America Afghanistan say rahay faraar ki talaash mein

America Afghanistan Say Rahay Faraar Ki Talaash Mein

امریکہ افغانستان سے راہ فرار کی تلاش میں

امریکہ افغانستان سے راہ فرار کی تلاش میں چین کی اقتصادی ترقی نے امریکہ کو نئے دوراہے پر لاکھڑا کردیا!

 سید طاہر عباس
معیشت اور مالیات کے شعبے میں امریکہ کا سب سے بڑا زوال یہ ہے کہ وہ قرض دینے والے ملک کے بجائے”مقروض “ملک میں تبدیل ہو چکا ہے ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے دفاعی و سماجی شعبے کے منصوبوں سے متعلق اخراجات بڑھ رہے ہیں۔دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ اور چین کی اقتصادی ترقی نے امریکہ کو ایک نئے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے ۔
عالمی افق پر قبضے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ نے جو جنگ شروع کی آج وہ اس میں ناکامی کا شکار ہو کر راہ فرار کی تلاش میں ہے۔2001ء میں امریکہ اور اس کے اتحادی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں تبدیل ہو جائے گی۔
عراق اور افغانستان کی جنگیں امریکی تاریخ کی مہنگی ترین جنگیں قرار پائی ہیں،ان دوجنگوں میں ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 4سے 6کھرب ڈالر کے قریب لگا یا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

افغانستان اورعراق کی جنگوں میں برطانیہ کی مداخلت پر اس ملک کا 30ارب پاؤنڈکا خرچہ آیا جو ہر برطانوی گھرانے کیلئے ایک ہزار پاؤنڈ کے برابر ہے ،اسی طرح امریکہ کے دوسرے اتحادی ممالک میں شائع ہونے والی مالی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی جانب سے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھنے سے گریز کرنے کی بڑی وجہ اس جنگ میں ہونے والے عظیم اخراجات ہیں جن کے وہ اب مزیدمتحمل نہیں ہو سکتے۔
اس بات میں کسی شک وشعبے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ امریکہ اور نیٹو اس ملک میں بری طرح شکست سے دوچار ہو چکے ہیں اور وہ اگلے کئی برس تک اس شکست کے اثرات کا شکار رہیں گے۔
افغانستان میں امریکہ اور نیٹوکی شروع کردہ جنگ میں شکست کی بری وجہ اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے بڑھتے ہوئے مالی اخراجات اور جانی نقصانات ہیں۔امریکہ سوویت یونین سے کہیں زیادہ بڑی طاقت ہے اور امریکہ کی عالمگیر بالادستی کا رعب اس وقت اربوں لوگوں پر طاری ہے ،چنانچہ امریکہ کے زوال کے ذکر پرکوئی چونکتا ہے ،کوئی طنز سے مسکراتا ہے اور کوئی ناراض ہو جاتا ہے ۔
1974ء میں جب سوویت یونین سے کئی گنا امیر اور پیداواری صلاحیت کا حامل امریکہ دفاع پر سالانہ85ارب ڈالر خرچ کررہا تھاتو سوویت یونین دفاع پر 109ارب ڈالر خرچ کررہا تھا،اس عرصے میں ایک ارب آبادی کا حامل چین دفاع پر صرف 29ارب ،برطانیہ9.7ارب ،فرانس9.9ارب اور جرمنی 13.7ارب ڈالر صرف کررہا تھا۔
افغانستان پر قبضے کے بعد سوویت یونین کی معیشت بری طرح تباہ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں سوویت یونین کئی حصوں میں تقسیم ہوئی ،آج امریکہ بھی کچھ اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہے ،اس کی معیشت شدید بحران کا شکار ہے اور وہ شرمندگی سے بچنے کے لئے افغانستان سے نکلنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔

امریکہ نہ جیتی جانے والی افغان جنگ پر ماہانہ تقریباً ایک ارب ڈالر جھونک رہا ہے ۔کئی عشروں سے امریکہ دنیا کی سب بڑی معاشی طاقت کے طور پر سر فہرست رہا ہے ،مگر پچھلے چند برس سے اس کی معیشت سست روی کا شکار ہے ،لاکھوں شہری بے روزگار ہیں اور اس کے بجٹ خسارے اور سیاسی پارٹیوں میں اختلافات میں اضافہ ہوا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں چین اپنی معاشی طاقت کی وجہ سے دنیا میں اہم کردار ادا کرے گا اور وہ ممکنہ طور پر امریکہ کا حریف بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
چین کی ترقی متاثر کن ہے ،اس نے اپنی بلند شرح پیداوار کے ذریعے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالا ہے ۔چین نے عسکری محاذ پر اُلجھنے کے بجائے امریکہ کے اقتصادی غبارے سے ہوا نکالنے کی ٹھانی ہوئی ہے ۔چین نے نیا ایشیائی بینک بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے جو مثبت قدم اٹھایا ہے اس سے ترقی پذیر ممالک وقت کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکنجے سے نکل آئیں گے،اگر یہ معاشی نظام چل پڑتا ہے تو واقعی یہ صدی ایشیاء کی صدی بن جائے گی۔

نئے بینک کے قیام پر امریکہ نے اپنے محتاط ردعمل کا اظہار کیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے لب ولہجے میں دن بدن کر ختگی ظاہر ہوتی جارہی ہے ۔کیا جنگ عظیم دوئم کے بعد کے سب سے بڑے معاشی بحران کے بعد امریکہ ٹرمپ کی نئی پالیسیوں سے اپنی تاریخ کے دوسرے بڑے معاشی بحران سے نکل پائے گا؟کیا امریکی صدر نے جن نئی معاشی پالیسیوں کا وعدہ کیا ہے اس سے تمام امریکی مستفید ہو سکیں گے؟کیا ٹرمپ نے معیشت کے جن منصوبوں کی نشاندہی کی ہے ان کی تکمیل سے امریکی معیشت دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں کا مقابلہ کر سکے گی؟یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہاں امریکہ نے دہشت گردی کیخلاف جو نام نہاد جنگ شروع کی ہوئی ہے اس پر ازسر نوغور کرنے کی ضرور ت ہے۔

Browse More Business Articles