Episode 12 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر12 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

ضرار بیڈ روم میں خوشی سے سرشار تھا۔ جیسے ہی عترت بیڈ روم میں داخل ہوئی وہ اُس کی طرف لپکا اور اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ کافی دیر وہ دونوں خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے سے لپٹے رہے۔ ضرار نے عترت سے الگ ہوتے ہوئے اُسے کندھوں سے تھام کر پوچھا :
” اب تو میں چھچھورا نہیں ہوں نا… میں اب کسی کے سامنے آپ کو نظر بھر کے دیکھتا بھی نہیں ہوں، جب ڈاکٹر صاحب نے آپ کی صحت کے متعلق بتایا۔
اُس وقت میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں آپ کو اپنی بانہوں میں بھر کر خوشی سے جھوموں۔“ عترت نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پھر کہنے لگی :
”اب آپ بہت اچھے بچے بن گئے ہیں۔“ عترت نے اپنا ہاتھ ضرار کے کندھے پر رکھا پھر بولی :
”صوفے پر بیٹھ کربات کریں۔“ ضرار نے بھی کسی اچھے بچے کی طرح مسکرا کر رضا مندی ظاہر کر دی۔

(جاری ہے)

وہ دونوں صوفے پر ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔


” کل سے آپ سوچ زیادہ رہے ہیں اور بول کم… میاں جی کے حجرے میں آپ نے کیا دیکھا تھا۔“ عترت کی باتیں سنتے ہی ضرار کے چہرے پر کچھ اندیشے کچھ خدشے نظر آنے لگے۔ عترت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ضرار بتانا نہیں چاہتا اس لیے اُس نے بات کا رُخ ہی بدل دیا :
”ولیمے کی دعوت کے کارڈ چھپوانے ہیں کیا … ؟“
”آپ سے زیادہ ذہین عورت میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔
“ ضرار نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ بتایا تھا۔ عترت نے ضرار کی سنجیدہ بات مذاق میں بدل دی :
” دلہن بننے سے پہلے ہی عورت ہو گئی میں … ؟“
”میں نے میاں جی کے حجرے میں میاں جی کو دیکھا۔ وہ کتنی دیر مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ پچھلے چھتیس گھنٹوں میں مجھے میرے دونوں سوالوں کے جواب مل گئے۔“
” کون سے سوال …؟“ عترت نے پوچھا۔
” ماما، پاپا کی اچانک موت سے مجھے شدید صدمہ پہنچا تھا۔
میں اکثر روح کے بارے میں سوچتا رہتا۔ ایک دن ریشم نے مجھ سے پوچھا : کیا سوچ رہے ہو …؟ میں نے کہا یہ روح کیا ہوتی ہے۔ اُس نے مجھے Hollywood کی ایک فلم دیکھنے کامشورہ دیا۔ وہ فلم دیکھ کر بھی میرے کچھ پلے نہیں پڑا۔ میں نے میاں جی کے ڈیرے پر جانا شروع کر دیا۔ وہاں جو بھی اُن سے ملنے آتا وہ یہی کہتا میاں جی دعا کر دیں۔“ عترت کی سنجیدگی دیکھ کر ضرار نے فٹ سے بتایا :
” ریشم ماڈلنگ کرتی ہے پر اب میرا اُس سے کوئی چکر نہیں۔
“ ضرار کی بات سن کر عترت مسکرا دی۔
”آپ مسکرائی کیوں … ؟“
”میں تب سے سوچ رہی تھی… مجھے شفا کیسے ملی… ؟ یہ تو میاں جی کی دعا ہے !“
”میاں جی کی دعا … ؟“ ضرار حیران ہوا۔
” ہاں … میاں جی نے میرے لیے دعا فرمائی تھی، یا اللہ ! کملی والے کے صدقے اس بچی کو لمبی بابرکت عمر عطا کر دے۔“ عترت نے کھلی آنکھوں سے تصور میں میاں جی کو دعا کرتے ہوئے دیکھا۔
عترت اور ضرار دونوں خاموش تھے۔ چند منٹ بعد عترت بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی :
”شدید نفرت کے باوجود میں نے ہمیشہ شاہ زمان کی بخشش اور صنم کی ہدایت کے لیے ہی دعا مانگی۔ کبھی اماں اور میاں جی کا خیال ہی نہیں آیا۔“
”وہ کیوں … ؟“ ضرار نے پوچھا۔
”ضرار صاحب ! انسان اتنے ذہین اور نیک ہوتے نہیں ہیں جتنے دنیا والے سمجھتے ہیں۔“
”میں سمجھا نہیں! “ ضرار نے بتایا۔

”یہ اللہ کا کرم ہی ہوتا ہے، جو اُس کا دل سے ذکر کرتا ہے اللہ اُس کا چرچا کرنے لگتا ہے۔ آج جب میں میاں جی کی قبر پر گئی تو مجھے پیری اور فقیری کی سمجھ آ گئی۔“
”پیری اور فقیری …؟“ ضرار تھوڑا اُلجھ گیا۔
”میرے دادا شاہ چانن فقیر تھے اور شاہ زمان پیر بننا چاہتا تھا۔ اِسی لیے شاہ چانن نے شاہ زمان کی جگہ محمد ثقلین کو اپنا خلیفہ بنایا۔
فقیر عام قبرستان میں دفن ہوتا ہے اور پیر کا مزار بن جاتا ہے۔ شاہ چانن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میاں جی بھی عام قبرستان میں ہی دفن ہوئے۔“
”توفیق شاہ بھی پیر بننا چاہتا تھا کیا … ؟“ ضرار نے رُک رُک کر پوچھا۔
”ہاں …! اُس نے سوتے ہوئے بیمار علی بخش کے منہ پر تکیہ رکھ کر کے اُس کا قتل کیا تھا۔“ عترت کے بتاتے ہی ضرار نے فٹ سے پوچھا :
”آپ کو کس نے بتایا … ؟“ عترت ارد گرد دیکھنے لگی۔
ضرار نے فوراً پوچھا :
”کیا دیکھ رہی ہیں … ؟“
”اپنا موبائل …!“ عترت نے بتایا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور بیڈ کی سائیڈ ٹیبل والی دراز سے اپنا موبائل نکال لائی۔ ایک ویڈیو کلپ Playکر کے اُس نے موبائل ضرار کو پکڑا دیا۔
”توفیق شاہ دبے پاؤں علی بخش کے حجرے میں داخل ہو رہا تھا۔ جاتے ہی اُس نے چٹائی پر پڑے ہوئے گاؤ تکیے کو اُٹھایا اور سوئے ہوئے علی بخش کے منہ پر رکھ کے اُسے زور سے دبا دیا۔
علی بخش تڑپنے لگا اور اُس کی موت ہو گئی۔ “ ویڈیو کلپ ختم ہوتے ہی ضرار نے پوچھا :
”یہ ویڈیو کس نے بنائی … ؟“
”ملنگ نے…“ عترت نے بتایا۔
”ملنگ نے… ؟“ ضرار ششدر رہ گیا۔
”جنھیں ہم ملنگ سمجھتے ہیں … وہ بڑے پر اسرار ہوتے ہیں۔“ عترت نے رائے دینے کے بعد تھوڑا توقف کیا پھر بولی :
” لانگری اور ملنگ شاہ چانن کے عقیدت مند تھے۔
انھیں بھی میری طرح لگتا تھا کہ میاں جی نے مال بنانے کے لیے خلافت ہتھیائی ہے۔ میاں جی نے مال بنانے کی بجائے اپنی جمع پونجی بھی میرے نام کر دی۔ “
”کون سی جمع پونجی…“ ضرار نے سوال کیا۔
”میاں جی ریلوے میں ملازم تھے۔ ریٹائرمنٹ پر جو رقم ملی اُس سے سڑک کنارے آٹھ کنال زمین خریدی۔ جاتے جاتے اُس زمین کی رجسٹری بھی میرے نام کر گئے ہیں۔
“ عترت افسردہ تھی اور ضرار کچھ سوچ رہا تھا۔
”ملنگ کے پاس موبائل کہاں سے آیا …؟“ ضرار یک دم بول اُٹھا۔ عترت مسکرانے لگی پھر اُس دن کو یاد کرتے ہوئے بتانے لگی :
”ایک دن میں میاں جی سے ملنے گئی۔ ایک عقیدت مند نے اُن کو ایک قیمتی موبائل کا تحفہ دیا انھوں نے رکھ لیا۔ جب وہ باہر تک مجھے چھوڑنے آئے تو انھوں نے وہ موبائل ملنگ کو دیتے ہوئے کہا :
”ملنگ جی یہ رکھ لو ڈیوٹی کرنے میں کام آئے گا۔
“ میاں جی جانتے تھے کہ ملنگ اور لانگری اُن کی ساری رپورٹ مجھے دیتے ہیں۔“
”میں نے ان چھ مہینوں میں اپنی پوری زندگی سے زیادہ چیزیں سیکھی ہیں۔“ ضرار نے سنجیدگی سے کہا۔
” آپ کے ماما، پاپا کو گزرے ہوئے بھی چھ مہینے ہوئے ہیں۔ ماں چھتری اور باپ اُولاد کی ڈھال ہوتا ہے۔“ عترت نے مسحور کن انداز میں بتایا۔ ضرار تحسین آمیز نظروں سے عترت کو دیکھنے کے بعد اُس کے گلے لگ گیا۔
”اب آپ ہی سب کچھ ہو میرے لیے۔“ ضرار نے آنکھیں بند کرتے ہوئے عترت کے کندھے پر سر رکھ کے کہا۔
”میں آپ کی چھتری ہوں اور آپ میری ڈھال۔“ عترت نے مسکراتے ہوئے کہا۔

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan