حرکت تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ

ہفتہ 24 اکتوبر 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

ھمارے ہاں تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی مقصد محض کسی ادارے میں نوکر بن کر دنیا سے گمنامی سے گذر جانا ھوتا ہے, چنانچہ جب نیت اس قدر کمزور ہو تو پھر آسمانی صحیفے بھی بے اثر ھو جاتے ہیں اسی لئے ھم تعداد میں بائیس کروڑ مگر طاقت میں پچاس لاکھ بھی نہیں ہیں۔
دنیا میں ھمارا کام غیر تربیت یافتہ افرادی قوت کوانتہائی کم اجرت پر در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے سپلائی کرنا رہ گیا جو عالمی مالیاتی نظام کیلئے تقریباً مفت غلام پیدا کرنا ہے۔


پھر ملکی معیشت میں بھی ابھی عقل کے اندھوں کی ایک بھرمار ہے جو بھیڑ چال کا شکار ہیں۔ جس طرف کی ھوا چلتی ہے سب پرندوں کی طرح اندھا دھند ادھر چل پڑتے ہیں، کیونکہ تعلیمی نظام وقت گزاروں اور چھاپہ خانے والوں کے ھاتھوں چڑھ گیا ہے جن کا ایمان ہے کہ چھا پو چھا پو جب تک چھاپہ نہ پڑے۔

(جاری ہے)


کبھی کبھی شدید حیرت ھوتی ہے کہ ایک اکیلا وزیراعظم کب تک اس لاغر لا شے کو دانتوں سے کھینچتا رھے گا مگر اللہ سے امید بھی ہے کہ شاید کوئی رستہ نکل آئے۔


ملک کی کرنسی روپیہ ہے مگر آدھے سے ذیادہ معاہدے امریکی ڈالر میں ہیں اور پھر رونا بھی رویا جاتا کہ روپیہ کی قدر کم ھو رھی ہے ظاھر ھے جب بدمعاشیہ کا مفاد ڈالر میں ھوگا تو وہ اسی کا تحفظ کرے گی ۔ اسٹیٹ بنک مارکیٹ میں مزید ڈالر بھیج کر مصنوعی طریقے سے عارضی طور پر روپے کو سہارا دینے کی اداکاری تو کرتا ہے مگر بڑے کاروباری معاہدوں کو ڈالر میں ہونے سے نہیں روکتا جو کہ اس کا بنیادی کام ہے۔


اور وہ روکے بھی کیوں !! کیونکہ اسٹیٹ بنک میں صرف دو طرح کے لوگ آتے ہیں یا تو عالمی مالیتی اداروں سے کچھ دیر سستانے کیلئے وہ بے خبر لوگ جو طویل عرصے سے ملک سے دور ھوتے ہیں یا تو پاکستانی کمرشل بینکاری کا تجربہ رکھنے والے لوگ جن کی بینکنگ کا سارا دارومدار حکومت کو Sovereign Guarantee پر قرض فراہم کر کے آسان سود حاصل کرنا رھا ہے ۔ اس کی تازہ مثال یہ ھے کہ جب پہلی بار وزیراعظم صاحب نے بینکوں کو ان کا حقیقی کردار ادا کرنے کا کہا اور نیا پاکستان ھاوسنگ اور تعمیراتی شعبے کیلئے Mortgages کی سہولت دینے کو کہا تو تقریبا تمام شعبوں کو سانپ سونگھ گیا ، کیونکہ نہ تو اس سے متعلق تجربہ کار لوگ موجود ہیں اور نہ ھی کوئی ذمہ داری کے ساتھ خطرہ مول لینے کو تیار ہے۔


گویا ھماری صلاحیتیں ھوں یا ھمارا قومی رجحان تقریبا سارے کا سارا ھی جگاڑ کے گرد گھومتا ہے ۔
حتی کہ ھماری حکومت بھی کام چوری میں پیچھے نہیں، بجلی اور گیس پر چھوٹ دے کر گردشی قرضے کو ملکی معیشت کے حجم کے بابر لے جاچکی ہے اور بیرونی قرض لے کر عوام کو مہنگا ترین ریلیف کا Pain killer دیتی رھتی ہے جس کا انجام بھیانک سے بھیانک تک ھوتا جارھا ہے جبکہ ھونا یہ چاہیے کہ ملک میں توانائی کہ کمی کو دور کرنے کے لئے مقامی ھائیڈل منصوبوں پر کام کیا جائے اور لوگوں کو شمسی اور ھوائی توانائی کے سستے آلات مقامی صنعت سے بنوا کر دئیے جائیں جس سے ھمہ جہت فائدہ حاصل کیا جا سکے۔


ان امراض کی نشاندھی میڈیا کا بھی کام ہے مگر ھمارے اخبارات، جرائد اور ٹی وی پروگرام سطحی قسم کے معاملات میں الجھے رھتے ہیں بالکل کولہو کے بیل کی طرح جس کو دنیا اور مافیہا کی کوئی خبر نہیں ھوتی ۔ ھمارے کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار سیاست کے گورکھ دھندوں سے فارغ ھی نہیں کہ نئی نسل کی اصلاح، تعلیم اور تحقیق کی ترویج پر کچھ توجہ دے سکیں۔


ھمارے ھاں ھر کام صرف خانہ پوری کیلئے کیا جاتا ہے اور اگر کوئی ھماری نااہلی کہ وجہ سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرے تو پھر ھم وہ رویہ اپنا لیتے ہیں جو سندھ حکومت نے کراچی کے ساتھ روا رکھا ہے کہ جینے بھی نہں دینا اور مرنے کی بھی اجازت نہیں
گندم کی جگہ مٹی رکھ کر صرف سٹاک پورا کرنا ہے اور جب کوئی مصیبت آجائے تو اسی ادارے کو بلا لینا ہے جس کو گالی نکال کر ووٹ لیا جاتا ہے.
جب تک ھم علم کو علم سمجھ کر حاصل نہیں کریں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو وصولی سے بڑھ کر ادا نہیں کریں گے تو یہ نظام ھمارے ساتھ ھر درجے پر مذاق کرتا رھے گا بالکل اسی طرح کی حماقت جو ھماری سپریم کورٹ ھائیکورٹ کے Suo moto کے حق کو استعمال کرکے کرتی ہے اور فیصلہ آنے پر ھمیں سمجھ نہیں آتا کہ اب اپیل کا حق کہاں آزمائیں؟
کیونکہ ایپلیٹ کی عدالت تو خود فیصلہ صادر کر چکی ھوتی ہے ۔


ھمارا معاشرہ ھو یا حکومت کی پالیسیاں اور نظام، عدالتی نظام ھو یا پھر خلائی مخلوق، سب کچھ ایک عام آدمی کی عقل و فہم سے تو بالاتر ہے ھی ساتھ ساتھ وہ باقی دنیا کے لئے بھی ایک معمہ ہے آپ جس چیز کو ھاتھ لگائیں گے وھاں سے اژدھا نکل آئے گا ۔
ابھی پچھلے دنوں سٹیٹ بنک کی ڈالر پالیسی کو دیکھنے کا اتفاق ھوا تو پتا چلا کہ 1992 سے عمران حکومت تک بس ایک ھی پالیسی تھی کہ جس کے من میں جو آتا ہے کرے ظاھر ہے ٹی ٹی مافیا کی نگرانی میں اور کیا ھو سکتا تھا ۔

ھر طرف ڈالر کا کاروبار نہ کوئی ٹیکس نہ کوئی ڈیوٹی بس اندھا دھند کالی معیشت اور پھر جب کسی کا قد خود سے بڑا لگا تو خانانی اینڈ کا لیا کو پکڑ کر سارا ملبہ ادھر ڈال دیا۔
پاکستان شاید وہ واحد ملک ھوگا جس میں یہ مادر پدر آزاد کاروبار ھوگا ھمیں تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ “ماھر” اور بڑی بڑی تنخواہوں پہ کام کرنے والے لوگ کرتے کیا ھیں؟ چالیس ھزار کا پرائز بانڈ بند کیا تو ایسا رجسٹرڈ بانڈ نکالا جس کی قیمت اس کی اصل مالیت سے بھی کم ہے اب بھلا کوئی کیوں خریدے گا ؟؟ اتنا بھونڈا مزاق مگر پوچھنے والا کوئی نہیں۔


ھر سال چھ ارب ڈالرز انڈر انوائسنگ کی نظر ھوجاتے ہیں نتیجتاً درآمد شدہ اشیاء ملک میں موجود اشیا سے کہیں سستی ھو جاتی ہیں اور ایک طرف حکومت کو کچھ نہیں ملتا دوسری طرف ملکی صنعت مقابلہ نہیں کرپاتی جس کی بہت بڑی مثال جوتے کی صنعت ہے جس میں ملکی حصہ اب کم ترین سطح پر آچکا ہے ۔
دوسری مثال موبائل فون ہیں جن پر ڈیوٹی لگنے اور انڈر انواسینگ کنٹرول کرنے سے ساٹھ فیصد موبائل ملک میں بننا شروع  ہیں صرف پچھلے سال بارہ ملین موبائل فون پاکستان کے اندر تیار ھوئے۔


اسی طرح ھر سال سات ارب ڈالرز کی سمگلنگ ھوتی ہے جس سے ملک کی اپنی صنعتوں کو بہت بڑا نقصان ھوتا ہے اور حکومت کو بھی ٹیکس کی مد میں کچھ نہیں ملتا اور اوپر سے نیچے تک سب محکموں کے ھاتھ برس ھا برس سے اس دھندے میں رنگے ہیں اور ابھی تک کوئی پراثر حکومتی پالیسی نظر سے نہیں گزری اور یہ کالا کاروبار خوب پھل پھول رھا ہے۔
حکومت ھر روز کچھ نہ کچھ اقدامات کرتی ہے وزراء کی پھرتیاں اور دعوے اپنی جگہ اور مافیا سے جنگ کے دعوے ایک طرف مگر دن بہ دن عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پستا چلا جا رھا ھے۔

سمجھ نہیں آتا کہ وزیراعظم صاحب کی ایمانداری کے نتائج کا انتظار کروں ؟یا عام آدمی کے صبر کا کوئی پیمانہ طے کروں؟یا پھر حکومتی نظام کو اور قانون میں کوئی منطق تلاش کروں؟
یہ سب کچھ دیکھ کر اندازہ ھوتا کہ منیر نیازی صاحب نے کس کیفیت میں یہ کہا تھا کہ
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :