Saal 2018-19 Main Zarayi Ahdaaf Nahi Hasil Kiye Ja Sake

Saal 2018-19 Main Zarayi Ahdaaf Nahi Hasil Kiye Ja Sake

سال 2018-19ء میں زرعی اہداف نہیں حاصل کئے جا سکے

زراعت کی ترقی کے لئے وزیرِ اعظم کا قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام خوش آئند قدم

سال 2018-19ء میں زرعی شعبے کی کارکردگی دباوٴ کا شکار رہی کیونکہ اس میں 3.8 فیصد کے مقابلے میں 0.85 فیصد شرح نمو رہی۔ گزشتہ سال کی نسبت نقد آور فصلوں کپاس، چاول، گنے کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2018-19 ء کے دوران کپاس کی پیداوار 9.861 ملین گانٹھ تھی جب کہ سال2017-18ء میں کپاس گانٹھوں کی تعداد 11.946 ملین تھی لہٰذا اس میں 17.5 فیصد کی منفی نمو ریکارڈ کی گئی۔
سال 2018-19ء کے دوران چاولوں کی پیداوار 7202 ہزار ٹن رہی جب کہ گزشتہ سال 7450 ہزار ٹن پیداوار تھی۔ اس طرح 3.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ سال 2018-19ء کے دوران گندم کی پیداوار 25.195 ملین ٹن ریکارڈ کی گئی جب کہ 2017-18ء میں اس کی پیداوار 25.076 ملین ٹن تھی۔ لہٰذا اس میں 0.5 فیصد مختتم اضافہ ہوا۔ سال 2018-19ء کے دوران گنے کی پیداوار 67.174 ملین ٹن رہی، لہٰذاگزشتہ سال کی گنے کی پیداوار 83.333 ملین ٹن سے 19.4 فیصد کم ہوئی۔

(جاری ہے)

جب کہ دال ماش، دال مونگ اور آلو کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں بالترتیب 5.5 فیصد، 3.4 فیصد اور 0.3 کمی واقع ہوئی۔ سال2018-19ء کے دوران خریف 2018ء کی فصلوں کے لئے پانی کی کل دستیابی 59.6 ملین ایکڑ فٹ ریکارڈ کی گئی اور 67.1 ملین ایکڑ فٹ اوسط سسٹم میں اس سال کے مقابلے میں 11.2 فیصد کم رہی اور خریف 2017ء کی نسبت 14.9 فیصد کم رہی۔ ربیع 2018-19 کے دوران پانی کی کل دستیابی 24.8 ملین ایکڑ فٹ ریکارڈ کی گئی جو کہ ربیع 2017-18ء سے 2.5 فیصد زائد ہے اور 36.4 ملین ایکڑ فٹ کی عمومی دستیابی سے 31.9 فیصد کم ہے۔
ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والا شعبہ زراعت کا دھڑن تختہ نکل گیا ہے، زراعت اور اس سے بلاواسطہ یا بلواسطہ وابستہ لوگ جن کو کل آبادی کا 70 فیصد شمار کیا جاتا ہے ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔
اسی لئے وفاقی حکومت نے زراعت کے فراغ کے لئے صوبوں کے اشتراک کے ساتھ 309 ارب کا وزیرِ اعظم کا قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام کا اعلان کیا۔
جس کے تحت 16 بڑے منصوبوں کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ وفاق 85 ارب دے گا، صوبے 175 ارب جب کہ کسان 50 ارب روپے دیں گے۔ حکومت کے مطابق منصوبے کے تحت گندم، چاول، گنا، آئل سیڈ و دیگر فصلوں کی پیداوار کو بڑھا کر انقلاب لایا جائے گا۔ 220 ارب روپے پانی کے چھوٹے ڈیم اور انتظامات کے لئے خرچ کرنے کا پروگرام ہے۔گوشت کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا پاکستان میں مچھلی کی پیداوار میں اضافے کی بڑی گنجائش ہے، صحت مند جانوروں کی پیداوار بڑھا کرگوشت کی برآمد بڑھائی جا سکتی ہے۔
مارکیٹ میکنزم کو بہتر کیا جائے گا تا کہ زمیندار کو اس کی اجناس کی مناسب قیمت مل سکے۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ پنجاب میں چار نئی مارکیٹیں بنائی جائیں گی، 56 مارکیٹوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، مڈل مینوں کا کردار ختم کیا جائے گا۔ کھاد کی قیمت کم کرنے کے لئے 38ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب تک زراعت کو فروغ نہیں ملے گا ملک حقیقی ترقی نہیں کر سکتا۔
زراعت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پاکستان خوراک امپورٹ کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ گزشتہ سال میں 4 ارب ڈالر کی غذائی اشیاء درآمد کی گئیں جو کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک زرعی ملک اتنی بڑی رقم اپنی خوراک کی درآمد پر خرچ کرتا ہے۔ وطنِ عزیز کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے 71 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن ہم ابھی تک یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ملک کی پوری آبادی کو پیٹ بھر کر تین وقت کا کھانا میسر ہے۔
ملک میں عوام کی ایک بڑی تعدا دغذائی قلت کا شکار ہے۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے گلوبل ہنگر انڈیکس پر جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 119 ترقی پزیر ممالک میں غذائی قلت کے معاملے میں پاکستان106ویں نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق خطے کے دوسرے ملکوں میں بھارت 103ویں، افغانستان111ویں، چین 29ویں، میانمار 68ویں، نیپال 72ویں، سری لنکا 84ویں اور بنگلہ دیش 88ویں نمبر پر ہے یعنی اس فہرست میں صرف افغانستان پاکستان سے نیچے ہے۔
ماہرین کی رائے ہے کہ غذائی تحفظ حاصل کرنے کے لئے زراعت کی ترقی اہم ہے، کیونکہ 99 فیصد غذا کی فراہمی زراعت سے ہوتی ہے۔ مستحکم زراعت اور دیہی ترقی ہمیں غربت، بھوک، عدم مساوات، بے روزگاری جیسے بے شمار مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ جب تک زرعی بحران ختم نہیں ہوتا صحت و غذا کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے سے متعلق مسائل حل نہیں ہوں گے۔
بہرحال ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت نے جس عزم کے ساتھ مجوزہ پروگرام کا اعلان کیا ہے اسی سپرٹ کے ساتھ اس پر عملدرآمد بھی کرے گی جس سے نہ صرف ملک خوراک وزراعت میں خود کفیل ہو گا بلکہ ہمارے ہاں کے کسانوں کی زندگی میں بہتری آئے گی۔

Browse More Business Articles