Arbon Rupay Ki Curroption Se Mehkama Zarat Tabahi K Dahanay Par

Arbon Rupay Ki Curroption Se Mehkama Zarat Tabahi K Dahanay Par

اربوں روپے کی کرپشن سے محکمہ زراعت تباہی کے دہانے پر!

فرضی اعدادوشمار کے ذریعے قوم کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری، کیاوافر مقدار میں حاصل ہونے والی گندم لوگوں کو کم نرخوں پر مل پائے گی؟

غازی احمد حسن کھوکھر:
اس سال گندم کی پیداوار گزشتہ کئی برس سے بہتر ہوئی ہے قبل ازیں بھی 2001ء میں بمپرکراپ ہوئی تھی اور اس کی وجوہات یہ تھی کہ بائیو ٹیکنالوجی ،لیکوڈ فرٹیلائزر اور کئی طرح کی کیمیائی ادویات متعارف کرائی گئی تھیں۔2017 میں اب گندم کی اچھی پیداوار کا کریڈٹ اگر محکمہ زراعت لینے کی کوشش کرتا ہے تو اسے خوف خدا تعالیٰ ہونا چاہیے کیونکہ رواں برس موسمی حالات انتہائی ساز گار رہے ہیں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل کو نقصان نہیں ہوا۔
محکمہ زراعت کے سیاستدانوں اور سیکرٹری کے دعووں میں کوئی سچائی نہیں،یہاں قابل غور امر یہ ہیں کہ کیا وافر مقدار میں حاصل ہونے والی گندم لوگوں کو کم نرخوں پر مل پائے گی؟کیا حکومتی پالیسیوں سے کسان خوشحال ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

؟حکومت پنجاب نے کسان کو باردانہ کیلئے 10 بوری فرایکڑ دینے کا اعلان کیا تھا،اس کا مقصد ہے 20یا 25 من گندم فی ایکڑ تسلیم کی گئی ہے تو یہ کونسی مثالی پیداوار ہے اگر فی ایکڑ زیادہ پیداوار ہوئی ہے تو کسان سے 20 یا 25 من فی ایکڑ کے حساب سے خریدی جائے گی،باقی وہ کیا کرے گا؟یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے 10بوری مہیا کرنے کا اعلان کیا جاتا رہا،بعد ازاں 7 بوری کا طبل بجایا گیا جس کیلئے کسان تین تین دن تک قطاریں بنا کر سخت ترین گرمی میں ذلیل وخوار ہوتے رہے،اسی طرح فی کسان 200 بوری کا اعلان کرکے پھر 100 بوری کی نوید سنائی گئی یہی وہ حالات ہیں کہ کسان پرائیوٹ خریدار کو گندم فروخت کرنے پر مجبور ہے،11 سو روپے فی من گندم خریدکر رہے ہیں اور شاید کمیشن مافیا بھی یہی چاہتا ہے۔

مالیاتی اداروں نے اخبارات کے اشتہارات میں کسان کو بلاسود قرضے جاری کئے ہوئے ہیں لیکن عملاََ کسی ایک کو بھی بلاسود قرضہ نہیں دیا گیا اس وقت محکمہ زراعت کرپشن کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے اور اس کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔بارشیں معمول سے ہٹ کر کم ہونے سے جہاں گندم کی فصل بہتر ہوئی ہے وہیں ناقص حکمت عملی کے باعث آم کی فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور تو اور مینگو ریسرچ سینٹر شجاع آباد اور مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان کے اپنے باغات خالی ہیں۔
محکمہ زراعت کے افسران کی طرف سے سب سے اچھ ہے کہ رپورٹ سے محکمہ کے ساتھ ساتھ کسان بھی بد حالی کا شکار ہے جس سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
زرعی تحقیقاتی ادارہ برائے مشینی کاشت (ایمری) ملتان کی کارکردگی صفر ہے،مگر اب ساڑھے 6 کروڑ روپے کی گرانٹ اس لئے دی گئی ہے کہ یونین نے اس کرپشن کی نشاندہی کی تھی۔بلڈوزرز کی پراگریس جعل سازی سے دکھائی جارہی ہے،بلڈوزرز کی فرضی بکنگ کروا کر نہ صرف پراگریس ظاہر کی جارہی ہے بلکہ بھاری بجٹ مرمت اور پرزہ جات کی شکل میں ہڑپ کیا جاتا ہے۔
چھوٹے کاشتکاروں کو بلڈوزرز کی سبسڈی دی جاتی ہے جس کے لئے 560 روپے فی گھنٹہ کاشتکار جمع کرواتا ہے اس پر فی گھنٹہ 13.25 لیٹر ڈیزل سرکاری ہوتا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افسران بلڈوزروں کو دیہی علاقوں ،میں کھڑا کر دیتے ہیں۔کاغذی کاروائی میں انہیں چالو ظاہر کیا جاتا ہے ۔560 روپے سرکاری خزانہ میں جمع کروا کر 13.25 لیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے ڈیزل لے کر مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔
شعبہ زرعی انجینئرنگ کے افسران کی یہ پالیسی ہے کہ ہرسال پرانے بلڈوزروں اور گاڑیوں کی مرمت کے نام پر کروڑوں روپے ہڑپ کئے جارہے ہیں اور سرکاری جیبوں پر سال بھر میں نئی گاڑی کی قیمت کے برابر خرچ ظاہر کیا جاتا ہے۔
1998ء میں جب ”مان سینٹو“اسرائیلی ملٹی نیشنل کمپنی کی ریشہ دوانیوں کے خلاف ترقی پذید ممالک کے کسان اٹھ کھڑے ہوئے تھے تو پاکستان میں بھی راقم نے آواز اٹھائی تھی،سب سے بڑی سازش”ہائی برڈ“سیڈز بارے تھی۔
ہائی برڈ سیڈز اوسطاََ پیداوار تو بڑھا دیتا ہے مگر روایتی سیڈز کی طرح دوبارہ کاشت نہیں کیا سکتا ۔کسان کو ہر سال سیڈز کمپنیوں سے سیڈز خریدنا پڑتا ہے،اسی طرح جو سیڈز بارے خودکفیل ہوتا تھا اب وہ محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔بین الاقوامی سازشوں کے جال کا ایک کام یہ بھی ہے کہ اس کمپنی کو بین الاقوامی منڈی میں جس کی ضرورت ہوگئی وہی چیز وہ دنیا بھر میں کاشت کراوئیں گے جس کی فراوانی اور جس جنس کی قلت پیدا کرنا ہوگی وہ کریں گے۔
ہائی برڈ سیڈز کی مثال ایسی ہے جیسے گھوڑی اور گدھے کر کراس سے خچر پیدا ہوتا ہے جو طاقتور تو ہوتا ہے مگر اس کی افزائش نسل نہیں ہوسکتی۔ہائی برڈ سیڈز زمین سے طاقت کو اس قدر ”سک“ کر لیتا ہے جس سے وقتی طور پر فصل سے تین گنا زیادہ حاصل ہوجاتی ہے،مگر اس زمین کو چند سال بعد اس قدر بانجھ کردیتا ہے کہ اس میں فرٹیلائزر ،لیکوڈ کھادوں سمیت کیمیائی اشیاء اور کلر ڈالنا پڑ جاتا ہے جس کے اخراجات کسان کیلئے آمدن کے قریب ہی جا پڑتے ہیں۔
اس سے کسان اپنی ہی زمین پر مزارعہ بن کر بین الااقوامی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے دن رات محنت کرتا رہتا ہے ۔اب ”مان سینٹو“ کمپنی پھر ملک بھر میں با اثر ہورہی ہے اور حکومتی سطح پر اثرورسوخ بڑھا کر وہ پاکستانی زراعت پر حملہ آور ہو رہی ہے۔افسوس ہے کہ ملک کا نظام اور قوم کا مستقبل چند ایسے خودسر ،کود پسند اور خود غرض لوگوں کے ہاتھوں میں آجاتا ہے جنہیں ایسے لوگ اپنے شیشے میں اتار کر مستقل پالیسیاں نافذ کروالیتے ہیں۔
جس کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔اس وقت پھر” محکمہ زراعت آستین کے سانپوں کے نرغے میں “
ہے ہر شعبہ کے افسران کی اکثریت کرپٹ بددیانت ہے جو ادارے کو دونوں ہاتھوں سے نہ صرف لوٹ رہے ہیں بلکہ ادارے کو تباہ کررہے ہیں۔کاٹن ریسرچ،مینگو ریسرچ،فلوریلکلچرل،زراعت توسیع،واٹر مینجمنٹ،زرعی انجینئرنگ،زرعی تحقیقاتی ادارہ برائے مشینی کاشت (ایمری)پیسٹی سائیڈ /سوائل اینڈ واٹر ٹیسٹ لیبارٹریاں،سائل کنزرویشن،فاڈر،رائس،سیڈز کا رپوریشن غرضیکہ ہر شعبہ زوال پذید اور لوٹ مار کابازار بنا ہوا ہے۔
بعض ناپسندیدہ افسران بھی ہیں جو ذہنی مریض بن چکے ہیں،مگر ان سے جونئیر ترین لوگ پرموشن حاصل کرکے ان کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ادارے میں عدل و انصاف کا شدید فقدان ہے۔باقی رہی سہی کسر سیکرٹری موصوف کی شعبدہ بازیاں اور ”آنیاں جانیاں“کی وجہ سے نکل چکی ہے،اصلاح واحوال ضروری ہے۔

Browse More Business Articles