Bardana Or Kharedari main Takheer

Bardana Or Kharedari Main Takheer

باردانہ اور خریداری میں تاخیرکاشتکاروں کا استحصال

گندم کی کاشت اور اس کی پیداوار کے حوالے سے صوبہ پنجاب کی ذرخیز مٹی کو خصوصی شہرت حاصل ہے ، قیام پاکستان سے قبل بھی صوبہ پنجاب پورے برصغیر کی غذائی ضروریات پوری کیا کرتا تھا آج بھی مشرقی پنجاب بھارت کی اور پاکستانی پنجاب وطن عزیز کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں سب آگے ہے

میاں آصف علی:
گندم کی کاشت اور اس کی پیداوار کے حوالے سے صوبہ پنجاب کی ذرخیز مٹی کو خصوصی شہرت حاصل ہے ، قیام پاکستان سے قبل بھی صوبہ پنجاب پورے برصغیر کی غذائی ضروریات پوری کیا کرتا تھا آج بھی مشرقی پنجاب بھارت کی اور پاکستانی پنجاب وطن عزیز کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں سب آگے ہے۔ گندم کی اس پیدوار کی بدولت ہی پاکستان غذائی حوالے سے خود کفیل ہے ہر سال ہماری کھتیاں اتنا سونا اگلتی ہیں کہ ملک کی غذائی ضروریات سے کہیں زیادہ گندم پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان میں سالانہ تقریبا 25ملین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جس میں سے 19 لاکھ ٹن پنجاب کے سرزمین سے حاصل ہوتی ہے جو پاکستان کی کل گندم کی پیداوار کا 75فیصد کے قریب بنتی ہے۔ سندھ 12 فیصد اور خیبر پختونخواہ 9 فیصد کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں پنجاب میں گندم کی کل پیداوار کا 40 فیصد حصہ جنوبی پنجاب کے اضلاع کا ہے پنجاب کا کل زیر کاشت رقبہ 3 کروڑ 9 لاکھ 78 ہزار 518 ایکڑ ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ سال صوبہ پنجاب میں 1کروڑ 86لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل کاشت کی گئی تھی اس سال اس سے کچھ کم 1کروڑ 65لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ رقبے پر گندم کی فصل کاشت کی گئی ہے۔ یعنی پنجاب وسیع پیمانے پر گندم پیدا کرنے والا علاقہ ہے جہاں سے ہر سال اوسطا 1کروڑ 90 لاکھ ٹن کے لگ بھگ گندم کی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ہر سال اتنے وسیع پیمانے پر گندم کی پیداوار دینے والا یہاں کا کسان اپنی محنت کے ثمر سے عموما محروم ہی رہ جاتا ہے ۔
اگرچہ پاکستان میں گندم کی قیمت گندم پیدا کرنے والے دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہے اور اسی وجہ سے کسان اس کو کاشت بھی زیادہ کرتے ہیں لیکن یہ زیادہ قیمت بھی صرف اعلانات کی حد تک ہی حکومت کی جانب سے گندم کی مقرر کردہ قیمت 1300روپے فی من ہے لیکن حکومت پنجاب 40 لاکھ ٹن ہی خریدے گی جو پنجاب کی کل پیداوار کا دسواں حصہ بنتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی ایک الگ داستان ہے کہ حکومت کو عام کاشتکار تو کم ہی گندم فروخت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور یہاں بھی بڑا کاشتکار، آڑھتی اور سرمایہ دار اپنا داو کھیل جاتے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ تو حکومت کی جانب سے گندم خریداری میں غیر معمولی تاخیر ہے ، جنوبی پنجاب جو گندم کا 40 فیصد حصہ پیدا کرتا ہے اس میں گندم کی کٹائی کا سلسلہ مارچ کے مہینے کے آخری ہفتے میں شروع ہو جاتا ہے اور عموما 15 اپریل تک گندم کی 80 فیصد کٹائی مکمل ہو جاتی ہے لیکن پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری مہم کا آغاز ہی اپریل کے آخر میں کیا جاتا ہے کیونکہ وسطی پنجاب میں کٹائی 15 اپریل کے لگ بھگ شروع ہوتی ہے جب باردانہ کی فراہمی 20 اپریل کو شروع ہو گی تو جو کاشتکار 20 دن پہلے گندم کاٹ چکا ہو گا تو وہ فی ایکڑ اوسطا 40 من گندم کہاں سٹور کرے گا ؟