"آخر کب تک"

پیر 19 اکتوبر 2020

Arbaz Raza

ارباز رضا

آخر کب تک یہ لوگ ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلتے رہیں گے؟ یہی لوگ ہوتے ہیں جو کہ ہمارے ہی ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں اور ہمیں بھول جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کہ اقتدار کے مزے لینے کے بعد بھی اس سے چمٹے رہنے کی آرزو کو دل میں گھر کیے رکھتے ہیں۔ مؤدبانہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ ہم کو کبھی آئینے کا سیدھا رخ تو کبھی الٹا رخ دکھاتے ہیں اور ہم سے ووٹ طلب کرتے ہیں۔

ان کا جینا مرنا ہمارے ساتھ بالکل ہی نہیں۔ ان کا علاج،کھانا اور پینا باہر کا ہے۔ اس ملکمیں اگر رہنا ہے تو ہم نے رہنا ہے۔ مرنا ہے تو ہم نے مرنا ہے۔ انہوں نے صرف ہمارے لئے نعروں کی حد تک جان قربان کرنی اور بڑے بڑے لوٹنے کے منصوبے تیار کرنے ہوتے ہیں۔ ان کا کیا پاکستان سے لینا دینا۔اب مقصد پر آتا ہوں۔

(جاری ہے)

آپ نے گزشتہ چند دن پہلے اپوزیشن کا گوجرانوالہ کا جلسہ تو دیکھا ہوگا اور اس میں جو لوگ آپ کے سامنے پیش ہوئے ان سے بھی اچھی طرح واقف ہوں گے۔

پاکستان میں نااہل نااہل وزیراعظم کی رٹ لگا لگا کر عوام کو بھی انھوں نے قدرے حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ دیکھئیے کیا انہوں نے جو اس ملک کے ساتھ اتنے سالوں سے کیا اس کا کیا بنے گا؟ اس کا حساب کون دے گا۔ یہ حکومت سے 18 اگست 2018 سے اب تک کی کارکردگی کا پوچھتے ہیں۔ ان کے پاس کیا مؤقف ہے جو کہ انہوں نے اتنے سال اس ملک پر انگریزوں کی طرز پر حکومت ہے۔


کبھی انہوں نے اپنے گزشتہ لیڈروں کے نام پر ووٹ لیے تو کبھی لسانی و صوبائی بنیادوں پر۔ حالیہ دنوں میں آپ نے اس اتحاد کی سوئی ہوئی جماعت کی کارکردگی کا کراچی میں مظاہرہ کیا ہوگا کہ ان کا بارشوں کی وجہ سے کیا حال تھا۔ دیکھئے ایک شخص تھا جو کہتا رہ گیا۔ یہ دونوں پارٹیاں اندر سے بالکل ایک ہیں۔ بڑے سالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار تبدیل کرتے رہے ہیں۔

کبھی اس نے دوسرے کو غدار کہا تو کبھی دوسرے نے اسے کسی اور کی اولاد کے لقب سے نوازا۔
 کیا اس وقت پیپلزپارٹی کو بھول گیا ہے کہ کس نے کہا تھا کہ یہ عورت ( بے نظیر ) پاکستان کی تباہی کرتی پھر رہی ہے؟ جس باپ کو وہ شہید کہتی ہے وہ دراصل اقتدار کا پوجاری تھا۔ اس نے اقتدار کی خاطر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ وہ غدار تھا۔ کیا وہ اوپر سے تصویریں پھینکنا بھول گئے ہیں کہ کس نے پھینکی تھی؟ چلو یہ باتیں پرانی ہی سہی مریم بی بی کے عمران زرداری بھائی بھائی کے نعرے بھی بھول چکے ہیں اتنی بے شرمی بھی ہوتی ہے؟
 دوسرے کردار کیا آپ کو چور کہنا بھول گئے ہیں۔

یہ ضیاءالحق کا بیٹا ہے۔ اس کا اصل باپ ضیاءالحق ہے کس نے کہا تھا بھول گیا ہے؟ یہ کس نے کہا تھا کہ میاں صاحب آپ نے ہمیشہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا؟
یہ تمام باتیں عوام کو بھی یاد ہیں اور انہیں بھی۔ کل کے جلسے میں وہ کردار تھے جن کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ ایک وہ بھی تھے جو کہتے تھے رات کو دھرنے یا جلسے نہیں ہوتے رات کو تو مجرے ہوتے ہیں۔


اس کے علاوہ بھی تھے جنہوں نے حالیہ دنوں میں منتیں ترلے کرنے کے لیے بندے بھیجے۔جب کچھ نہ کر سکے تو ان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی جو کہ اپنا سینہ اس ملک و ملت کے لیے نچھاور کرتے ہیں۔ جو اپنی جوانیاں اس ملک پر لٹاتے ہیں۔ جن کا جینا پاکستان کے لیے باعثِ فخر اور شہید ہونا تاحیات ثابت ہوتا ہے۔ جنہوں نے نہ صرف بھارت جیسے مکروہ و فریب خوردہ ملک کو بچھاڑ کے رکھا ہوا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی جب کوئی آفت و مصیبت آتی ہے وہی لوگ اپنا تن من دھن قربان کرتے ہیں۔

وہ شہید ہوتے ہیں اور ان کے بچے لندن میں عیاشیاں کرتے ہیں۔ یہ لوگ دراصل پاکستان کے دشمن ہیں۔ اب یہ خوش ہیں کہ International Media کس طرح اس کی باتوں کو پاکستان کے خلاف اچھال رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو لوٹا۔
 اگر قمر جاوید باجوہ صاحب سے آپ کو اتنا ہی مسئلہ تھا تو ان Extension کیوں کروائی؟ اس میں آپ کی جماعت نے حصہّ کیوں لیا؟ ان سے ملاقاتیں کیوں کی؟ بس اب صرف و صرف بات یہی ہے کہ اقتدار تو رہا ہی نہیں جس کی وجہ سے یہ کرپشن کے خطرناک بھیڑیے کے اپنے شکار انجام دیتے۔

اب ان کے بس میں ملک و قوم کے عظیم الشان محسنوں پر انگلی اٹھانا رہ گیا ہے۔ اگر آپ جرات مند ہیں تو پاکستان آئیں اور دونوں بیٹوں کو بھی ساتھ لائیں۔ جو کہ پہلے سے مفرور ہیں۔ آئیے عدالت کا سامنا کیجئے۔ آپ تو وہ پارٹی ہیں جن کی تنظیم سازی آدھی رات کو ہوتی ہے اور ماشاءاللہ بہت اچھی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے اگر انسان اخلاقی طور پر پست ہو جائے تو وہ خود بخود مر جاتا ہے اور آپ بھی شاید اخلاقی موت مر چکے ہیں۔


آپ عمران خان کی مخالفت میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اب عوام نے آپ کو پہچان لیا ہے۔
آپ کا حال اور ماضی ہمارے سامنے ہے۔ آپ نے اقتدار کو صرف اور صرف اپنی ذات کے لیے استعمال کیا۔ آپ نے ملک و ملت کے اوپر خود کو ترجیح دی۔ آج دنیا ہم پر ہنس رہی ہے کہ آپ نے کیسے شخص کو تین بار وزیراعظم بنایا؟ جس نے آپ کو بہت پیچھے چھوڑا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کا کاروبار دن بدن بڑھے اور پاکستان معاشی طور پر کمزور ہوتا جائے۔

لہٰذا اب ہم حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ اسے انٹرپول کے ذریعےواپس لایا جائے۔ یہ اشتہاری مجرم ہے۔ اب یہ بالکل تندرست ہے۔
اسے دوبارہ اڈیالہ جیل بھیجا جائے۔ اب یہ ماشاء اللّٰہ فٹ ہے۔ اسے کوئی بیماری نہیں تھی سوائے اقتدار میں آنے کی یا پھر باہر جانے کی۔ مجھے ڈاکٹر حسن نثار صاحب کی بات یاد آ رہی ہے۔ انہوں نے ان کی پہلی تقریر کے بعد اپنے کچھ ڈاکٹرز دوستوں سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ اسے انتہائی دماغی علاج اور نگہداشت کی ضرورت ہے۔

اللّٰہ رب العزت کا شکر ہے کہ یہ کرپٹ ٹولہ گوجرانوالہ میں بری طرح بے نقاب ہوا۔ اس لیے ہمیں اس کرپٹ ٹولے کو مزید بے نقاب کرناہوگا آخر کب تک ہم ان کے جال میں پھنستے رہیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ان سے مکمل چھٹکارا حاصل کریں تاکہ ہم ترقی و خوشحالی کے راستے پر چل سکیں۔
ہم نے تو بدلا ہے محض انداز بیاں صاحب
جو کل کے تھے دشمن اب وہ ایک ہوئے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :