لاک ڈاؤن اور ماہ مقدس رمضان۔

منگل 28 اپریل 2020

Adeela Zaka Bhatti

عدیلہ ذکاء بھٹی

"وہ امت کو بخشنے پہ آتا ہے تو تحفہ میں رمضان دیتا ہے"
رمضان المبارک امت مسلمہ پر اللہ کا وہ احسان ہے جسکا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔اس مہینے کے لیے ہمارے نبی نے بشار تیں دی ہیں۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار اور گناہ بخشوانے کا مہینہ ہے۔یہ محبت،ہمدردی اور قلب کو اللہ سے جوڑنے کا مہینہ ہے۔یہ اتنی برکت والا مہینہ ہے کہ اس کی ایک رات ہزار مہینو ں افضل ہے۔

اللہ نے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور اسکی راتوں کو قیام کو ثواب کمانے کا ذریعہ بتایا ہے۔ رواں برس یہ مہینہ غیرمعمولی حالات میں آیا ہے۔ایسے حالات کے جہاں دنیا بھر میں کورونا کی وبانے لوگوں کو سماجی دوری پر مجبور کیا ہے وہاں مسّلم ممالک بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہے۔ سماجی دوری، سفری پابندی اوراجتماعات پر پابندی کی وجہ سے اسلامی رسومات اور عبادات جیسے عمرہ،نمازجمعہ یہاں تک کے تدفین تک کا عمل متاثر ہواہے۔

(جاری ہے)

رمضان،جس مہینے میں خدا نے ہمارے نبی حضرت محمد پر قرآن نازل کیا،نئے چاند کے دیکھنے کے بعد باضابطہ طور پر شروع ہوتا ہے۔سعودی عرب امارت میں رمضان المبارک کا آغاز جمعہ کو ہوا اور ہمارے ہاں ہفتہ کو ماہ مقدس کا استقبال کیاگیا۔تاریخی طور پر مساجدرمضان کے مہینوں میں عبادت گزاروں سے بھری پڑی رہتی تھی لیکن اس بار کورونا کے وبائی مرض(جو کہ200سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے)نے ترجیحا ت کو تبدیل کر دیا ہے اور اس سال رمضان لاک ڈ اؤن اور معاشرتی فاصلاتی پروٹو کول کی وجہ سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔

موجودہ کورونا وائرس کے قواعد میں حفظان صحت کے طریقوں کوبھی رمضان میں شامل کیا گیا ہے۔وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں اجتما عات پر پابندی ہے اور بیشتر مذہبی مراکز اور مساجد بند ہیں۔ لوگ انفرادی طور پر گھروں میں ہی سہر ی و افطار ی کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں حکام نے مذہبی علما کے دباؤ میں مساجدمیں اجتماع کو محدود کرنے کے حکم کو مسدود کر دیا ہے جبکہ کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈ اؤن کی سخت ضرورت ہے۔

 ابھی تک پاکستان میں300 سے زائد افراد ہلاک اور تقریبا12ہزار کے قریب لوگ متاثر ہو چکے ہیں بہت سے لوگوں کے خیال میں تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔پاکستانی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق بھی حکمرانوں نے غلط فیصلہ کیا ہے، اور علمانے غیر سنجیدہ رویہ ظاہر کیا ہے۔ خیر ان کم عقل ملا کو تو اپنی جیبیں گرم کرنے سے غر ض ہے۔اس مہلک وبا نے لوگوں کے لیے جو بحرانی کیفیت پیدا کی ہے اس سے اندازا ہوا ہے کہ انسان جتنی بھی ترقی کر لے وہ پھر بھی اللہ کے سامنے بے بس ہے۔

لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں غریب طبقہ مزید بد حال ہو گیا ہے جبکہ سفیدپوش لوگ ان سے کہیں برے حالات کا سامنا کر رہے ہیں کیوں کہ وہ تو کسی کے سامنے دست سوال بھی دراز نہیں کر سکتے۔ اس لیے کوشش کریں کہ پاس پڑوس کوئی بھوکا نا رہے۔
ویسے تو تمام عبادات ہی آپس میں بھائی چارے اور اخوت کا درس دیتی ہیں مگر روزے میں بھوک،پیاس کی شدت کا احساس ہمیں ان لوگوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے جو مستقل ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

جسمانی دوری کے اس دور میں بحثیت مسلمان ہم دوبارہ اپنے اللہ اور قرآن مجید سے گہرا رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔لاک ڈ اؤن کی دلچسپ بات یہ ہے کے یہ حضرت محمد کا مستند عمل ہے کہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر غار میں دن بھراپنے آپ کو عبادت میں مشغول رکھتے تھے اور خدا سے جُڑ جاتے تھے تو لاک ڈاؤن میں ہمیں بھی کم از کم اس ماہ مقدس ماہ میں فضول کاموں کو چھوڑکر اللہ سے لو لگا لینی چاہیے۔

کیونکہ ان دنوں ہم جس سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں ایسے میں رب کی طرف رجوع ہی راحت اور سکون کا ذریعہ ہے۔رحمت کا عشرہ چل رہا ہے اگر ہم بھی اپنے رب کے سامنے گڑگڑا کر توبہ استغفار کریں تو رب بہت مہربان اور رحیم ہے اسکی رحمت جو ہمارے گناہوں سے کہیں زیادہ ہے ہمیں معاف فرما دے گا اور اس وبا کو رمضان کے صدقے ٹال دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :