنے پہلو میں کھڑی عترت کو دیکھتا اور کبھی سبز گنبد کی طرف۔
مکہ مکرمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے نور کی تجلیوں کا نزول ہوتا ہے تو مدینہ منورہ میں ہر وقت رحمت برستی رہتی ہے۔

مکہ مکرمہ میں عترت کے قدم صرف نماز اور آرام کے کے لیے رُکتے باقی وقت وہ کعبہ کے گرد طواف ہی کرتی رہتی۔ مدینہ منورہ میں اُس کے قدم تھم گئے تھے۔ نماز اور آرام کے بعد باقی کا سارا وقت وہ جنت البقیع اور گنبد خضریٰ کے درمیان بیٹھ کر محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کو دیکھتے ہوئے درود و سلام کے نذرانے پیش کرتی رہتی۔ عترت کو پتہ بھی نہیں چلا اس معمول کے تحت کب چودہ دن گزر گئے۔

مدینہ منورہ کو چھوڑ کرجانا عترت کے لیے ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا۔
جانے سے پہلے اُس نے روضہٴ اقدس کے سامنے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔
” یا اللہ ! اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میری بیماری دور کر دے۔ میں نے آج تک صرف تین شہر دیکھے۔ میں تیری جنت دوزخ سے پہلے تیری بنائی ہوئی دنیا دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں نے ساری زندگی خلوت میں گزار دی۔
اب زندہ رہ کر تیرے جلوے دیکھنا چاہتی ہوں۔“
” دیر ہو رہی ہے۔“ ضرار کا ہاتھ عترت کے کندھے پر نہ آتا تو وہ اللہ سے نہ جانے کیا کیا مانگ لیتی۔ عترت کی آنکھیں اشکوں سے بھیگ چکی تھیں۔ وہ نظریں جھکائے اُلٹے پاؤں چلنے لگی، جب تک وہ مسجد نبوی سے نکل نہیں آئی اُس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی طرف پشت نہیں کی۔
###
جہاز میں کھانے اور چائے سے فارغ ہونے کے بعد عترت نے ضرار سے پوچھا:
”کوئی پلان بنایا ہے آپ نے … ؟“
”کس بارے میں ! “ ضرار نے پوچھا۔

”ولیمے کی دعوت کرنے کا ارادہ بدل تو نہیں دیا۔“ عترت نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ ضرار نے مسکراتے ہوئے نفی میں گردن ہلا دی۔ ضرار نے لمحہ بھر سوچا پھرنپے تلے انداز کے ساتھ کہنے لگا :
” آپ بتائیں آپ نے کیاسوچا ہے۔“ عترت کے ہونٹوں پر معزز مسکراہٹ اُبھری وہ اُسی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئی :
”بدل گئے ہیں ضرار صاحب !“
”آپ کی سنگت کا اثر ہے۔
“ ضرار نے سنجیدگی سے اقرار کیا۔
”میں نے ایک پلان تو بنایا ہے … !“ عترت بات کرتے کرتے رُک گئی۔ ضرار نے عترت کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا :
”جو آپ نے سوچا ہے ویسا ہی ہو گا بتائیں!“ عترت نے ضرار کو بڑی محبت سے دیکھتے ہوئے ایک لمبی سانس بھری پھر کہنے لگی :
”کل میں گھر آپ سے ملوانے کے لیے کسی کو بلانا چاہتی ہوں۔ پرسوں میرے چیک اَپ کے بعد ہم میاں جی کے ڈیرے پر جائیں گے، اُس کے بعد آپ مجھے راوی کلفٹن چھوڑیں گے۔
“ عترت خاموش ہو گئی، پھر یکایک شرماتے ہوئے کہنے لگی :
”مجھے آپ کی دلہن بھی بننا ہے۔“
”دُلہن…؟“ ضرار کے منہ سے نکلا۔ عترت لجا سی گئی۔ وہ نظریں جھکا کے بتانے لگی :
”مجھے دلہن بننے کا بڑا شوق تھا۔ ہزاروں لڑکیوں نے میرے تیار کیے ہوئے شادی کے جوڑے پہنے ہیں۔“
”اور میں نے آپ کو شادی کا جوڑا پہننے کا موقع ہی نہیں دیا۔“ ضرار نے عترت کی بات کاٹتے ہوئے ندامتی انداز میں کہا۔

