کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جولائی2018ء) رائس ایکسپورٹرز ایسو سی ایشن آف
پاکستان REAPکے سینیئر وائس چیئرمین رفیق سلیمان نے موجودہ مالی سال 2017-18کے اختتام پر چاول کی بر آمدات کے اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2017-18میں چاول کی بر آمدات کا 2ارب
ڈالر کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے اور گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں موجودہ مالی سا ل جولائی تا جون 2018میں چاول کی بر آمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔
انہوں نے بتایاکہ موجودہ مالی سال میں ہم نی40لاکھ23ہزار میٹرک ٹن چاول بر آمد کیا ہے جس کی مالیت تقریباًً 2ارب 5لاکھ 90ہزار
ڈالر 243)ارب روپی(ہے جبکہ گذشتہ مالی سال میں اسی عرصے کے دوران ہم نی34لاکھ46ہزار میٹرک ٹن چاول بر آمد کیا تھا جسکی مالیت تقریباًً ایک ارب56کروڑ
ڈالر تھی یعنی اس سال چاول کی برآمدات میں مقدار کے حساب سے 16.7فیصد اور مالیت کے حساب سے 27.7فیصد ترقی ہوئی ہے ۔
(جاری ہے)
اس سال باسمتی چاول کی بر آمدات 5لاکھ 1ہزار ٹن رہی جسکی مالیت 524ملین
ڈالر ہے جبکہ نان باسمتی چاول کی مقدار 35 لاکھ 22ہزار ٹن رہی جسکی مالیت 1ارب 47کروڑ
ڈالر ہے ۔ انہوں نے چاول کی برآمدات میں نمایاں اضافے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے چاول کی بر آمدات شدید متاثر تھیں لیکناس سال چیئرمین REAPچوہدری سمیع اللہ ، سینیئر وائس چیئرمین REAPرفیق سلیمان ، وائس چیئرمین REAPحمد اللہ خان ترین نے عبد الرحیم جانو کی قائدانہ رہنمائی کے بعد شبانہ روز محنت کرکے دو ارب
ڈالر کا ہدف حاصل کر لیا ہے ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آئندہ سال چاول کی بر آمدات کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ کینیا پاکستانی چاول کا سب سے بڑا خریدار ہے ۔ گذشتہ مالی سال میں کینیا کو 4لاکھ 39ہزار ٹن چاول بر آمد کیا گیا جسکی مالیت 171ملین
ڈالر ہے ۔کچھ عرصے پہلے کینیا میں پاکستانی چاول کر خصوصی در آمدی ڈیوٹی کی سہولت میسر تھی مگر اب انہوں نے پاکستانی چاول پر بھی 35فیصد یا 200ڈالر کی ڈیوٹی نافذ کر دی ہے۔
ہم حکومت
پاکستان اور وزارت تجارت سے درخواست کر تے ہیں کہ کینیا کی حکومت سے بات کر کے پاکستانی چاول کودوبارہ خصوصی در آمدی ڈیوٹی کی سہولت دی جائے تاکہ دونوں ممالک کے در میان تجارتی توازن بر قرار رہ سکے ۔ اسکے علاوہ
چین پاکستانی چاول کا دوسرا سب سے بڑا خریدار تھا جسکو تقریباًً پانچ لاکھ 90ہزار ٹن چاول بر آمد کیا جاتا تھا مگر رواں مالی سال صرف 2لاکھ72ہزار ٹن چاول بر آمد ہوسکا ہے ۔
ہم حکومت
پاکستان سے اپیل کر تے ہیں کہ جسطر ح
پاکستان میں CPECپر اربوں
ڈالر کی سر مایہ کاری کی گئی ہے ااسی طرح
پاکستان کو آسیان (ASEAN)ممالک کی طرز پر خصوصی در آمدی ڈیوٹی فراہم کی جائے تاکہ
چین کو پاکستانی چاول کی بر آمدات دوبارہ بڑھائی جاسکیں ۔ اسکے علاوہ رواں مالی سال میں انڈونیشیا کے جاری کردہ 2لاکھ ٹن چاول کے ٹینڈر ز کی وجہ سے بھی پاکستانی نان باسمتی چاول کی برآمدات میں بہتری آئی ہے ۔
رفیق سلیمان نے
پانی کے بحران کے سلسلے میں حالیہ خبروں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دیگر ممالک مثلاًً
تھائی لینڈ ، ویتنام ،
چین وغیرہ میں سال میں چاول کی 2سے 3فصلیں حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ انکی چاول کی پیداوار0 10ملین ٹن تک ہوتی ہے جبکہ
پاکستان میں چاول کی مجموعی پیداوار ہی 6.5تا 7ملین ٹن تک ہوتی ہے جسکی وجہ سے ہماری برآمدات بھی گذشتہ کئی سالوں سے 4ملین ٹن تک محدود ہے ۔
ڈیموںکی تعمیر کے بعد اس سے حاصل
پانی سے لاکھوں ایکڑ فٹ زمین سیراب ہوسکتی ہے اور اس
پانی کو ذخیرہ کرکے ہم بھی سال میں چاول کی ایک سے زائد فصلیں حاصل کرسکتے ہیں۔ چاروں صوبوں کو لاکھوں ایکڑ فٹ اضافی
پانی میسر آئے گا جس سے زراعت کے شعبے میں انقلاب آسکتا ہے ۔ ہمیں کثیر مقدار میں نہایت سستی
بجلی حاصل ہوسکتی ہے جس سے ملک میں موجودہ توانائی کے بحران کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔
عالمی ماہرین کے مطابق آئندہ بڑی جنگ
پانی، چاول اور دیگر غذائی اجناس کی وجہ سے ہوسکتی ہے لہذا انہوں نے حکومت
پاکستان سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ سے زیادہ رقبے پر چاول کی کاشت کی اجازت دی جائے تاکہ ہمیں زیادہ سے زیادہ مقدار میں بر آمدی مقاصد کیلئے چاول دستیاب ہوسکے۔ اگر ملک کی بر آمدات میں اضافہ ہوگا تو ملک کو زیادہ مقدار میں زر مبادلہ حاصل ہوگا جس کی اسوقت ملک کو شدید ضرورت ہے ۔
REAPکے عہدیداران اور چاول کے ممتاز بر آمد کنندگان پاکستانی چاول کیلئے نئی مارکیٹوں کی تلاش کیلئے
دنیا کے کئی ممالک میں تجارتی وفود کی شکل میں دورہ کر رہے ہیں اس سلسلے میں REAPکا ایک اہم تجارتی وفد چیئرمین REAPچوہدری سمیع اللہ کی قیادت میںآئندہ ماہ چلی ، برازیل اور ارجنٹائن کا دورہ کرے گا اسکے علاوہ رفیق سلیمان کی قیادت میں ایک تجارتی وفد افریقی ممالک کا دورہ کر ے گا ۔
اسکے علاوہ پاکستانی نان باسمتی چاول کے بڑے خریداروں میں مڈگاسکر) 3لاکھ 35ہزارٹن (، انڈونیشیا 2)لاکھ 64ہزار ٹن(، تنزانیہ 1)لاکھ 71ہزار ٹن (آئیوری کوسٹ )ایک لاکھ 17ہزار ٹن( ، موزمبیق) 90ہزار ٹن( ، ملائیشیا41)ہزار ٹن(شامل ہیں۔ انہوں نے مغربی افریقی ممالک ، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمینٹ کیلئے حکومتی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر حکومتی سطح پر
مذاکرات کی در خواست کی اور تجویز دی کہ REAPکا تجارتی وفد REAPکے عہدیداران اور وزیر تجارت کے ہمراہ ان ممالک کا فوری دورہ کرکے ملک کی بر آمدات بڑھانے کیلئے اقدامات کر سکیں ۔
مزید برآں باسمتی چاول کے بڑے خریداروں میں
متحدہ عرب امارات )ایک لاکھ 84ہزار ٹن( ،
برطانیہ) 69ہزار ٹن( ، بیلجیئم) 52ہزار ٹن( ،
سعودی عرب 84)ہزار ٹن (اور اومان) 70ہزارٹن(شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی باسمتی چاول کی بر آمدات ماضی میں 10لاکھ ٹن ہوا کر تی تھی جو کہ اب محدود ہو کر 5لاکھ ٹن رہ گئی ہے ۔
ایران باسمتی چاول کا سب سے بڑا خریدار تھا مگر بینکنگ چینل کی عدم دستیابی کی وجہ سے بر آمدات شدید متاثر ہو رہی ہیں ۔
حکومت کی یقین دہانیوں کے بعد ہمارے ممبران نے باسمتی چاول کا اسٹاک جمع کر لیا مگر پاک
ایران بینکنگ معاملات ابھی تک حل نہیں ہو سکے جسکی وجہ سے ہمارے ممبران کو اسٹیٹ بینک آف
پاکستان کے ERFکی مد میں بھاری
نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی رائس ایکسپورٹرز ملک کی معاشی ترقی کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں اور زر مبادلہ کے حصول کیلئے بڑے پیمانے پر سر مایہ کاری کر رہے ہیں اور چاول کی ویلیو ایڈیشن کیلئے
دنیا کی بہترین
ٹیکنالوجی ، پیکیجنگ مشین اور
دنیا کے بہترین آٹو میٹک پلانٹ استعمال کررہے ہیں ۔
اسکے علاوہ انہوں نے اسٹیٹ بینک آف
پاکستان سے چاول کی اسٹوریج کیلئے اسلامی بنیادوں پر
قرضہ فراہم کرنے کی پہلے ہی درخواست کی ہوئی ہے تاکہ چاول کے ایکسپورٹرز زیادہ سے زیادہ اس سے مستفید ہوسکیں اور بہتر کوالٹی کا چاول بر آمد کر کے ملک کیلئے زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ حاصل کر سکیں ۔ اسوقت چاول کے نئے بیج کیلئے کوئی تحقیقی کام نہیں ہورہا اور دونوں ذمہ دار ادارے یعنی کالا شاہ کاکو اور ڈوکری حقیقی معنوں میں غفلت کی نیندسو رہے ہیں اور پچھلے دس سے پندرہ سالوں میں تجارتی بنیادوں پر چاول کا کوئی نیا بیج متعارف نہیں کرایا گیا ، ہمارے ممبران نے اپنی مدد آپ کے تحت
چین سے چاول کے ہائبرڈ بیج منگوانا شروع کر دیئے ہیں جنکی مجموعی پیداوار بہت اچھی ہے ۔
جو کام حکومتی ادارو ں کو کرنا چاہیئے تھا وہ ہمارے ممبران کر رہے ہیں ۔ اکثر ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات کمرشل قونصلر /سیکریٹری صحیح معنوں میں ملک کی بر آمدات بڑھانے کیلئے کوئی کام نہیں کر رہے ہیں ۔ ہمارے کچھ ممبران کے بھیجے گئے چاول کی شپمنٹ ان ممالک کی پورٹ پر تا حال ریلیز نہیں ہو سکی ہیں جسکی وجہ سے ہمارے ممبران کو پورٹ اور شپنگ کے اخراجات کی مد میں بھاری
نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
مجبوراًً ہمارے کچھ ممبران نے اپنے چاول کے کنٹینر وہاں سے واپس
پاکستان منگوالئے ہیں مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا کسٹم کا ڈیپارٹمنٹ ان کنٹینروں کو چھڑانے کیلئے مجموعی طور پر ساڑھے سات فیصد ٹیکس کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہا ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے ۔ ہم وزیر اعظم
پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ٹیکس کو فی الفور واپس لیا جائے اور چاول کے بر آمد کنندگان کے وفد کو ملاقات کا جلد از جلد وقت دیا جائے تاکہ ہم اپنے مسائل ان کے سامنے پیش کر سکیں اور ملک کی دوسری بڑی بر آمدات ہونے کے باوجود جو ہمیں نظر انداز کیا جارہا ہے اس کی تلافی کیلئے وزیر اعظم سے درخواست کر سکیں ۔