سندھ ڈوب گیا،،،بھٹو بچ گیا

بدھ 9 ستمبر 2020

Aqsa Kanwal

اقصیٰ کنول

جھیلنا ہوگی تمہیں، خود اپنی بربادی کے بعد
جانے کس کس کی غلامی ، ایک آزادی کے بعد
کراچی پاکستانی معشیت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ پاکستان کا تقریبا 60 فیصد ریونیو اسی شہر سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کبھی اس شہرکے سرپرست بھتہ خوراور ٹارگٹ کلرز رہے اور باقی کا عرصہ ایک شاہی خاندان کراچی پر مسلط رہا۔

اس خاندان کا کمال یہ ہے کہ اس نے عوام کو تو مار ڈالا مگر بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ اس روشنیوں کے شہر کو اندھیروں میں دھکیلنے میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ آج حالات یہ ہے کہ کوئی بھی ان اندھیروں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔
حالیہ بارشیوں نے سندھ حکومت کے سب دعوں کا پول کھول دیا۔

(جاری ہے)

پہلے لوگ ٹائم نکال کر سمندر کی سیر کو جاتے تھے مگر سائیں سرکار کی مہربانیوں سے پورا کراچی سنمدر کا منظر پیش کر رہا تھا۔

اگر کچھ کہا جائے تو سائیں برا مان جاتے ہیں۔ اگر سوال ان کی کارگردگی کا کیا جائے تو جواب دینے کی بجائے الٹا پنجاب اور کے پی کے کی گورنمنٹ پر سوال کر دیتے ہیں۔ کبھی اختیارات کا اور کھبی وسائل کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو چور چور کہا جاتا ہے مگر ان سب کے درمیان عوام پس کر رہ گئی ہے۔ شکوہ کریں تو کیوں یہی عوام بھٹو کو زندہ سمجھ کے ووٹ دے کر اپنے نمائندوں کو اعلی ایوانوں میں بیجھتی ہے
کیوں خزاں کی نذر کرتے ہو َ محبت کا چمن
مہرِ آزادی کو آخر، کیوں لگا تے ہو گہن
کراچی کا اصل مسلئہ قبضہ مافیا ہے جنہوں نے نکاسی آب والے تمام نالوں پر قبضہ کر کے عمارات تعمیر کی ہیں جن کا سامنا حالیہ دنوں میں کراچی والوں کو کرنا پڑا۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبہ کو مکمل آزادی دے دی گئی مگر صوبہ پر لگنے والا فنڈ کرپشن کی نظر ہوگیا۔ ان بارشوں نے سائیں سرکار کے جھوٹے دعوں پول کھول دیا۔
ایک طرف سندھ گورنمنٹ وسائل کا رونا روتی ہے اور دوسری طرف 65000 مربع فٹ پر محیط بھٹو کے مزار پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ غریب کا قصور یہ ہے کہ وہ غریب ہے۔ کراچی کی عوام بارشوں میں ڈوب گئی۔

بعض لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے اور بعض کے کاروبار۔ سائیں سرکار نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے معائینہ کیا شاید وہ دیکھنا چاہتے ہوں کوئی بچا تو نہیں۔
کراچی والوں پر رحم آیا تو وزیراعظم نے کراچی پیکج کا اعلان کیا۔کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کا اعلان کیا۔ یہ پیسہ چھوٹے بڑے پروجیکٹس کے لیے مختص کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کے یہ پروجیکٹس کراچی کے لیے کتنے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔

اس کی وجہ سے سندھ کی عوام کو کیا ریلیف ملے گا۔ یا پھر یہ پروجیکٹس بھی سندھ اور وفاقی حکومت  کی آپسی ناراضگیوں کی نظر ہو جائیں گئے۔
کیا سوچا ہے اس گندگی میں معصوم بچے جو پھولوں کی مانند ہیں وہ کیسے کھل سکتے ہیں اور انکی جڑ میں کون سی  ذرخیز ی پائی جا يگی
کبھی کبھی اس بات کا احساس بہت اذیت دیتا ہے ک اگر آج قائد  ہوتے تو کیا کہتے مگر اس سانپوں کی طر ح ڈنگ ما رنے والی گونگی زبان جو بدحالی کی  فریاد بھی زبان پر نا لا سکے اے قائد اعظم آپ کا آبائی شہر اجڑ گیا افسوس در افسوس چمن اجڑ گیا آپ جیسے باغباں کے لئے چند الفاظ کا سہارا لینے پر مجبور ہیں
 تجھ بن تیرا شہر ویران بہت ہے
گلی چپ ہے بازار سنسان بہت ہے
تیری صدایں ہیں چار سو بکھری مگر
تیری تلاش میں نگاہ پریشان بہت ہے
خود سوچیں اس شہر کی عوام کا کیا عالم ہوگا جس کا معصوم میئر مدت پوری ہونے کے بعد اپنی بے بسی کا رونا روتا ہے۔

ان بارشوں کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ بھر میں کافی جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ کراچی تو سب کا ہے مگر کراچی کا کوئی نہ بن سکا۔ عوام مر رہی ہے مگر بھٹو زندہ ہے۔ کراچی جو بہت سے مسائل کی زد میں ہے  اپنے مسیحا کے انتظار میں ہے کاش واقعی بھٹو زندہ ہوتے تو آج کراچی ایسی حالت میں نہیں ہوتا ۔ شاید اس دن کراچی کی عوام کو سکھ کا سانس آئے جس دن وہ اس بات پر یقین کرلیں کے بھٹو اب زندہ نہیں ہے وہ گڑھی خدا بخش میں آرام فرما رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :