سارک کے تمام ممالک خطہ میں آ ب و ہوا کی تبدیلیوں کے مضر اثرات میں کمی لانے کے لئے اکٹھے مل کر کام کریں

اتوار 15 جولائی 2018 22:00

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 جولائی2018ء) سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے تمام ملکوں بالخصوص سارک ممالک پر زور دیا ہیکہ وہ خطہ میں آ ب و ہوا کی تبدیلیوں کے مضر اثرات میں کمی لانے کے لئے اکٹھے مل کر کام کریں اور اپنے عوام کی زندگی کے تحفظ اور خطے کی زرعی صورتحال کی بہتری کے لیے کوئی طریقہ کار وضح کریں کیونکہ موسمیاتی صورتحال تبدیل ہونے کے باعث اس کی شدت معمول بن چکی ہے۔

یہاں موصولہ پیغام کے مطابق بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ’ ’ متحدہ جنوبی ایشیا برائے موسمی تبدیلی: موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع کی عملی تعبیر ‘‘ کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس میں شامل پاکستانی وفد کے سربراہ اور سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے کہا کہ علاقائی ممالک میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ انفرادی طور پر ان چیلنجز سے نمٹ سکیں ۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ سارک ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی حوالے کے حوالے سے پروگرامز کے فروغ ، آگاہی و اقدامات اور ایسے معاشرے کے قیام کے لیے پر عزم ہونا چاہیے جہاں کاربن کا کم سے کم اخراج ہو،اس کے لیے سائنسی تعلیم کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔انھوں نے ماحولیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے پالیسی سازی، اقدامات ، ٹیکنالوجی کی منتقلی، مالیات کی فراہمی اور سرمایہ کاری کے نظام، تعلیم، تربیت و آگاہی، نگرانی اور موسمی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے انتظامات پر زور دیا۔

انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کا محل وقوع کوہ ہمالیہ اور بحر ہند، خلیج بنگال اور بحیرہ عرب کے درمیان واقع ہے جو کہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی کے حوالے سے حساس ہے کیونکہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے بڑے پیمانے پر پانی کی آمد سے سطح سمندر مسلسل بلند ہورہی ہے۔سمندر بنی نوع انسان کی ہرطرح کی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا قریبا نصف اپنے اندر سمولیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے اور اسے باقاعدہ ریگولیٹری نظام کے لیے بین الاقوامی مالیات تک رسائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان چیلنجز سے نمٹ سکے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ماحولیاتی بہتری کے لیے اقدامات کے لیے پرعزم ہے،اور اسے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت فاسل فیول انرجی جنریشن کے لیے فنڈز اور قابل تجدید توانائی کی پیداوار کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ کارکنوں کی صلاحیتوں میں اضافے، ٹیکنالوجی وسائل کو بہتر بنانے اور قابل تجدید توانائی کی تیاری کے لیے اداروں کے استحکام کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر قابو پانے کے لیے سالانہ 10 ارب 70 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوگی جبکہ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے 8 سے 17 ارب ڈالر کی لاگت آسکتی ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں