Zar e Mubadila Sameet Muashi or Iqtesadi Challenge Ka Samna

Zar E Mubadila Sameet Muashi Or Iqtesadi Challenge Ka Samna

زرِ مبادلہ سمیت معاشی و اقتصادی چیلنج کا سامنا

ان دنوں ڈالر کی قدر میں روپے کے مقابلے میں اضافہ اور چند گھنٹوں بعد ہی کمی پر مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 5جولائی کو اچانک جب ڈالر کی قیمت 104.90 سے بڑھ کر 108.25 روپے تک پہنچ گئی تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار شدید برہم ہو گئے

احمد جمال نظامی:
ان دنوں ڈالر کی قدر میں روپے کے مقابلے میں اضافہ اور چند گھنٹوں بعد ہی کمی پر مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 5جولائی کو اچانک جب ڈالر کی قیمت 104.90 سے بڑھ کر 108.25 روپے تک پہنچ گئی تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار شدید برہم ہو گئے۔ انہوں نے فنانس ڈویڑن حکام کے ہنگامی اجلاس کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں انٹربینک ریٹ پر ڈالر کی قدر میں اضافے کا شدید نوٹس لیا اور کہا کہ بعض افراد، عناصر اور بینک حالیہ سیاسی صورت حال کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں جس سے ہمارے غیرملکی زرمبادلہ کی مارکیٹس پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ روپے کی قیمت میں 9سال کی سب سے بڑی کمی سے 78ارب کے غیرملکی قرضوں میں 250ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

(جاری ہے)

سٹیٹ بینک نے اس صورت حال کو گزشتہ کچھ عرصے سے بیرونی کھاتے کا خسارہ بڑھنا قرار دیا اور کہا کہ مارکیٹ میں ایکسچینج کی شرح میں بھی تبدیلی ہوئی ہے اور سٹیٹ بینک نے اپنے نکتہ نظر کے مطابق ایکسچینج ریٹ میں یہ کمی بیرونی کھاتے میں ابھرتے ہوئے عدم توازن کا تدراک اور ملک میں ترقی کے امکانات کو مستحکم کرنے کے لئے کیا ہے۔

گویا صورت حال صاف واضح ہے کہ کرنٹ اکاوٴنٹ کے پیدا شدہ بحران اور بیرونی کھاتے کا خسارہ ختم کرنے کے لئے سٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں کمی کی اور مناسب سمجھا کہ اس سے زرمبادلہ کے گرتے وسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہمارا تجارتی خسارہ رواں مالی سال میں 60فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ رواں مالی سال میں یہ خسارہ دو گنا سے زائد کے ساتھ مئی تک 8.9ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا جبکہ یہی خسارہ گزشتہ ماہ اسی مدت کے دوران 3.5ارب ڈالر کا تھا۔
لہٰذا سٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے گرتے ہوئے وسائل کے علاوہ برآمدات اور ترسیلات بڑھانے کے لئے یہ اقدام اٹھایا جس کو حکومت نے مصنوعی طور پر مارچ 2013ء سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو روک کر اپنی حکومت کی ساکھ بنانے کے لئے اقدامات اٹھا رکھے تھے حالانکہ اب یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ 2013ء میں جب کرنٹ اکاوٴنٹ کا بحران پیدا ہونے کا شدید خدشہ تھا تو نا صرف اس وقت آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا بلکہ چین سے ایک ارب ڈالر سے زائد کے ایمرجنسی قرضے بھی لئے گئے۔
آئندہ پاکستان میں سی پیک منصوبوں کی ادائیگی کے سلسلے میں چینی کمپنیوں کو بھی ادائیگیاں کرنی ہیں جس سے ماہرین کے مطابق کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ مزید بڑھ سکتا ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ سٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں کمی کی اور بیرونی کھاتے کے بڑھتے خسارے کو روکنے کے علاوہ برآمدات اور ترسیلات کو بڑھانے کی کوشش کی مگر حکومت موجودہ سیاسی صورت حال میں سٹیٹ بینک پر برس پڑی۔
بین الاقوامی نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق ایک نجی بینک کے سینئر تجزیہ نگار نے موقف اختیار کیا کہ ان کی نظر میں روپے کی قدر میں کمی بیرونی چیلنجز کے ردعمل میں ہوئی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً 4ارب ڈالر کی کمی ہوئی جو گزشتہ اکتوبر میں 24.5 ارب ڈالر کی سطح پر تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ روپے کا مصنوعی استحکام کرنٹ اکاوٴنٹ خسارے میں اضافے کا باعث بن رہا تھا جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کے لئے دباوٴ محسوس کیا جا رہا تھا اور کئی باخبر حلقے توقع کر رہے تھے کہ اس سال کے آخر تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 108روپے تک پہنچ جائے گی۔
گزشتہ ماہ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کو ڈالر اور روپے میں مستحکم شرح مبادلہ کے تناظر میں پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کا عندیہ دیا۔ یعنی حکومت پاکستان نے روپے کی قدر برقرار رکھنے کے لئے ڈالر کی حقیقی مالیت کو داوٴ پر لگائے رکھا۔ تاہم اس ساری صورت حال میں جے آئی ٹی کی سیاسی کشمکش بھی خارج از بحث نہیں ہو سکتی ۔ جس سے کاروبار ، سرمایہ کاری اور سٹاک مارکیٹ پر اثر پڑتا ہے۔
لہٰذا وزیرخزانہ کا سارا ملبہ سٹیٹ بینک پر ڈالنا بجائے خود ایک سوال ہے۔ قائمقام گورنر سٹیٹ بینک ریاض الدین پر سارا ملبہ کیونکر گرایا گیا، بعض ذرائع کے مطابق اس معاملے پر وزیرخزانہ اور صدر نیشنل بینک کے درمیان بھی اختلاف رائے سامنے آیا ہے۔ اسحاق ڈار نے سٹیٹ بینک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی جاب نہیں کہ کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ پر فکرمند ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ وزارت خزانہ کا کام ہے اور اسے تبدیل کرنے کے لئے سٹیٹ بینک کو اختیار نہیں۔
اس صورتحال میں وزیراعظم کے تاجکستان کے سرکاری دورے سے واپسی پر سابق سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ کو گورنر سٹیٹ بینک بنانے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ صدرممنون حسین کو وزیراعظم نے وزارت خزانہ سے اتفاق رائے کے بعد ان کا نام تجویز کر کے بھجوایا جس کی منظوری دے دی گئی۔
طارق باجوہ سول سروس کے تیسرے فرد ہیں جنہیں گورنر سٹیٹ بینک تعینات کیا گیا ہے۔ وہ امریکہ میں کمرشل قونصلر کے طور پر بھی تعینات رہ چکے ہیں جبکہ اڑھائی سال تک چیئرمین ایف بی آر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وزیرخزانہ ایک طویل عرصہ سے انہیں گورنر سٹیٹ بینک تعینات کروانا چاہتے تھے لیکن ان کی تعیناتی میں پنجاب کی ایک بااثر سیاسی شخصیت رکاوٹ تھی۔
طارق باجوہ کے علاوہ دو گورنر سٹیٹ بینک محمد یعقوب خان اور غلام اسحاق خان بھی سول سروس سے تعلق رکھتے تھے۔بہرحال اس فیصلے کے باوجود ڈالر کا معمہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ وزیرخزانہ کی برہمی کے بعد ڈالر کی قیمت میں 3.24روپے کمی بھی ہو گئی ہے۔ تاہم تحقیقات کے بعد یہ کہا جا سکے گا ڈالر کی قیمت میں اضافہ چند افرادکے درمیان رابطے کے فقدان کے باعث ہوا اور جن لوگوں نے فائدہ اٹھایا وہ ذمہ دار ہیں۔
جن کے خلاف انکوائری ہو گی۔ اس سلسلہ میں وزیرخزانہ نے قومی بینکوں کے سربراہوں کے ساتھ ایک اجلاس بھی واضح کیا ڈالر کی قیمت میں اچانک تین روپے کا اضافہ حیران کن تھا مجھے لگا کہ شاید سیاسی حالات کے باعث ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔تحقیقات سے پتہ چلایا جائے گا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے فائدہ کس کا ہوا اور نقصان کس کو ہوا۔ اس بارے میں شفاف تحقیقات ہوں گی لیکن یہ بھی حیرانگی کی بات ہے کہ قومی بینکوں کے ساتھ اجلاس کے بعد ڈالر کی قیمت ایک مرتبہ پھر 105 سے 106روپے کے درمیان آ گئی۔
اس ساری صورتحال میں سٹاک ایکسچینج میں بھی خاصی مندی ریکارڈ کی گئی۔ غیرملکی سرمایہ کار بھی خوفزدہ دکھائی دیئے او رانہوں نے جمعرات(6جولائی) کو ایک گھنٹے میں 20ارب روپے نکلوا لئے جس پر پاکستانی سرمایہ کار بھی پریشان ہو گئے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وسط جون 2017ء میں واقعی آئی ایم ایف نے پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی نشاندہی کی اور حکومت پاکستان نے روپے کی قدر برقرار رکھنے کے لئے ڈالر کی حقیقی مالیت کو داوٴ پر لگایا ہے تو پھر اس ساری صورت حال میں اچانک سٹیٹ بینک کے قائمقام گورنر نے یہ اقدام کس طرح اپنے طور پر اٹھا لیا۔
کیا واقعی اسحاق ڈار اور ساری حکومت اس صورت حال پر سیخ پا ہے یا صرف روایتی سیاسی انداز میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے پر احتجاج کیا جا رہا ہے؟ اگر کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر منڈیوں میں کم ہو رہے ہیں، حکومت کئی معاشی و اقتصادی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے شعبہ ٹیکسٹائل برآمدات میں کمی پر احتجاج کر رہا ہے، شعبہ زراعت تمام تر سیاسی نعروں کے باوجود تنزلی کا شکار ہے تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت نے خود ہی ڈالر کی قیمت میں اضافہ کروایا ہو۔
گویا معاملات معاشی و اقتصادی طور پر اندرون خانہ بہتر بنا کر سیاسی انداز میں ماحول کو گرما دیا گیا ہو۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا بحران اور مسئلہ موجودہ حکومت کے لئے کوئی نیا نہیں۔ 5دسمبر 2013ء کو موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے چند ہفتوں بعد ہی زرمبادلہ کے ذخائر کے شدید بحران کے شکنجے میں جکڑی گئی تھی جب ملک کے پاس ایک ماہ کی درآمدات کے لئے بھی زرمبادلہ نہیں بچا تھا۔
ایک ہفتے میں ذخائر مزید 55کروڑ 78لاکھ ڈالر کم ہو گئے تھے۔ ستمبر 2013ء میں ہی سٹیٹ بینک نے اعتراف کیا تھا کہ اس کمی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر کا مجموعی حجم 8ارب 30کروڑ 82لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گیا تھا۔ ان میں سے سٹیٹ بینک کے پاس 41کروڑ 78لاکھ ڈالر کمی سے 3ارب 4کروڑ 66لاکھ ڈالر جبکہ دیگر بینکوں کے پاس 14کروڑ 7لاکھ ڈالر کمی سے 5ارب 19کروڑ 16لاکھ ڈالر محفوظ رہ گئے تھے۔
13دسمبر 2013ء کو زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت 12سال کی کم ترین سطح پر آ گئی تھی۔ جب قومی خزانے میں ان ذخائر کو نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال جیساقرار دیا جا رہا تھا۔ 13دسمبر 2013ء کو زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت ایک ماہ کی درآمدات کے لئے بھی ناکافی قرار دی جا رہی تھی۔ لیکن اس دوران بھی حکومت اقدامات کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت میں کمی کر رہی تھی۔
6دسمبر 2013ء کو حکومتی اقدامات کے بعد روپے کی قدر میں جب بہتری کا سلسلہ سامنے آنے لگا تو انٹربینک میں ڈالر 107.10روپے اور اوپن مارکیٹ میں 107.23روپے تک گر گیا تھا۔ ڈالر کی سپلائی بہتر ہونے کے بعد انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کی قیمت کا فرق کم ہو گیا تھا۔ 5دسمبر 2013ء کو دس روز کے دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں تین روپے کمی ریکارڈ کی گئی تھی لیکن حالیہ معاملہ اس سے بہت مختلف نظر آ رہا ہے۔
اس وقت وزارت خزانہ نے مختلف بانڈز وغیرہ بھی بین الاقوامی سطح پر فروخت کئے تھے لیکن موجودہ معاملہ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے معاشی و اقتصادی ترقی کے تمام دعوے اس دورانیے کے کرنٹ اکاوٴنٹ اور مالیاتی خسارے سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ جس کیلئے حکومت کو مجبور اً سٹیٹ بینک کے کاندھے پر بندوق رکھ کر روپے کی قدر میں کمی کرنی پڑی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف ملک اور قوم پر اس ضمن میں رحم کریں اور خودانحصاری کی طرف گامزن ہوں۔
قرض اتارو ملک سنوارو ایک سکیم شروع ہوئی تھی اب خودانحصاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان امیرترین خاندانوں کے نام سے اپنی شناخت نہیں بلکہ امیر ترین اور مضبوط ترین معیشتوں کی صورت میں اپنی پہچان چاہتا ہے۔ ڈالر کا حالیہ اتار چڑھاوٴ بھی محض ایک تماشے سے زیادہ نہیں۔ وزیراعظم تو سب خوب جانتے ہیں، وزیرخزانہ اسحاق ڈار بھی ملک اور قوم کا اب سوچیں!

Browse More Business Articles