Episode 16 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر16 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

”آپ مسکرا کیوں رہی ہیں …؟“ عزت نے حیرت سے پوچھا۔
”سوچ رہی ہوں شراب پی کے زبان پر اُس کا نام لانا چاہیے یا نہیں۔“ اگلے ہی لمحے تہذیب نے انکھیں کھولتے ہوئے کہا :
”کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ جسم ناپاک بھی ہو پھر بھی دل اور زبان پاک ہی رہتے ہیں … اس لیے لے لیتی ہوں اُس کا نام … میرے مولا ! نے عورت میں برداشت کی طاقت مرد سے زیادہ رکھی ہے۔
وہ محبت میں شراکت بھی برداشت کر لیتی ہے جبکہ مرد نہیں …“
”آپ کے مولا نے ساری آسانی تو مرد کو دے دی… ہمارے حصے میں آئی تو صرف برداشت !“ عزت نے شکایتی انداز میں کہا۔ تہذیب نے چند لمحے سوچا پھر سگریٹ لگا لیا۔ سگریٹ کے چند کش لگانے کے بعد وہ بولی :
”اعلیٰ کام کے لیے … اہل لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے … میرے مولا ! نے عورت کو تربیت کا موقع فراہم کیا اور مرد پر کفالت کی ذمہ داری ڈال دی۔

(جاری ہے)

میرے نزدیک تربیت اعلیٰ کام ہے کفالت کی نسبت… مگر آج کی عورت تربیت کو چھوڑ کر کفالت کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ کفالت سے صرف گھربنتا ہے۔ تربیت اُسے سنوارتی، سجاتی اور قائم بھی رکھتی ہے۔ مجھ جیسی سمجھانے لگے تو تمھارے جیسی کہتی ہیں آپ پرانے عہد کی ہیں۔ آپ نے عورت کی آزادی کے لیے آخر کِیا ہی کیا ہے… ؟ گھر کی چار دیواری اُنھیں پنجرہ لگتی ہے۔
کوئی بتائے اُنھیں یہ پنجرہ نہیں پناہ گاہ ہے۔“
”پناہ گاہوں میں کمزور رہتے ہیں۔“ عزت نے خفگی سے بتایا۔ تہذیب نے اپنی انگلیوں میں آدھے سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلنے کے بعد کہا :
”پناہ گاہ امن کی جگہ کو بھی کہتے ہیں … عورت کو امن کی جگہ پر ٹھہرا کے۔ مرد سارا دن باہر کفالت کی جنگ لڑتا ہے۔ “
”ہم بھی یہ جنگ لڑ سکتی ہیں… ہم نے تعلیم گھر بیٹھنے کے لیے تھوڑی حاصل کی ہے۔
“ عزت جذباتی ہوتے ہوئے بولی۔ تہذیب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پھر کہنے لگی :
”نادان لڑکی جیون ساتھی سے مقابلہ کون کرتا ہے…؟ مرد چار قدم اُٹھائے تو عورت کو پانچ اُٹھانے پڑتے ہیں۔ وہ چار کے مقابلے میں چار اُٹھانے کی کوشش میں اپنا حسن کھو بیٹھے گی…“
” اپنا حسن کھو بیٹھے گی مطلب … ؟“ عزت نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”احساس، محبت، شائستگی، حیا، ممتا، نزاکت، یہی تو ”زن“ کا حسن ہے۔
مرد و زن تو سائیکل کے دو پہیوں جیسے ہیں۔ آگے پیچھے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اب پچھلا پہیہ آگے والے سے ہی مقابلہ شروع کر دے تو سائیکل تو ٹوٹ گئی نا… “
”ہم ہی پیچھے کیوں …؟ آگے کیوں نہیں …؟“ عزت نے بڑے اعتماد سے کہا۔
”محافظ ہی آگے چلتے ہیں، محبوب نہیں… عورت محبوب اور مرد اُس کا محافظ ہے۔“ تہذیب نے بڑے مزے سے بتایا۔ عزت نے کڑوے کسیلے لہجے میں پوچھا :
”اُردو کا کون سا ناول پڑھ رہی ہیں آج کل…؟“ عزت کے کڑوے کسیلے لہجے کے باوجود تہذیب میٹھے لہجے میں کندھے اُچکاتے ہوئے بولی :
”اس نا چیز کے جملے ہیں۔
تھیٹر میں میرے لکھے ہوئے پر تالیاں بجتی ہیں“
”یہاں زندگی بھر عورتوں کو گالیاں پڑتی ہیں … میں چاہتی ہوں عورتیں برابری کے ساتھ زندگی کا سفر طے کریں۔“ عزت نے جوش سے کہا۔
”قدم برابر ہوں تو سفر رُک جاتا ہے۔“ تہذیب کے کہتے ہی عزت نے پوچھ لیا :
”آسان لفظوں میں بتائیں…“
”سائیکل والی مثال تمھیں پسند نہیں آئی تھی … ایسے سمجھ لو مرد اور عورت ایک جسم کے دو پیر ہیں … سفر شروع کرنے کے لیے ایک قدم تو پہلے اُٹھانا ہی پڑے گا۔
وہ پہلا قدم مرد کا ہے دوسرا قدم پیچھے نہیں ہے بلکہ اُس کا ہم قدم ہے۔ دوسرے قدم کے چلے بغیر جسم حرکت نہیں کر سکتا۔ دونوں قدم ایک ساتھ اُٹھنے سے انسان گر جاتا ہے۔“
”کینگرو تو نہیں گرتا۔“ عزت نے فٹ سے بتایا۔ تہذیب نے عزت کی طرف حیرت سے دیکھا، پھر ہونٹوں پر تبسم سجا کے کہنے لگی :
”مولا! نے کینگرو کا جسم ڈیزائن ہی ایسے کیا ہے۔ وہ چل نہیں سکتا صرف چھلانگ ہی لگا سکتا ہے۔
اُسی نے مرد کو سخت اور عورت کو نازک بنایا ہے۔ میرے مولا ! نے مرد کا جسم آؤٹ ڈور کے لیے ڈیزائن کیا ہے اور عورت کا ان ڈور کے لیے … مرد کا جسم باہر سے جتنا سخت ہے اندر سے اُتنا ہی نازک بھی ہے۔ عورت باہر سے جتنی نازک نظر آتی ہے اندر سے اُتنی ہی مضبوط ہے۔ تبھی تو یہ سخت نظر آنے والا گھر آتے ہی اس نازک کے کندھوں کا سہارا لیتا ہے۔ تم نے کبھی فخر کو اپنا کندھا پیش کیا … ؟ تہذیب کے سوال پر عزت سوچ میں پڑ گئی۔

”عورت بکھر جائے تو مرد اُسے سمیٹ نہیں سکتا… بکھرے مرد کو عورت سمیٹ لیتی ہے… “ یہ کہنے کے بعد تہذیب اپنا پیگ بنانے لگی۔ عزت نے دیکھا تو فٹ سے پوچھ لیا :
”آپ شراب کیوں پیتی ہیں …؟“
”میں شراب کو حلال ثابت کرنے کے لیے دلیلیں نہیں دیتی۔ یہ بھی نہیں کہوں گی۔ کسی کا حق کھانے سے شراب پینا بہتر ہے۔ شراب پینے کے بعد میں اپنے مولا ! کے سامنے شرمندہ شرمندہ سی رہتی ہوں۔
“ تہذیب نے عزت کی طرف دیکھے بغیر یہ ساری باتیں کہی تھیں۔
”خالی پیلی شرمندگی سے کام چل جائے گا کیا … ؟“ عزت نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
”جو شرمندہ ہو اُسے ہی معافی ملتی ہے۔“ تہذیب نے یقین کامل سے بتایا۔
”آپ کے مولا نے شراب کو بھی تو حرام قرار دے رکھا ہے۔“ عزت نے ہلکے سے طنز کے ساتھ کہا۔
”حرام کو حرام سمجھ کر پینا صرف گناہ ہے… حلال پر اعتراض کرنا گناہِ عظیم … “ تہذیب نے اپنی رائے دینے کے بعد پھر سے شراب کا ایک گھونٹ پیا تھا۔

”میں سمجھی نہیں …؟“ عزت نے اطلاع دی۔
”ہمیں جب کوئی سمجھاتا ہے، تو ہم بات سمجھنے کی بجائے، سمجھانے والے کی ذات میں برائیاں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ تم بھی وہی کر رہی ہو … میں نے آج تک مولا ! کے کسی حکم پر سوال نہیں اُٹھایا… حلال حرام پر اعتراض نہیں کیا… مولا ! کی جو بات سمجھ نہیں آئی اُس پر غور و فکر کیا اور اُسے سمجھنے کی کوشش کی … “
”میں نے کون سا اعتراض کیا …؟“ عزت نے فوراً پوچھا۔

”ابھی چند دن پہلے ہی تم نے کہا تھا… مرد کو چار شادیوں کی اجازت، اللہ کو نہیں دینی چاہیے تھی۔ بچے بھی مردوں کو ہی پیدا کرنے چاہئیں… یہ کفریہ جملے ہیں عزت فخر ! “
”آپ نے تو ماما تبلیغ ہی شروع کر دی ہے۔“ عزت بے زار ہوتے ہوئے بولی۔
”اگر میرے ملک کی مائیں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتیں تو بے چارے تبلیغ والوں کو اتنی محنت تو نہ کرنی پڑتی۔

”میں جا رہی ہوں۔“ عزت اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولی۔ تہذیب نے اُس کا ہاتھ تھامنے کے بعد چوم لیا، پھر محبت سے کہنے لگی :
”بیٹھ جاؤ“ عزت بیٹھ گئی۔
”میں نے تمھیں باہر سے اعلیٰ تعلیم تو دلوائی مگر تمھاری تربیت نہیں کر سکی… فخر کی ماں نے اُس کی بڑی اچھی تربیت کی ہے “
”اُس اَن پڑھ نے …“ عزت نے احتجاجی لہجے میں پوچھا۔
”ہاں … اُس اَن پڑھ کا بیٹا میری بیٹی کے سارے حقوق پورے کرتا ہے اور اس پڑھی لکھی ماں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی اُسے ذلیل کرتی ہے “
”ما ما ! آپ گھما پھرا کر پھر اُسی طرف آگئی ہیں“ عزت نے اُکتائے ہوئے انداز میں کہا۔

”آج ختم کرتے ہیں اس بحث کو ! تم بتاؤ تمھیں فخر سے پرابلم کیا ہے۔“ تہذیب نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔ عزت سوچنے لگی۔ عزت نے کچھ نا بتایا تو تہذیب کہنے لگی :
”تم نے کہا میں نے خواتین کے حقوق کے لیے NGO بنانی ہے۔ فخر نے تمھارا ساتھ دیا۔ تم نے کہا میں لاہور چھوڑ کر قصور تمھارے ساتھ نہیں جا سکتی اُس نے تمھاری یہ بات بھی مان لی۔ ویک اینڈ پر وہ یہاں آتا ہے اور تم چھٹی لڑتے جھگڑتے گزار دیتی ہو۔
تمھیں پتہ ہے ایک DPO پر کتنا پریشر ہوتا ہے۔ جوڈیشری، میڈیا، سیاست دان سب کے سب اُسے رگڑا لگانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ بچے بڑوں کے کھلونے ہوتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلنے سے بڑوں کو سکون ملتا ہے۔ بتاؤ مجھے، فخر اور اُس کے والدین کس کے ساتھ کھیلیں …؟“
”میں بانجھ ہوں، اس میں میرا کیا قصور ہے …؟“ عزت نے نم لہجے میں پوچھا۔
”تم اُس کی دوسری شادی کروا دو!“ تہذیب کے مشورے پر عزت بھڑکتے ہوئے بولی :
”دوسری شادی کرنے کے لیے اُسے مجھے طلاق دینی پڑے گی۔

”وہ تو تم خود بھی لینا چاہتی ہو۔“ تہذیب نے دھیمے لہجے میں بتایا۔ عزت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ تہذیب کو کیا جواب دے پھر وہ یک دم بولی :
”بہت اکیلی ہوں میں …؟“
”فخر تمھارا ساتھی بھی ہے اور تمھارے ساتھ بھی…“
”پاپا نے آپ کا اور میرا کیا ساتھ دیا …؟“ عزت نے تلخی سے پوچھا۔
”یہ سب کچھ اُنھی کا دیا ہوا تو ہے … ! “
”ماما میں دولت کی نہیں … وقت کی بات کر رہی ہوں ! “ عزت نے روکھے لہجے میں کہا۔

”میں ایک سال کی اور بھائی تین سال کا تھا۔ جب ہمارے ابا کا انتقال ہوا … اماں کالج سے لوٹنے کے بعد پھر ایک اکیڈمی میں پڑھانے چلی جاتیں۔ میں نے تو کبھی نہیں کہا، میری ماں نے مجھے وقت نہیں دیا۔ وہ مجھے اور بھائی کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے ہی تو سب کچھ کر رہی تھیں۔ بھائی باہر چلا گیا۔ میں تھیٹر کرنا چاہتی تھی۔ میں نے NCA میں داخلہ لے لیا۔
اماں نے کبھی اپنے فیصلے ہم پر مسلط نہیں کیے۔ “
”بات وقت کی ہو رہی تھی… “
”جو سب تمھیں دیتے ہیں … صرف تمھارے ہی پاس نہیں۔“ تہذیب کے بتانے پر عزت نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
”میرے پاس وقت نہیں… ؟ بچپن میں مہینوں پاپا نظر نہیں آتے تھے۔ تھوڑا سا ہوش سنبھالا تو آپ نے پڑھنے کے لیے باہر بھیج دیا … پھر بھی میرے پاس وقت نہیں ہے … ؟“ عزت کے لہجے کے ساتھ ساتھ اُس کی آنکھوں میں بھی نمی اُمڈ آئی تھی۔
تہذیب نے اُس کے گال پر محبت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا :
”میری جان ! میں تو مانتی ہوں۔ چھوٹی سی عمر میں تمھیں باہر نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔ ہماری غلطیوں کی سزا فخر کو تو نہ دو۔“
”سزا … ؟“ عزت نے تہذیب کا ہاتھ اپنے گال سے ہٹاتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا۔
”ہاں سزا ! “ تہذیب سنجیدگی سے بولی۔
”کیا سزا دے رہی ہوں میں اُسے … ؟“ عزت نے اضطراب سے پوچھا۔

”مزاری صاحب بہت اچھے انسان ہیں۔ شادی سے پہلے ہی انھوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی لاہور آتے ہیں۔ تمھارے ذہن میں نا جانے کیسے یہ بات بیٹھ گئی کہ تمھارے پاپا ہمارے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ وہ تمھیں اپنے دوسرے بچوں سے بڑھ کر چاہتے ہیں۔ مجھے تو اُن سے کوئی شکایت نہیں… “
”اکتیس سال ہو گئے آپ کی شادی کو … حساب لگائیں ایک سال بھی انھوں نے آپ کے ساتھ نہیں گزارا ہو گا۔“ عزت نے طعنہ دینے کے انداز میں کہا۔ عزت کی بات پر تہذیب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ تہذیب نے اُسی مسکراہٹ کے ساتھ میٹھے لہجے میں پوچھا :
”تم نے پانچ سالوں میں فخر کو کتنا وقت دیا ہے … ؟“ عزت نے آنکھیں گھماتے ہوئے تہذیب کی بات پر غور کیا۔

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan