Kissanoon Ki Muashi Bad-Hali

Kissanoon Ki Muashi Bad-Hali

کسانوں کی معاشی بدحالی

ہمارے ملک پاکستان کی ستر فیصد آبادی پیشہ زراعت سے منسلک ہے اور زراعت کے پیشہ میں سب سے اہم جنس گندم ہے گندم کی سب سے زیادہ پیداوار جنوبی پنجاب میں ہوتی ہے جس کا بڑا مرکز تحصیل میلسی ہے۔ جہاں گندم کی اوسطاً پیداواردیگر اضلاع کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے

ہمارے ملک پاکستان کی ستر فیصد آبادی پیشہ زراعت سے منسلک ہے اور زراعت کے پیشہ میں سب سے اہم جنس گندم ہے گندم کی سب سے زیادہ پیداوار جنوبی پنجاب میں ہوتی ہے جس کا بڑا مرکز تحصیل میلسی ہے۔ جہاں گندم کی اوسطاً پیداواردیگر اضلاع کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے یہاں کا کسان اپنی سخت محنت ، اچھا بیج ، کھاد ، سپرے اور موسمی حالات ان تمام تکلیفوں اور دن رات ایک کر کے فصل کو تیار کرنے کے بعد جب فصل تیار ہو جاتی ہے۔
تو کسان کو سب سے بڑا مسئلہ گندم کو سرکاری نرخ پر فروخت کرنا ہوتا ہے جوکہ حکومتی ناقص پالیسیوں کی بدولت انتہائی دشوارترین بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے آ ج کا کسان سب سے زیادہ پریشان ہے گندم کے نرخ وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب کی جانب سے 1350روپے فی من ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اب تک پاسکواورفوڈ کے خریداری مراکز پر خریداری کا عمل شروع نہ ہو سکا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یعنی خریداری میں تاخیر کی وجہ وہ مافیا ہے۔

جو غریب کسانوں سے شروع میں ہی گندم 1100یا 1150روپے فی من کے حسب سے خرید لیتے ہیں اور بعد میں دس یا پندرہ دن گندم کو زخیرہ کر کے محکمہ فوڈ یا پاسکو کی مبینہ ملی بھگت سے وہی گندم 1350فی من کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔ یہ غریب کسان کا استحصال نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ تحصیل میلسی میں گندم کی کل کاشت دو لاکھ چھتیس ہزار دوسو سولہ ایکڑ ہے اور کسانوں کو 8 بوری فی ایکڑ کے حساب سے دینے کے احکامات ہیں۔
جبکہ اس سال اوسط فصل تقریباً 50من سے 60من فی ایکڑ ہے جبکہ8 بوری میں 20من گندم آتی ہے اب بقایا کی گندم کسان اس زخیرہ اندوز مافیا کو نہ دے تو کیا کرے مبینہ ذرائع کے مطابق پٹواریوں کی آڑھتیوں کے ساتھ ملی بھگت سے بہت سا رقبہ کی کاشت ان کسانوں کے نام ڈالی ہی نہیں گئی آڑھتیوں میں مافیا سرگرم ہے۔ جو فرضی کاشت پر باردانہ حاصل کررہے ہیں ذرائع کے مطابق کل 40فیصد گندم سرکاری ریٹ پر فروخت ہو گی 60 فیصد پھر بھی مڈل مین ہی اونے پونے داموں خریدیں گے باردانہ کی فراہمی جان بوجھ کر تاخیر کا شکار ہے۔
کیونکہ کاشتکار اونے پونے داموں بیوپاریوں کو فروخت کریں گے اور یہی بیوپاری سرکاری نرخ پر خریداری مرکز میں فروخت کریں گے کاشت میں محکمہ مال کی مداخلت کی وجہ سے پٹواریوں نے کاشتکاروں کی بجائے بیوپاریوں کو مستاجر بنا کر درج کر دی گئی ہیں۔ جس سے اصل کسان کو نقصان ہو رہا ہے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ 200بوری دینے کی اجازت ہے جبکہ 200بوری صرف بیس ایکڑ کی کاشت کیلئے کافی ہے۔
ہماری تحصیل زرعی حوالے سے بہت زرخیز ہے اور زمینداروں کے رقبے زیادہ تعداد میں کاشت ہیں اور اکثر زمینداروں کے رقبے مربوں پر محیط ہیں آخر کار زمیندار اور کاشتکاروں اور کسانوں کو مڈل مین کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ پاسکو اور محکمہ فوڈ کی بیورو کریسی ہر سال کسانوں کے نام پر تماشہ رچاتی ہے جبکہ سینٹر انچارج سے لیکر ڈائریکٹر فوڈ اور جنرل منیجر پاسکو تک بیوروکریسی کا ہر کل پرزہ ہاتھ رنگتا ہے جبکہ ضلع وہاڑی کے چیئرمین کسان اتحاد مہر محمد اکمل کا کہنا ہے کہ باردانہ سسٹم اوپن ہونا چاہیئے ۔
جس کی وجہ سے خاص طور پر ہر چھوٹا کاشتکار جس کے پاس سینٹر تک گندم کو پہنچانے کی سہولت نہیں ہو سکتی اس کو بھی گھر میں ہی اچھے نرخ پر گندم خرید کی جائے جبکہ ٹارگٹ کم ہونے کی صورت میں اور باردانہ نہ ہونے کی صورت میں خاص طور پر ہر چھوٹے کاشتکار کو بہت سی پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے پاسکو سینٹرز پر بوگس لسٹیں ،باردانہ کا نا ملنا ، گندم خرید میں تاخیر ، اور اگر باردانہ مل جائے تو سینٹرز پر کئی دنوں تک لمبی لائنوں میں لگ کر انتظار کرنا وغیرہ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو چاہیئے کہ ٹارگٹ خریداری گندم بڑھایا جائے گندم کی امدادی قیمت کم از کم 1500روپے فی من کی جائے مخصوص باردانہ دینے کی بجائے باردانہ اوپن کیا جائے تا کہ ہمارا کسان بھائی گھر بیٹھے باعزت طریقے سے اپنی جنس اچھے نرخوں پر فروخت کر سکے اور عوام کیلئے گندم خرید کے سلسلے میں سبسڈی دی جائے۔

Browse More Business Articles