”آپ بھی خود کو معاف کر دیں، میں آپ کو معاف کر چکی ہوں۔“ عترت نے سنجیدگی سے بتایا۔ ساتھ ہی بات کا رُخ بدلتے ہوئے پوچھنے لگی :
”ذرا بتائیں میں کس کا جوڑا پہن کر دُلہن بنوں گی … ؟“
”ظاہر ہے خود کا تیار کیا ہوا۔“ ضرار کے بتانے پر عترت نے معصومیت سے نفی میں گردن ہلا دی۔
” پھر کس کا… ؟“ ضرار نے پوچھا۔
”اماں مطوفہ کا!“
”اماں مطوفہ کون… ؟“ ضرار نے سوال کیا۔

”میاں جی محمد ثقلین کی بیوی مطوفہ ! مہربان عورت میری ماں ! “ عترت نے بڑے فخر سے بتایا اُس کی آواز میں درد نمایاں تھا۔ اس بار ضرار نے دانش مندی کے ساتھ بات بدلی :
”مجھے تو آج پتہ چلا کہ میاں جی کا نام ثقلین ہے۔“
”محمد ثقلین اُن کا پورا نام ہے۔“ عترت نے یاد کرایا۔
”ولیمے کا تو آپ نے بتایا ہی نہیں کب کرنا ہے…؟“ ضرار نے پوچھا۔

”ضرار آپ کو برا تو نہیں لگ رہا میں نے آپ کے مشورے کے بغیر ہی سارے فیصلے کر لیے ہیں۔“ عترت نے فکر مندی سے سوال کیا۔ ضرار نے اُس کے ہاتھ کو محبت سے دباتے ہوئے کہا :
” اب آپ کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگتی۔“ عترت نے جانچتی نظروں سے ضرار کو دیکھا تو وہ سنجیدگی سے بولا :
” سچ“
”آج سے پچیس دن بعد سویرے سویرے میں ساجد بھائی کے ساتھ راوی کلفٹن چلی جاؤں گی۔
رات کو آپ اپنی دلہن کو لینے آئیں گے۔ اُس سے اگلے دن ولیمہ ہو گا۔“ عترت کے بتانے پر ضرار نے فٹ سے پوچھا :
”پچیس دن بعد کیوں …؟“ عترت نے جواب دینے کی بجائے لب سکیڑ کر ضرار کو دیکھا۔
”Ok…“ ضرار نے جلدی سے مسکراتے ہوئے رضا مندی بھی ظاہر کر دی۔
”اب آپ ہر روز کام پر بھی جایا کریں گے۔“ عترت نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ضرار مسکراتے ہوئے بولا:
”جی میڈم۔

