Episode 11 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر11 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

شوکت خانم ہسپتال کی پارکنگ میں کھڑا ہوا ضرار کبھی اپنی کار میں بیٹھ جاتا اور کبھی بے چینی سے ادھر اُدھر چلنے لگتا۔ ہسپتال کے اندر آنے سے اُسے عترت نے منع کر دیا تھا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد عترت اُسے اپنی طرف آتی ہوئی دکھائی دی تو اُس کی جان میں جان آئی۔ عترت کے قریب آتے ہی ضرار نے یک لخت پو چھا :
” کیا کہا ڈاکٹروں نے…؟ کوئی خطرے والی بات تو نہیں ہے …؟“ عترت مسکراتے ہوئے کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔
ضرار بھی جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
” کل رپورٹس ملیں گی۔“ عترت نے بتایا۔ ضرار ضدی بچے کی طرح کہنے لگا :
”اب میں آپ کی ایک نہیں سنوں گا۔ بس میں آپ کو باہر لے کر جا رہا ہوں۔“
”اندر باہر کا ایک ہی مالک ہے ضرار صاحب ! میں نے اُسی مالک کے حضور عرضی پیش کر دی ہے !“ عترت نے بڑے سکون سے بتایا۔

(جاری ہے)


”میاں جی کے ڈیرے پر جانا چاہتی ہوں۔

“ عترت کی بات سنتے ہی ضرار نے کار اسٹارٹ کر لی۔
جب وہ دونوں میاں جی کے ڈیرے پر پہنچے تو وزیر لانگری او رملنگ پہلے سے باہر کھڑے تھے۔ وہ دونوں جلدی سے کار کے پاس آ گئے۔ ملنگ نے کار کے رُکتے ہی عترت کا دروازہ کھول دیا۔ عترت نے ونڈ اسکرین سے لانگری کو ضرار کی طرف کا دروازہ کھولنے کا اشارہ کر دیا۔ ضرار سیٹ بیلٹ کھولنے کے بعد پچھلی سیٹ پر پڑے ہوئے میاں جی کے لیے لائے ہوئے تحائف کو دیکھ رہا تھا۔
لانگری نے اُس کا دروازہ کھولا۔ ضرار نے باہر نکلتے ہوئے عترت کو بتایا :
”میاں جی کا سامان !“
”ابھی اسے گاڑی میں ہی رہنے دیں۔“ عترت نے یہ کہنے کے بعد کچھ سوچا پھر بولی :
”آپ میاں جی کے حجرے میں جائیں میں تھوری دیر میں آتی ہوں۔“ ضرار کے ڈیرے کے اندر داخل ہوتے ہی عترت نے کسی کو فون ملا دیا۔
###
ضرار میاں جی کے حجرے میں داخل ہوا تو وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔
حجرے کے درمیان میں ایک قبر بنی ہوئی تھی، جسے سبز رنگ کی بہت ساری چادروں سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ حجرے کی دیواروں اور چھت کو مسہری میں استعمال ہونے والے سامان سے سجا دیا گیا تھا۔ قبر کے سرہانے کی طرف چینی کے دو بڑے پیالوں میں خشک آٹے میں کھڑی ہوئیں بہت ساری اگر بتیاں سلگ رہی تھیں۔ قبر کی پچھلی طرف بجھے ہوئے بہت سارے دیپ پڑے ہوئے تھے۔
ضرار یہ سب دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ پلٹتے ہوئے اُس کے منہ سے نکلا :
” میاں جی !“
”جی ضرار صاحب ! “ سفید لباس میں ملبوس میاں جی اُس کے پیچھے کھڑے تھے۔ ضرار نے یکایک پوچھا :
”یہ قبر کس کی ہے … ؟“
”میرے ساتھی علی بخش کی !“
”کیا ہوا تھا علی بخش کو…؟“ ضرار نے فٹ سے پوچھا۔
میاں جی نے حجرے کے ایک کونے میں ضرار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ضرار بیٹھ گیا۔ میاں جی قبر کے سرہانے دوسرے کونے میں ضرار کے سامنے خود بھی بیٹھ گئے۔
”وہ عورت اور مرد اُس دن جھوٹ بول رہے تھے نا…؟“ ضرار نے طنزیہ لہجے میں کہا تو میاں جی مسکرانے لگے۔ اگلے ہی لمحے ضرار نے خود ہی اپنی بات کی نفی کر دی :
” اگر اُنھیں آپ سے شفا نہ ملی ہوتی تو وہ آپ کو دو لاکھ کیوں دیتے …؟“ میاں جی آنکھیں بند کر کے کہنے لگے :
”توحید کی ترسیل کا ذریعہ رسالت ہے۔
شفاء وہ اسباب کے ذریعے دیتا ہے۔ انسان اپنے گمان کے مطابق ہی حقیقت پاتا ہے اور اللہ اپنے بندے کے گمان کے قریب ہوتا ہے۔ انسان کے سارے گمان غلط ہو سکتے ہیں سوائے اللہ کے۔“ ضرار نے بات کاٹتے ہوئے بے چینی سے کہا :
”میاں جی ! یہ مشکل مشکل باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں مجھے سادہ لفظوں میں سمجھائیں۔“ میاں جی آنکھیں کھولنے کے بعد کہنے لگے :
”زندگی دے یا موت۔
عزت سے نوازے یا بدنامی کا ہار گلے میں ڈال دے۔ دولت عطا کر دے یا غربت لوٹا دے۔ سب کچھ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔“
”پھر میرے جیسے کیوں بھٹکتے رہتے ہیں، آپ جیسوں کے پیچھے پیچھے …؟ آپ جیسوں سے دعائیں کروانے کے لیے بھاگتے ہیں۔“ ضرار بات کرتے کرتے رُک گیا۔ چند ثانیے کوئی پرانی بات یاد کر کے کہنے لگا :
”میں نے آپ سے دو سوال پوچھے تھے۔
دعا اور روح کے بارے میں۔ آپ کے پاس میرے دونوں سوالوں کا جواب نہیں ہے۔“
”مزار بنانے پر ڈیڑھ کروڑ خرچہ آئے گا اور آپ نے صرف دس لاکھ بھیجے ہیں۔“ توفیق شاہ موبائل پر بات کرتے کرتے حجرے کے اندر داخل ہوا۔ ضرار نے پلٹ کر اُس کی سمت دیکھا، توفیق کی بھی ضرار پر نظر پڑ گئی۔
”چٹھہ صاحب میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں۔“ یہ بولنے کے بعد توفیق نے کال کاٹ دی۔
ضرار توفیق کو دیکھ کر بھی حیران رہ گیا تھا۔ عام سے کپڑے پہننے والے توفیق نے ایک شاندار ریشمی شیروانی پہن رکھی تھی۔ اُس کے سر پر موتیوں والی ایک پگڑی تھی، گلے میں موتیوں کی مالا۔ ہاتھوں میں بے شمار انگوٹھیاں جن میں قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے۔
” راؤ صاحب ! مرشد علی بخش کا مزار بنانا ہے۔ بڑے راؤ صاحب ہوتے تو وہ سارا خرچہ خود ہی اُٹھا لیتے۔
آپ کتنے کروڑ دے سکتے ہیں۔“ توفیق نے بغیر کسی جھجھک کے بول دیا۔
” میاں جی تو مزار بنانے کے خلاف ہیں“ ضرار نے یہ بتانے کے بعد میاں جی کی طرف دیکھا وہ وہاں نہیں تھے۔
” بجا فرمایا آپ نے۔ اسی لیے میاں جی کی خواہش کے عین مطابق اُن کی عام قبرستان میں تدفین کی گئی تھی۔ میرے مرشد علی بخش چاہتے تھے کہ اُن کا عالی شان مزار بنایا جائے۔“
”جھوٹ بول رہے ہو تم“ عترت کی کڑکتی آواز گونجی، وہ پولیس والوں کے ساتھ حجرے میں داخل ہوئی تھی۔
پولیس والوں نے اندر داخل ہوتے ہی توفیق شاہ کو ہتھکڑی لگا لی۔
”تھانیدار یہ گستاخی کس لیے…؟“ توفیق شاہ نے گرجتے ہوئے پوچھا۔
”اوئے جھوٹے پیر ! قاتل ہے تو علی بخش کا۔ اب اونچا بولا نا تو…تیری زبان حلق سے کھینچ لینی ہے میں نے… لے جاؤ اسے۔“ تھانیدار نے بھی اونچے سروں میں ہی جواب دیا۔ سپاہی توفیق شاہ کو وہاں سے لے گئے۔
” بی بی جی اور حکم ! “ تھانیدار نے عترت سے دھیمے لہجے میں پوچھا۔

