Muashi Safar K Tazadat
معاشی سفر کے تضادات
بنگلہ دیش جو ہم ہی سے الگ ہوا تھا 1972 میں اسکی جی ڈی پی کی شرح نمومنفی13.97فیصدتھی مگر آج اسکی شرح نمومثبت7.1فیصدہے۔1972میں بھارت کی شرح نمو 1.643تھی مگر آج اسکی شرح نمو 8.2فیصد ہے جبکہ آج پاکستان کی شرح نمو 4.7فیصد ہے
(جاری ہے)
اسکے بعد اگلے دس سالوں میں بیرونی قرضے میں کمی بیشی ہوتی رہی جیسے2001میں 38ارب ڈالرز ہوا اور پھر 2002میں 31.5ارب ڈالرز ہوا۔ پھر 2010میں پاکستان پر بیرونی قرضہ 53.62 ارب ڈالرز کی سطح پر پہنچا جس کے بعد بتدریج اضافے کا رجحان اب تک جاری ہے 2011میں 57.21 ارب ڈالرز،2012میں 61.83ارب ڈالرز، 2013 میں 56.19 ارب ڈالرز اور اب مرکزی بینک کی مارچ 2017کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ70.65ارب ڈالرز ہوچکا ہے جوکہ پاکستانی روپے کیمطابق 7403.6ارب روپے بنتا ہے جس میں بیرونی ادائیگیوں کا بوجھ365ارب روپے اور قرضوں پر سود کی رقم کی ادائیگی شامل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ پاکستان پر اندرونی قرضوں اور ادائیگیوں کا بوجھ بھی بڑھتا ہوا 14192.6ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یعنی کل ملا کر پاکستان پر اندرونی وبیرونی قرضوں اور ادائیگیوں کا بوجھ 23143ارب روپے یعنی 220ارب ڈالرز سے زائد ہے جوکہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 80فیصد سے زائد بنتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ گذشتہ چار سالوں سے موجودہ حکومت ملک کی معیشت کو ایک مستحکم معیشت کے سرٹیفیکٹ مختلف مالیاتی اداروں سے لے رہی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کو اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے مگر اعدادوشمار کے ہیر پھیر سے معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی کیونکہ 2005میں پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر 12.58ارب ڈالرز تھے جبکہ اس وقت ہم پر صرف بیرونی قرضہ33.92 ارب ڈالرز تھا مگر اب جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر21.74 ارب ڈالرز کی سطح پر تو پہنچ گئے ہیں مگر بیرونی قرضہ بھی اس تناسب سے 70ارب ڈالرز سے زائد ہوچکا ہے۔ اسکے ساتھ برآمدات میں بھی پانچ ارب ڈالرز کی کمی آچکی ہے اور درآمدات میں اضافے کے ساتھ مالیاتی خسارے بھی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ جیسا کہ 2000-1 کے مالی سال میں ہمارا مالیاتی خسارہ 1.52 ارب ڈالرز تھا جو کہ 2015-16میں بڑھ کر 23.96 ارب ڈالرز تک پہنچ گیاتھا اور اب مرکزی بینک کے مطابق جولائی2016سے مارچ2017کے نو ماہ ہماری برآمدات 15.12 ارب ڈالرز اور درآمدات 38.5 ارب ڈالرز ہونے کی وجہ سے مالیاتی خسارہ 23.38ارب ڈالرز ہوچکا ہے اس لئے میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ برآمدات میں کمی، درآمدات اور مالیاتی خسارے میں اضافے اور اندرونی و بیرونی قرضوں کے بڑھنے کے باوجود ملکی معیشت مستحکم و مضبوط کیسے قرار دی جاسکتی ہے ؟ کیا صرف بیرونی مالیاتی اداروں کے مستحسن سرٹیفیکیٹس اور قرضوں و بھیک کی آمد سے زرمبادلہ میں مصنوعی اضافے کو کامیابی سمجھا جاسکتا ہے؟ کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر اکتوبر2016میں تاریخی بلندی یعنی 24.025ارب ڈالرز تک پہنچ گئے تھے مگرحکومت کی مصنوعی پالیسیوں اور مسلسل گرتی ہوئی برآمدات و مسلسل بڑھتی ہوئی درآمدات کے سبب سات اپریل 2017کو زرمبادلہ کے ذخائر میں 2.28ارب روپے کی کمی ہوچکی ہے۔حکومت کی ان ہی مصنوعی اور زمینی حقائق سے غیر مطابقت رکھنے والی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے گذشتہ دنوں سترہ اپریل2017 کو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان جس کا کام ہی پاکستان کی برآمدات بڑھاناہے کے سربراہ اور ممتاز صنعتکار محترم ایس ایم منیر صاحب نے اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم پاکستان محترم میاں محمد نواز شریف صاحب کو پیش کرکے اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں کیونکہ انکے مطابق وزیر اعظم محترم میاں نواز شریف اور وزیر تجارت خر م دستگیر خان کے چاہنے کے باوجود بیوروکریسی تاجروں وصنعتکاروں کا ساتھ نہیں دے رہی جس کی وجہ سے پاکستان کے برآمدات کنندگان کے 300ارب روپے کے ریفنڈ اب تک واپس نہ ہوسکے ہیں اور ہماری بڑی مثبت تجاویز پر مرتب فائلوں کو کامرس منسٹری نے گھمادیا ہے جبکہ انکم ٹیکس و سیلز ٹیکس کے اہلکار تاجروں وصنعتکاروں کو ہراساں کررہے ہیں اس لئے ان حالات میں جب میں تاجروں وصنعتکاروں کے مفاد میں کوئی کام کرنے سے قاصر ہوں ا س لئے میرا اس عہدے پر رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک ایڈہاک ازم اور مصنوعی اعدادوشمار کے سہارے معاشی استحکام حاصل نہیں کرسکتا اور اس کیلئے سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت ٹیم ورک کی ہوتی ہے جو عملاً اور نیتاً مخلص ہو مگر پاکستان کی معاشی تاریخ گواہ ہے کہ اسکے معاشی، اقتصادی ، پلاننگ اور منصوبہ ساز اداروں میں بیٹھے افراد گذشتہ پچیس سالوں سے اپنے بیرونی آقاوٴں اور انکے مقاصد کوپورا کرنے میں مگن ہیں اور حکومتیں اور وزراء آتے جاتے رہتے ہیں مگر وہ تمام افسران شطرنج کے کھیل کی طرح کبھی ایک سیٹ سے دوسری سیٹ پر براجمان ہوکر پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کی عملی صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنی برآمدات اور پیداواری شعبے میں ترقی یافتہ ممالک تو کیا اپنے خطے میں موجود ممالک جو رقبے ،آبادی اور قدرتی وسائل میں بھی ہم سے بہت کم ہیں وہ بھی ہم سے کہیں زیادہ ترقی کرچکے ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش کی برآمدات تقریباً38ارب ڈالرز یعنی پاکستان سے تقریباً دگنی ہیں اور درآمدات تقریباً40ارب ڈالرز ہیں یعنی مالیاتی خسارہ صرف تقریباً 2ارب ڈالرز ہے جبکہ بنگلہ دیش پر بیرونی قرضے کا بوجھ36ارب ڈالرز ہے جوکہ اسکی جی ڈی پی کا صرف 14فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح تھائی لینڈ کی برآمدات215ارب ڈالرزاور درآمدات 203ارب ڈالرز ہیں یعنی مالیاتی خسارہ بالکل نہیں ہے جبکہ تھائی لینڈ پر بیرونی قرضوں کا بوجھ159ارب ڈالرز ہے جو اسکی جی ڈی پی کا 39فیصد بنتا ہے اس لئے ہمیں اپنے ملکی زمینی حقائق اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی معاشی ترقی کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے کیونکہ اگر ہم اخلاص اور نیک نیتی سے مثبت معاشی سمت کا تعین کرکے قدم بڑھائیں تو ہم ان ممالک سے کہیں آگے نکل سکتے ہیں کیونکہ نہ ہمارے ملک میں وسائل کی کمی ہے، نہ افرادی قو ت کی اور نہ ہی قابلیت کی۔ اس طرح ہم قرضوں و بھیک کی بیساکھی کو توڑ ہم اپنے ہی وسائل سے اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔
Browse More Business Articles
راوی کی کہانی
Ravi Ki Kahani
خیبر پختونخواہ امن کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن
Khyber Pakhtunkhawa Amaan Ke Baad Taraqi Ki Rah Per Gamzan
مہنگائی و معاشی بدحالی سے آئل ٹینکرز انڈسٹری تباہی کے دہانے پر
Mehengai O Muashi Badhaali Se Oil Tankers Industry Tabahi Ke Dahane Par
ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے خوراک میں خود کفالت ناگزیر
Mulki Taraqi O Khushhali Ke Liye Khoraak Mein khud Kifalat Naguzeer
مہنگائی و بیروزگاری کی خوفناک لہر میں حکومت کے معاشی اشاریے
Mehngai O Berozgari Ki Khofnak Leher Mein Hakomat Ke Muashi Ishariye
مہنگائی و بے روزگاری کا اژدھام اور حکومتی ترجیحات
Mehngai o Berozgari Ka Azdaham Aur Hakomati Tarjeehat
برطانوی سکے جو پاکستان میں رائج رہے۔ وجہ کیا تھی؟
Bartanvi Sikke Ju Pakistan Main Raij Rahe
مالیاتی اداروں کی بلیک میلنگ اور ڈگمگاتی معیشت
Maaliyati Idaroon Ki Blackmailing
زراعت کی ترقی کے لئے حکومتی اقدامات
Zaaraat Ki Taraqi K Liye Hakomati Iqdamat
مردم خور”سیاسی بلی“کس کی تھی
Mardam Khoor Siyasi Billi Kis Ki Thi
بھارت میں کسانوں کا خوفناک استحصال
Baharat Main kissanoon Ka Khofnak Istehsaal
نواز شریف کے بیانیے سے اپوزیشن کا انحراف
Nawaz Sharif K Bayaniye Se Opposition Ka Inheraf