###
”ضرار صاحب ! یہ صنم ہیں شاہ زمان کی سابقہ بیوی۔“ ضرار کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی عترت نے صنم کو ضرار سے متعارف کروایا تو صنم نے ششدر ہو کر عترت کی طرف دیکھا۔ ضرار نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے پوچھا :
”صنم کون … ؟“ اس سے پہلے کہ عترت بتاتی صنم تلخی سے بول پڑی :
” اِس کی ماں ہوں میں !“
”ماں سے ممتاہے اور ممتا سے ماں۔
ماں اگر ممتا سے محروم ہو تو وہ صرف جنم دینے والی رہ جاتی ہے۔ ضرار صاحب انھوں نے مجھے صرف جنم دیا ہے۔ ماں تو میری مطوفہ اماں ہیں۔“
عترت نے بڑے سلیقے سے بتایا، اُتنے ہی بگڑے انداز میں صنم بولی :
”تم نے مجھے بے عزت کرنے کے لیے یہاں بلایا ہے…؟“
عترت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور ضرار کی طرف گئی۔ اُس نے ضرار کا ہاتھ تھام کر اُسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ صنم کے بالکل سامنے بیٹھ گئے۔ عترت نے بڑے فخر سے ضرار کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بتایا :
” یہ میرے شوہر ہیں ! وہی جن کو سدھارنے کا آپ نے مجھے چیلنج دیا تھا۔“ صنم کا میک اَپ سے لت پت چہرہ مزید لال ہو گیا۔ ضرار کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اُس کے باوجود اُس نے کوئی سوال نہیں کیا۔ عترت نے اُس کے تمام سوالوں کے جواب خود ہی دینے شروع کر دیے :
” ضرار صاحب ! آپ کے ماما، پاپا نے میاں جی سے کہا تھا کہ آپ کے لیے کوئی لڑکی تلاش کریں۔
میاں جی نے اُنھیں میرے گھر بھیج دیا۔ اُس دن سالوں بعد اتفاق سے اِنھیں بھی میری یاد آ گئی تھی۔ بی بی خانم نے ماما، پاپا کو بتا دیا کہ یہ میری ماں ہیں۔ ماما، پاپا نے آپ کے سارے عیب بتانے کے بعد ان سے میرا رشتہ مانگا۔ انھوں نے ہاں کر دی اور میں نے نا… ماما، پاپا نے مجھے سوچنے کا وقت دیا اور وہاں سے چلے آئے۔“ عترت کی بات کاٹتے ہوئے صنم جلالی انداز میں کہنے لگی :
”پھر میں نے کہاتھا ہمت ہے تو شاہ زمان جیسے بندے کے ساتھ زندگی گزار کے دکھاؤ۔

”ان کے ساتھ جینا شروع کردیا ہے، زندگی بھی گزر ہی جائے گی۔“
عترت نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا۔
”تمھارے پاس زندگی ہے ہی کتنی۔“ صنم کی بات سنتے ہی ضرار کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس سے پہلے ضرار کچھ کہتا عترت نے فٹ سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا :
” چلیں کھانا کھاتے ہیں۔“
”میری باتوں سے بھوک مری نہیں تمھاری … ؟“ صنم نے تیکھے انداز کے میں پوچھا۔

”آپ کے جانے کے بعد حرص، ہوس اور جسم کی بھوک ہی تو ماری ہے میں نے۔ کھانا تو صرف زندہ رہنے کے لیے کھاتی ہوں۔ چلیں آپ بھی کھانا کھا لیں! “ عترت اپنی جگہ سے اُٹھ گئی۔ صنم اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔
” میری اپنے شوہر کے سامنے دو کوڑی کی عزت نہیں چھوڑی تم نے۔“ صنم لفظ چباتے ہوئے کھڑی ہوئی تھی۔ عترت اُس کے روبرو جا کھڑی ہوئی اور بڑے طنز سے بتانے لگی :
”صنم جی ! آپ نے تو اپنے شوہر کو دمڑی کا بھی نہیں رہنے دیا تھا۔
جو عورت اپنے مجازی خدا کو ہراتی ہے وہ زندگی بھر زمانے کے خداؤں سے جیت نہیں سکتی۔ جو عورت اپنے مجازی خدا سے خود ہی ہار جائے۔ زمانے کے سارے خدا اُس سے جیت نہیں سکتے۔“
”گھر بلا کر اچھی عزت کی ہے تم نے۔“ صنم نے روکھے انداز میں کہا۔
”عزت ہے اب بھی آپ کے پاس۔“ یہ سنتے ہی صنم نے ایک زور دار طمانچہ عترت کے گال پر جڑ دیا۔ ضرار غصے کے عالم میں کھڑا ہو گیا۔
عترت نے اُسے تھم جانے کا اشارہ کیا۔ اُسی وقت عترت کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ عترت نے صوفے پر پڑے ہوئے اپنے موبائل کی طرف نظر ڈالی پھر پاس جا کر اُس نے موبائل اسکرین کی طرف دیکھا ” وزیر جی“ نام کے نمبر سے کال آئی تھی۔ عترت جلدی سے اپنا موبائل اٹھا کر ڈرائنگ روم سے باہر چلی گئی۔ اُس کے جاتے ہی ضرار نے خفگی سے کہا :
” آنٹی ! آپ کو اُس پر ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہیے تھا۔
“ صنم نرم پڑ گئی۔ وہ اُسی نرمی کے عالم میں بولی :
” چلو… کم از کم میں کسی کی آنٹی تو ہوں۔ عترت نے تو میرے ساتھ نفرت کا رشتہ بھی نہیں رکھا۔“ ضرار نے صنم کی طرف آتے ہوئے پوچھا :
” آپ کیوں اُس کے ساتھ کوئی رشتہ رکھنا چاہتی ہیں۔“
” بیٹی ہے وہ میری ! “ ضرار کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ اُمڈ آئی وہ کہنے لگا :
”مگر وہ تو آپ کو ماں نہیں مانتی۔

