ELIMINATING ILLEGAL TRADE AND TAX EVASION CAN HELP THE GOVERNMENT IN DEALING WITH THE COVID-19 CRISIS

ELIMINATING ILLEGAL TRADE AND TAX EVASION CAN HELP THE GOVERNMENT IN DEALING WITH THE COVID-19 CRISIS

غیر قانونی تجارت اور ٹیکسوں کی چوری کی خاتمے سے حکومت کو COVID-19 سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے

بحران کے اس عرصے میں ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ حکومت اگر ، ملک میں،سخت اقدامات کے ذریعے غیرقانونی تجارت پرپابندی لگائے، ٹریک-اینڈ-ٹریس سسٹم کے نفاذ جیسے اقدامات کرے اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے ، مناسب ٹیکس لگا کر،قانونی کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کرے

ایک ایسے موقع پر، جب پوری دنیا اور پاکستان کورونا وائرس سے نبردآزما ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک تالابندی کی حالت میں ہیں، کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں روزانہ اضافے کے ساتھ ہی ’کورونا وائرس ریلیف فنڈ‘میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔وزیر اعظم ، عمران خان نے جہاں COVID-19 پینڈمک ریلیف فنڈ(COVID-19 Pandemic Relief Fund) 2020کا اعلان کیا ہے، وہیں انہوں نے لوگوں سے، اور بالخصوص بیرون ملک پاکستانیوں سے اور کمپنیوں سے بھی اپیل بھی کی ہے کہ وہ ’کورونا ریلیف فنڈ‘ میں عطیات جمع کرائیں تاکہ ضرورت مند لوگوں، مثلاًروزانہ مزدوری کرنے والے لوگوں کو مدد فراہم کی جا سکے۔


اس وقت جہاں متعدد ادارے عطیات دینے کے لیے سامنے آئے ہیں وہیں غیر قانونی کاروبارکرنے والے ادارے متوازی معیشت کو فروغ دے رہے ہیں اور ٹیکسوں کی ادائیگی نہیں کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

لہٰذا،اس بحران کے دوران، ان اداروں سے ٹیکسوں کی وصولی سے بہت مدد مل سکتی ہے۔

اگر ہم زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی صنعتوں کا جائزہ لیں تو پاکستان میں تمباکو کی قانونی صنعت یقیناً اِن سب سے اوپر ہے۔

بدقسمتی سے، یہ ٹیکس تمباکو کی صرف 60 فیصد صنعت کی جانب سے ادا کیا جا رہا ہے جبکہ صنعت کا باقی 40 فیصداِن ٹیکسوں کی چوری میں ملوث ہیں۔ادا نہ کرنے والا یہ40 فیصد حصہ مقامی مینوفیکچررز پر مشتمل ہے جو ،کم پیداوار دکھا کراور انڈر انوائسنگ کے ذریعے، نہ صرف ٹیکس چوری کرتا ہے بلکہ سگریٹوں کو کم قیمت پر فروخت بھی کرتا ہے جو ملکی قوانین کی ایک اور خلاف ورزی ہے۔
اس سے مقامی معیشت کو سالانہ 40-45 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

اسی طرح، پٹرولیم کی صنعت میں بھی، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم، ایرانی آئل کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو، ہر سال، 60 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔یہ اسمگلنگ بلوچستان میں پاک-ایران سرحد کے راستے ہوتی ہے جس سے آئل اور گیس کے قانونی شعبے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پٹرول کی اس اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان اسٹیٹ آئل نے بلوچستان کے ایسے علاقوں میں اپنے 159 پٹرول آوٴٹ لیٹس بند کر دئیے ہیں جہاں فیول اسٹیشنوں پر ایرانی پٹرول بلا رکاوٹ دستیاب ہے اور پاکستانی پٹرول کے مقابلے میں 10-20روپے سستا ہے۔
اس سے نہ صرف پٹرول کے کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اس کا نقصان دہ اثرمجموعی طور پر معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔

ایک اور بڑی صنعت جہاں غیر قانونی تجارت پاکستانی معیشت کو سالانہ تقریباً 30 ارب روپے کا نقصان پہنچا رہی ہے وہ ٹائروں کی صنعت ہے۔ مقامی طور پر ٹائر بنانے والوں کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق، سنہ 2017-18 کے دوران(ڈیوٹی کی موجودہ شرح کے اعتبار سے) قومی خزانے کو 30 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ ٹائروں کی اسمگلنگ ہے۔


عمران خان اور اسد عمر، دونوں نے کھلے عام ملک میں غیر قانونی تجارت کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے اور مختلف صنعتوں پر ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ ٹریک اینڈ ٹریس (track-and-trace)سسٹم کے استعمال کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔قانونی کاروبار کرنے والے اداروں پر پہلے سے عائد ٹیکسوں کی شرح میں اضافے یا نئے ٹیکس لگانے سے ملکی معیشت کو خطرہ درپیش ہے کیوں کے اس طرح ان اداروں کو نقصان پہنچے گا جس کے نتیجے میں ملکی خزانے کو نقصان پہنچے گا۔


بحران کے اس عرصے میں ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ حکومت اگر ، ملک میں،سخت اقدامات کے ذریعے غیرقانونی تجارت پرپابندی لگائے، ٹریک-اینڈ-ٹریس سسٹم کے نفاذ جیسے اقدامات کرے اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے ، مناسب ٹیکس لگا کر،قانونی کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کرے تومعیشت کہیں زیادہ بہتر ہوسکتی ہے۔صرف مندرجہ بالا مثالوں کے ذریعے ہی، اگر غیر قانونی تجارت پر قابو پا لیا جائے تو حکومت کو 130 ارب روپے سے زیادہ حاصل ہو سکتے ہیں جو اس بحران سے نکلنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

Browse More Business Articles