”میاں جی کے سب سے قریبی ساتھی کا قاتل ہے یہ۔ میاں جی سے آپ کو ذرا بھی محبت ہے تو اسے چھوڑیے گا مت۔“ عترت نے ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
” بی بی جی ! میاں جی کے بڑے احسان ہیں مجھ پر اگر وہ نہ ہوتے تو آج میں SHO نہ ہوتا۔ آپ بے فکر ہو جائیں۔“ یہ بول کر تھانیدار وہاں سے چلا گیا۔ حجرے میں اب ضرار اور عترت ہی تھے۔ ضرار اُس کونے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
جہاں میاں جی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ چلتا ہوا وہاں گیا پھر زمین پر اُسی جگہ کو ہاتھ لگانے لگا جہاں پر میاں جی جلوہ افروز تھے۔
” آپ ٹھیک تو ہیں نا … ؟“ عترت نے فکر مندی سے پوچھا۔ ضرار کپکپاتی ہوئی آواز میں اتنا ہی بول پایا :
 ”وہ میاں جی ! “
”میں نے آپ کو خود نہیں بتایا تھا۔ جس دن ہم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لیے نکلے تھے اُسی دن فجر کی نماز کے بعد میاں جی مسجد میں ہی انتقال فرما گئے تھے۔
“ ضرار کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس سے پہلے کہ وہ رو دیتا عترت نے اُسے سنبھال لیا۔
###
اگلے دن رات کے وقت ڈاکٹر زیبا عزیز اپنے شوہر عزیز آفندی کے ساتھ عشرت سے ملنے کے لیے ضرار کے بنگلے پر آئے۔ ڈاکٹر زیبا نے ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی ضرار سے کہا :
”بیٹا ! مٹھائی ہم لے کر آئے ہیں۔ چائے بنوا لو پھر ہم سب منہ میٹھا کریں گے۔

”خوشی کی بات ہے کوئی… ؟“ ضرار نے تجسس سے پوچھا۔ اُسی وقت عترت بھی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔
”Your Wife is Recovering Very Fast “
عزیز آفندی نے بتایا۔ یہ سنتے ہی ضرار کا چہرہ روشن ہو گیا۔ اُس نے عترت کی طرف فرطِ محبت سے دیکھا۔ عترت سیدھی ڈاکٹر زیبا کے پاس گئی انھوں نے اُسے گلے لگا کر اُس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا :
”یہ سب تمھاری Will Powerکی وجہ سے Possible ہو رہا ہے۔
“ ڈاکٹر زیبا کی بات سن کر عترت نے اُنھیں بڑے ادب کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ڈاکٹر زیبا کے بیٹھنے کے بعد عترت بھی چمکتے چہرے کے ساتھ اُن کے پاس والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگی :
”میری Will Power سے زیادہ کسی کی دعاؤں کا اثر ہے۔“
”کس کی … ؟“ ڈاکٹر عزیز نے اشتیاق سے پوچھا۔
” آپ جانتے ہیں سر !“ عترت نے بتایا۔
” میاں جی کی وفات کا سن کر بہت دُکھ ہوا۔
“ ڈاکٹر زیبا نے افسردگی سے کہا۔
”میاں جی نے زندگی میں مجھے کبھی نہیں ڈانٹا سوائے اُس دن کے جس دن انھوں نے پہلی بار مجھے آپ کے پاس بھیجا تھا۔ میں آپ کے پاس آنا نہیں چاہتی تھی۔“
”ضرار بیٹا ! تمھیں سن کر عجیب لگے گا۔ ہمارے پہلے تین بچے پیدا ہوتے ہی فوت ہو گئے تھے۔ میری والدہ نے مجھے مجبور کیا کہ ہم دونوں ایک بار میاں جی کے پاس ضرور جائیں۔
میں نے بڑی مشکل سے ڈاکٹر صاحب کو میاں جی کے پاس جانے کے لیے تیار کیا تھا۔“ ڈاکٹر زیبا کی بات ختم ہوتے ہی ڈاکٹر عزیز نے اپنا نقطہٴ نظر پیش کیا :
” تب میرا Spirituality پر Believe نہیں تھا۔ میاں جی سے ملنے کے بعد میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گیا۔“ شاکرہ چائے والی ٹرولی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں وارد ہوئی۔ عترت اپنی جگہ سے اُٹھی اور شاکرہ کو اپنی گردن کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا۔ عترت نے خود سب کو مٹھائی پیش کرنے کے ساتھ ساتھ چائے بھی بنا کر دی۔

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan