ویسٹ بینک کی زرخیز اراضی پر اسرائیل کا قبضہ کرنے کا فیصلہ

154ہیکٹرپرقبضے کے اسرائیلی منصوبے کی تصدیق ،اقدام قابل مذمت ہے،بان کی مون

جمعہ 22 جنوری 2016 18:51

نیویارک/مقبوضہ بیت المقدس(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22 جنوری۔2016ء) اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ اردن کے قریب ویسٹ بینک کی ایک بڑی پٹی پر قبضے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اِس اسرائیلی اقدام کی مذمت کی ہے۔برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزارتِ دفاع کے ایک یونٹ کو گاٹ نے اپنے ایک میل میل میں واضح کیا کہ اردنی سرزمین کے قریب واقع ویسٹ بینک کی وسیع پٹی پر اسرائیلی قبضے کو حتمی شکل دی جانے والی ہے۔

سیاسی حکومت کے فیصلے کے بعد ویسٹ بینک کی اِس پٹی کو اسرائیل کی جغرافیائی حدود میں ضم کر دیا جائے گا۔اسرائیلی حکومت کے اِس اقدام کو سب سے پہلے اسرائیل کے آرمی ریڈیو نے رپورٹ کیا تھا۔ اِس رپورٹ کے مطابق 154 ہیکٹرز یا 380 ایکڑ اراضی کو اسرائیلی سرزمین کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اب صرف اعلان ہونا باقی ہے۔

(جاری ہے)

یہ اراضی جریکو کے فلسطینی علاقے کے قریب وادی اردن کا حصہ ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ اِس علاقے میں اسرائیل پہلے ہی کئی آباد کاری کے منصوبوں کو تعمیر کرتے ہوئے فلسطینی علاقے کو اپنی جغرافیائی حدود میں ضم کر چکا ہے۔ قبضہ کیے گئے علاقوں میں زرعی فارم قائم کیے گئے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے بیان میں کہا کہ آبادکاری کی یہ سرگرمیاں بین الاقوامی قوانین کے منافی ہیں اور اسرائیلی حکومت کا یہ عمل دو ریاستی تصور کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ تنازعے کو مزید گہرا کرے گا۔

اِس ممکنہ یہودی کارروائی کی فلسطینی حکام نے مذمت کرنا شروع کر دی ہے۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی سینیئر رکن حنان اشراوی نے اِس یہودی اقدام کو انٹرنیشنل قانون کی کھلی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ہے۔ گفتگو کرتے ہوئے اشراوی کا کہنا تھا کہ اسرائیل، فلسطینیوں کی اراضی یا زمین کو حیلے بہانوں سے ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔جس علاقے کو اسرائیل قبضہ کر کے اپنی سرحدی حدود میں شامل کرنا چاہتا ہے، وہاں کئی یہودی آباد کاروں نے پہلے ہی زرعی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر یہ تمام علاقہ اسرائیل کی شہری انتظامیہ اور فوج کے کنٹرول میں ہے۔ اب صرف اِس زمین کا اسرائیلی ریاست کا حصہ بنانا باقی رہ گیا ہے۔ یہ علاقہ بحیرہ مردار کے ایک کونے کے انتہائی قریب ہے۔ کئی سالوں سے اِس علاقے میں کوئی ایک فلسطینی بھی نہیں رہتا۔ دوسری جانب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکراتی عمل اپریل سن 2014 سے معطل ہے اور حالیہ ہفتوں کے درمیان پرتشدد واقعات نے فریقین کے درمیان مزید دوری پیدا کر دی ہے۔

Browse Latest Business News in Urdu