مجبوراً اسے یہ گندم آڑھتی ، فلورملز مالکان ، سرمایہ دار اور بڑے زمیندار کے ہاتھ ہی فروخت کرنا پڑتی ہے۔
جو 1000روپے سے 1150روپے فی من کے حساب سے گندم خرید لیتے ہیں اور پھر یہی گندم محکمہ خوراک کے عملے سے ملی بھگت کر کے 1300روپے فی من کے حساب سے حکومت کو فروخت کر دی جاتی ہے۔ اس مرتبہ گزشتہ سالوں میں خریدی گئی 25 لاکھ ٹن گندم ا بھی ان سینٹروں پر ذخیرہ ہے جو حکومت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے نہ تو ایکسپورٹ ہو سکی اور نہ ہی اس کی فلورملوں کو مکمل طور پر نکاسی ہو سکی۔
یہ فالتو گندم سٹاک میں پڑی ضائع ہو رہی ہے ا س پر مزید 40 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا بھی منصوبہ ہے۔
ہمارے ہاں فی ایکڑ اوسط پیداوار 50 من ہے لیکن حکومت صرف 20 من گندم فی ایکڑ خریدتی ہے اور 115 گرام وزن تھیلے کا ہوتا ہے لیکن محکمہ خوراک کا عملہ 1 کلو وزن فی 50 کلو کاٹ لیتا ہے اتنے بڑے پیمانے پر گندم کی یہ کٹوتی کہاں جارہی ہے آج تک کسی کو اس کا احتساب کرنے کی فکر نہیں۔
آل پاکستان کسان فاوٴنڈیشن کے چیئرمین سید محمود بخاری طویل عرصے سے حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں باردانے کی فراہمی اپریل سے شروع کی جائے۔لیکن ہر سال ہی یہ مطالبہ مسترد کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کا کاشتکار شدید استحصال کا شکار ہوتا ہے گندم میں نمی کے تناسب کی بات کی جاتی ہے تو اپر پنجاب اور جنوبی پنجاب کی گندم میں نمی کے تناسب میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے لیکن گندم خریداری کے موقع پر بھی جنوبی پنجاب کی فصل میں نمی کے تناسب کو اپر پنجاب کی گندم میں نمی کے تناسب سے ہی پرکھا جاتا ہے حالانکہ جنوبی پنجاب میں شدید گرمی اپر پنجاب سے بہت پہلے شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کی گندم سے نمی تقریبا بالکل ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے اور حکومت 10 فیصد نمی کے تناسب سے گندم خرید رہی ہوتی ہے ،یوں تو گندم کی فروخت کے حوالے سے ملک بھر کا کاشتکار ہی ذلیل ہوتا ہے لیکن جنوبی پنجاب کے کاشتکارتو دوہرے عذاب کا شکار ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ جنوبی پنجاب جو گندم کی پیداوار کا 40 فیصد پیدا کر رہا ہے وہاں پر گندم خریداری مہم کا آغاز ہو جانے کے ساتھ گندم خریداری مراکز پر کسانوں سے ہونے والی ذیادتیوں کا سلسلہ بند کروانے کے لیے کسانوں کے حقیقی نمائندوں کو بٹھانا ہو گا تاکہ وہ غریب کسان کے مسائل کو حل کر سکیں اور عام فلور ملز مالکان ، آڑھتی ، سرمایہ دار اور بڑے زمیندار کو بھی پابند کیا جایا کہ وہ بھی سرکاری قیمت پر ہی گندم خرید سکیں۔

Browse More Business Articles