”ماں کے کوئی جذبات نہیں ہوتے کیا … ؟ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ شاہ زمان کے نکاح میں ہوتے ہوئے مجھے ارمغان پٹھان بھی پسند آ گیا۔ شاہ چانن کی زندگی میں ارمغان کو میں نہیں پا سکتی تھی، اس لیے اُن کے مرتے ہی میں ارمغان کے ساتھ چلی گئی۔“
”اب واپس کیوں آئی ہیں …؟“ صنم کے چپ ہوتے ہی ضرار نے پوچھ لیا۔
” واپس نہیں آئی … صرف ملنے آئی ہوں!“ صنم نے آرام سے بتایا۔

” کیوں …؟“
”بختیار نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ آج کل فارغ تھی اس لیے ملنے آ گئی۔“
” آپ نے تو ارمغان سے شادی کی تھی۔“ ضرار نے اُلجھتے ہوئے بتایا۔
” ارمغان کے مرنے کے بعد میں نے نادر سے شادی کر لی تھی نادر سے میں نے طلاق لی تھی اور بختیار نے مجھے دے دی۔“ صنم نے بڑے فخر سے ساری تفصیل بتائی تو ضرار زیر لب مسکرایا۔ اُس کا مسکرانا صنم کی نظروں سے چھپ نا سکا، وہ سنجیدگی سے کہنے لگی :
”صرف چار ہی شادیاں کی ہیں میں نے !“ عترت نے اندر آتے ہوئے صنم کی بات سن لی وہ طنزیہ انداز میں بولی :
”پانچویں بندے کی تلاش میں ہیں آج کل ! “
”شادیاں کی تھیں میں نے کوئی گناہ نہیں کیے۔
“ صنم نے فخر سے بتایا۔ عترت کا مزاج بگڑ گیا۔ ضرار نے ہلکے پھلکے اندازمیں کہا :
” آپ دونوں چھوڑیں پرانی باتیں … آئیں کھانا کھاتے ہیں۔“
###
”آپ نے مجھے سدھارنے کے لیے میرے ساتھ شادی کی تھی کیا … ؟“ ضرار نے عترت کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
” میں تو اپنی جنم دینے والی کو راہ راست پر نا لا سکی آپ کو کیا سدھاروں گی۔
“ عترت نے افسردگی سے کہا۔ ضرار مسکراتے ہوئے کہنے لگا :
”مجھے تو وضو، غسل کے فرض سے لے کر حلال حرام تک سب کچھ آپ نے ہی بتایا ہے۔ نہ مجھے کلمے آتے تھے اور نہ ہی نماز۔ میں تو آپ کی وجہ سے ہی سیدھے راستے پر آیا ہوں۔“ ضرار کی باتوں کے بعد عترت نے چند ساعتیں سوچا پھر کہنے لگی :
”اللہ انھیں ہی ہدایت سے نوازتا ہے جو اُس کے طالب ہوں۔ وہ شروع ہی سے دنیا کی طالب ہیں۔
“ عترت کے خاموش ہوتے ہی ضرار نے پوچھ لیا :
”مجھ سے شادی کیوں کی آپ نے …؟“ ضرار کے سوال کے بعد عترت نے لمحہ بھر توقف کیا پھر بتانے لگی :
” بات چھوڑتے نہیں ہیں آپ بھی۔ میں مرنے سے پہلے پہلے ہر حال میں شادی کرنا چاہتی تھی۔ جو بھی رشتہ آتا وہ لوگ میری بیماری کا سن کر انکار کر دیتے۔ اسی دوران آپ کا رشتہ آ گیا۔ ماما نے میری بیماری کا سن کر کہا تھا۔
ہم تمھارا علاج کروائیں گے بیٹی ! مگر میں نے آپ کے قصے سن کر انکار کر دیا تھا۔ “ ضرار نے عترت کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا :
” ابھی تک آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔“
” بولنے کہاں دے رہے ہیں آپ مجھے ! “ عترت نے شکوہ کیا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ ضرار بھی اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔
”ضرار صاحب ! مجھے کمانے والے پسند ہیں، خواہ وہ عزت ہو یا پیسہ۔
میں چاہتی تھی جو بھی مجھ سے شادی کرے وہ ترس کھا کر نہ کرے۔ جب میں نے انکار کیا تب مجھے لگا تھا کہ آپ کے ماما، پاپا کو مجھ پر ترس آ گیا ہے۔ پھر صنم نے طعنہ مارا کہ تم نے انکار اُس لڑکے کی وجہ سے کیا ہے۔ ماما، پاپا گھر بھی نہیں پہنچے تھے۔ میں نے میاں جی سے اُن کا نمبر لے کر ہاں کر دی۔ اگلے دن میاں جی نے مجھے بتایا۔ پاپا کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔
میاں جی، علی بخش اور بی بی خانم کے ساتھ میں اُن کے جنازے پر آئی۔ تب آپ کو پہلی بار میں نے دیکھا تھا۔ میں ماما کے پاس ہی بیٹھی تھی، جب پاپا کی جنازے والی چارپائی اُٹھتے ہی ماما کا دل بیٹھ گیا، اُسی وقت پاپا کا جنازہ رکھ دیا گیا تھا۔ جب آپ ماما کو ہسپتال لے جانے لگے تب میں نے ہی کہا تھا :
” ان کی روح پرواز کر گئی ہے۔“ آپ غصے میں چلانے لگے :
” بند کرو اپنی بکواس۔
“ میاں جی جلدی سے آپ کے پاس آئے انھوں نے بھی کہا :
” روح پرواز کرگئی ہے بیٹا۔“ آپ ماما کو ہسپتال لے جانے پر بضد تھے۔ ایک ڈاکٹر صاحب جنازے میں موجود تھے، اُن کی تصدیق کے بعد آپ کو یقین آیا کہ ماما کی روح نکل گئی ہے۔“ بات کرتی ہوئی عترت سے ضرار لپٹ گیا۔ اُس نے عترت کے شانے پر اپنا سر رکھ دیا۔ عترت نے پھر سے بولنا شروع کیا :
” جب اس سانحے کو چار مہینے گزر گئے تو میں نے آپ سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
میں نے میاں جی سے سن رکھا تھا کہ آپ ہر روز اُن کے پاس آتے ہیں۔ ہڑتال والے دن مجھے یقین تھا کہ آپ ضرور میاں جی کے پاس ہی ہوں گے۔ سواری نہیں ملی تو میں پیدل ہی میاں جی کے ڈیرے کی طرف چل پڑی۔ ڈیرے کے باہر میں نے آپ کی گاڑی دیکھ لی تھی۔ حجرے میں داخل ہونے سے پہلے میں نے خود اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا تھا۔“ عترت کے خاموش ہوتے ہی ضرار نے اُس کے شانے سے سر اُٹھا کر اُس کے رخسار کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا :
” میرے جیسے دیکھ کر ہی مانتے ہیں۔“

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan