نواز شریف، قید سے سزا معطلی تک

عارضی رہائی کے سیاسی فوائد اور نقصانات کیا ہو نگے ؟

ہفتہ 29 ستمبر 2018

Nawaz shareef qaid se saza muatali tak
 پرویز بشیر
اسلام آباد ہائیکورٹ کے دور کنی بنچ نے ٹھیک تین بجے نواز شریف ،مریم صفدر اور کیپٹن صفدر کی سزا معطلی کا فیصلہ سنادیا ۔فیصلے سے مسلم لیگی کارکن خوشی سے جھوم اٹھے،کارکن مستقبل کے اندیشوں خدشات سے عموماََ بے نیاز ہوتے ہیں جو کہ حقائق کے ساتھ وہمات اور خطرات کے مناظر دکھاتے رہتے ہیں اور دور کی کوڑیاں لاتے ہیں کسی نے درست تجزیہ کیا کہ ابھی مسلم لیگیوں کو خوشی تو منا لینے دو،بعد کی باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔

سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے سزا کی معطلی کے حوالے سے عدالتی کارروائی اور ججوں کے ریمار کس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ نیب کا کیس کمزور ہے ۔پر اسیکیوٹر عدالت کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی سزا کے بارے میں مطمئن کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں ۔

(جاری ہے)

ججوں کے ریمار کس سے عام پاکستانیوں کو عام فہم انداز میں کیس کی نوعیت سمجھنے میں مدد ملی۔
مسلم لیگی خاص طور پر عدالت میں ہونے والی بحث سے خوب لطف اندوز ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے اپنے قائد کی بے گنا ہی کا یقین آتا چلا گیا ۔

19ستمبر کو تین بجے دھڑکتے دل اور انتہائی جذباتی ماحول میں انہوں نے یہ فیصلہ سنا بظاہر تو انہیں سزا معطلی کا پکا یقین تھا لیکن نا معلوم ان کے دلوں میں کچھ انجانے خدشات اور ان دیکھی رکاوٹوں کے وسو سے بھی تھے لیکن کچھ غلط نہ ہوا اور سب تو قعات کے مطابق ہوا کوئی دباؤ سامنے نہ آیا اور ثابت ہوا کہ عدلیہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے تا ہم نیب کی نیت اور اس کی خود مختار حیثیت پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔


کچھ مسلم لیگی حلقوں کا خیال ہے کہ انتخابات سے پہلے نواز شریف کو نا اہل قرار دینا ،مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹانا ،ان کے خلاف مسلسل پرا پیگنڈہ کرنا ان تمام کے مقاصد اور اہداف واضح اور ظاہر ہیں ،اب نواز شریف کو چھوڑ دینے سے سیاسی حوالے سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا ۔ان تمام مقدمات کے مقاصد اور ٹا ئمنگ سیاسی تھے اگر نواز شریف 2018ء کے انتخابات کے دوران جیل میں نہ جاتے تو انتخابات کے نتائج مختلف ہوتے ،اب عمران خان کی حکومت بن چکی ہے ،صدر کا انتخاب مکمل ہو گیا ہے ،کابینہ تشکیل پا چکی ہے ،راستہ ہموار ہے اب نواشریف موجودہ حکومت کے لئے بہت زیادہ مشکلات پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے ۔

گزشتہ ایک سال کے دوران بہت کچھ ان کے ہاتھوں سے چلا گیا ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف اور مریم انتخابات کے دوران انتخابی مہم چلانے کے لئے آزاد ہوتے تو عمران خان کا جیتنا محال تھا ابھی تمام تر ر کاوٹوں ،دشواریوں کے باوجود مسلم لیگ (ن)نے ایک کروڑ تیس لاکھ ووٹ حاصل کر لئے جبکہ تمام تر آسانیوں اور سہو لتوں کے ساتھ عمران خانبمشکل مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو جماعتیں اور آزاد ارکان ان کے ساتھ ملے وہ کیسے ملے،کس نے ملایا وہ کہانی سب کے سامنے ہے۔


اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جبکہ کلثوم نواز کے انتقال کو چند روز ہی ہوئے تھے ۔انتقال کی خبر سے لے کر تدفین کے عمل نے مسلم لیگیوں کو متحرک اور جذباتی کررکھا تھا ۔انتقال سے نواز شریف کے لئے ہمدردی کی جو لہر پیدا ہو گئی تھی کہ ان کی رہائی کافیصلہ آگیا ۔نوا زشریف نے کلثوم نواز کے انتقال ،تد فین کے موقع پر بردباری اور تحمل کا جو مظاہرہ کیا اس سے حکومت ،عدلیہ ،دیگر ادارے بھی ضرور متاثر ہوئے ہوں گے ورنہ تد فین اور میت کے آنے کے دوران کارکنوں کو مشتعل کرنا اور مظلومیت کے سہارے سیاست کی جاسکتی تھی اس لئے ہر طرف اچھا پیغام گیا کہ نواز شریف زیرک اور معاملہ فہم شخص ہیں ۔

ان کو معلوم ہے کہ کس وقت کتنی چو ٹ لگا نی ہے ،کسی وقت وہ وار کریں گے،اس کا اندازہ ان کو ہی ہے ۔
ضمنی انتخاب 14اکتوبر کو ہورہے ہیں اس کے لئے اب مسلم لیگ(ن)کے لئے فضا زیادہ ہموار ہوگی۔اگر انتخابی فہم میں نواز شریف اور مریم نواز بہت زیادہ شعلہ بیانی اور مزاحمتی سیاست نہ بھی کریں تو جلسوں میں ان کی شرکت ہی ان کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے تقویت کا باعث بنے گی ۔

اب جب وہ کلثوم نواز کے انتقال کے چند روز بعد رہا ہو رہے ہیں تو یہ قدرتی بات ہے کہ وہ گواری کی صورتحال سے دوچار ہیں جب ان کو وزیر اعظم کے منصب سے ہٹایا گیا تھا تو اس وقت صورتحال مختلف تھی ۔اس وقت جی ٹی روڈ سے آنے کے فیصلے نے ان کی مظلومیت اور مقبولیت میں اضافہ کیا اور سیاست کا ایک خاص رخ متعین کیا ۔اس وقت آنے والے انتخابات کے ان کے پیش نظر تھے ۔


اگر وہ اس وقت خاموشی سے آتے تو آج وہ منظر دیکھنے میں نہ آیا جو کہ کلثوم نواز کی تد فین کے موقع پر دیکھنے میں آیا ۔کہا جاتا ہے کہ ا گر عام انتخابات میں نواز شریف باہر ہوتے تو صورتحال مختلف ہوتی ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو انتخابی نتائج آئے اگر نواز شریف باہر ہوتے تو عمران خان کو مخلوط حکومت بنانا بھی دشوار ہو جاتا ۔یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پنجاب میں تو ہر صورت مسلم لیگ (ن)کی ہی حکومت بنتی کیونکہ یہاں مسلم لیگ (ن)اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئے تھی۔

جیل میں جانے کا فیصلہ نواز شریف کا اپنا تھا اگر وہ چا ہتا تو کلثو م نواز کی صحت کے پیش نظر وہ لندن میں تیمارداری اور دیکھ بھال کے حوالے سے وقت گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے شاید جیل جانے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ ان کی جماعت یا خود ان کو یہ طعنہ نہ دے کہ نواز شریف بھاگ گیا اور جیل جانے سے ڈر گیا ۔مریم نواز ایک نڈربے خوف لیڈر کے طور پر سامنے آئی ہیں ۔


ان دونوں رہنماؤں کی ابتدائی سیاسی تقاریر اور سرگرمیاں بے انتہائی اہم ہو ں گی اس سے سیاسی سمت کا تعین ہو گا ۔بہر حال اس وقت حکومت کی تشکیل کے بعد سیاسی صورتحال قدرے ٹھہر اؤ اور سکون کا شکار ہے البتہ 18ستمبر کو جو منی بجٹ آیا ہے مخالف سیاسی جماعتوں او رہنماؤں نے اس پر زیادہ شدید رد عمل نہیں دیا،بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کے باعث قابل گرفت اور ”قابل کنٹرول “ہیں۔

کچھ سیاسی پنڈت نواز شریف کو بھی ایسی صورت حال سے جوڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اس کو خالص عدالتی فیصلے کے بجائے کسی اور نقطہ نظر اور زاویے سے دیکھنے کی کوشش میں ہیں ۔یہ بات درست ہے کہ ابھی نواز شریف کی رہائی مشروط اور نا مکمل ہے ابھی مقدمات کا فیصلہ آنا باقی ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ ان مقدمات کے ہوتے ہوئے نواز شریف کیا پالیسی اپنا تے ہیں ،فی الحال تو وہ کلثوم نواز کی وفات کے باعث عملی سیاست سے کچھ دن دور رہیں گے ،عین ممکن ہے کہ وہ ای سی ایل سے اپنا نام ہتوانے کے لئے عدالت سے رجوع کریں ،اس میں عین ممکن ہے کہ حکومت بھی اس عمل کو اپنا عافیت سمجھ کر غنیمت جانیں ۔

مریم نواز کے بارے میں پیش کوئی کرنا مشکل ہے ،ان کا انداز اور سیاسی سوچ مختلف ثابت ہوگی کیونکہ نواز شریف ممکن ہے کہ آئندہ انتخابی سیاست سے کچھ دور رہیں اور وہ مریم نواز کو سیاسی جانشین کے طور پر سامنے لانا چاہتے ہیں ،اس لئے ممکن ہے کہ باپ بیٹی کی سیاست کا انداز مختلف ہوجائے ۔مریم نواز جیل جانے سے گریز نہ کریں گی جب کہ نواز شریف کی حکمت عملی ہو گی کہ وہ باہر رہ کر پارٹی کو منظم کریں جب موجودہ حکومت کمزور ہو تو وہ اس پر حملہ ہو جائیں ۔نواز شریف منجھے ہوئے اور سمجھدار کھلاڑی ہیں۔ وہ جیل سے باہر رہ کر بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔وہ کچھ عرصہ بعد حکومت کوتنگ کر نے کی پوزیشن میں بھی آسکتے ہیں ۔پنجاب حکومت تو ویسے ہی کمزور روکٹ پر ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Nawaz shareef qaid se saza muatali tak is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 September 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.