
”کورونا اور سوشلسٹ و کیپیٹلسٹ ریاستیں“
منگل 23 جون 2020

اظہر حسن
اس کی ویکسین اور کوئی بھی طبی اعلاج نہ ہونے کی وجہ سے اس پر قابو پانے کا واحد حل اس کا پھیلاو روکنا تھا۔ اور وہ اسی صورت ممکن تھا کہ متاثرہ ملک میں کرفیو جیسی صورت نافز کردی جاتی۔ لوگوں کو گھروں تک محدود کرکے ان کے میل جول پر پابندی لگا دی جاتی اور ان کی تمام تر ضروریات کا بیڑہ ریاست اٹھاتی اور انہیں باہم پہنچاتی۔
(جاری ہے)
یہی طریقہ کار چین نے اپنایا اور اس وبا کو شکست دینے والا پہلا ملک بن گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین اور اس کے ماڈل پر استوار روس و کیوبہ جیسی ریاستیں اس قابل کیسے بن گئیں کہ وہاں موجود لوگوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ریاست انکی تمام تر ضروریات زندگی کو باہم پہنچانے میں کامیاب رہی۔ انہوں نے ناصرف اپنی بلکہ دوسری ریاستوں کی بھی مدد کرنے میں ہراول دستے کا کام کیا۔ اور اگر اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہ ہے ان کا معاشی نظام۔
ان ریاستوں کے معاشی اصول سوشلزم کے اصولوں پر استوار کیے گئے ہیں جس میں تمام تر ذرائع پیداوار ریاست کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور اس ریاست میں موجود تمام باشندے ریاست کیلئے کام کرتے ہیں جس کے بدلے میں ریاست ان کی تمام ضروریات زندگی روٹی کپڑا مکان تعلیم و نکاح آلغرض ہر چیز کا خیال رکھتی ہے۔
ان میں شعور پیدا کرکے ایک قوم بنا دیتی ہے جو ایک بند مٹھی کا کام کرتی ہے جسے شکست دینا ناممکن ہو جاتا ہے اور وہ بڑی سے بڑی آفت کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔اور اسی چیز کا مظاہرہ چین و روس اور کیوبہ جیسی ریاستوں کی اقوام نے کیا۔
جبکہ اس کے برعکس باقی ریاستیں جن پر کیپیٹلسٹ نظام قابض ہے جن میں پاکستان یورپ اور امریکہ (ترقی یافتہ) شامل ہیں۔ اگر ان پر نظر دوڑائی جاے تو وہ اپنے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو مروانے کے باوجود اس وبا کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں اور ابھی تک اس سے نبردآزما ہیں۔
ان ریاستوں کی ناکامی کی وجہ ان کے معاشی نظام کاکیپیٹلزم کے اصولوں پر استوار ہونا ہے اور کیپیٹلزم کو طبقاتی نظام سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ اس میں ذرائع پیداوار ریاست کے ہاتھ میں ہونے کی بجائے چند افراد پر مشتمل سرمایہ دار گروہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور وہ غریب کا استحصال کرتے ہوے امیر سے امیر جبکہ اس کیلئے کام کرنے والا محنت کش طبقہ غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ اور واضح طبقات پیدا ہوجاتے ہیں۔
وہ چند افراد پر مشتمل سرمایہ دار طبقہ محنت کش کو بے شعور رکھ کر اس کی محنت کا استحصال کرتا چلاجاتا ہے اور ان جیسی ناگہانی آفات میں وہ سرمایہ دار محنت کشوں کا خیال رکھنے کی بجائے نوکریوں سے نکالنا شروع کردیتا ہے جس سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے اور نوبت خود کشیوں تک آ پہنچتی ہے۔
اور یہی اس کرونا جیسی وبا میں کیپیٹلسٹ ریاستوں میں دیکھنے کو ملا۔ جہاں طبقات اور بنیادی ضروریات کی محرومی کی وجہ سے لوگوں نے ایک قوم کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ریاست کے مخالف سمت چلے اور ریاست ذریعہ پیداوار محدود لوگوں کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کا خیال رکھنے میں ناکام رہی اور ابھی تک اس وبا کی لپیٹ میں ہے۔
اس کیپیٹلسٹ معاشی نظام میں مرکزی حیثیت سرماے کو حاصل ہوتی ہے اور ہر کوئ اس کے حصول کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔
اور یہی اس عالمی وبا میں کیپیٹلسٹ ریاستوں میں دیکھنے کو ملا جہاں لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کی بجائے ان کا ہر ممکن استحصال کیا گیا۔ ماسک ناپید ہوگئے، کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہو گئیں سینیٹایزر مہنگے ہوگے۔ پرائیویٹ اسپتالوں نے مریضوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوے لاکھ لاکھ دس دس لاکھ کے بل بنائے اور ہرممکن سرمایا کمانے کی کوشش کی۔
کیپیٹلسٹ ریاستوں میں جہاں غریب کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا وہاں بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک سرمایہ داروں نے پہلے سے دوگنا چوگنا منافع کمایا۔
جبکہ اسکے برعکس سوشلسٹ ریاستوں میں ہر چیز کو مفت فراہم کیا گیا۔
اس کیپیٹلسٹ نظام میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مسلسل سرماے میں اضافے کی وجہ سے وہ چند لوگوں پر مشتمل سرمایہ دار گروہ ریاست سے بھی بڑا ہوجاتا ہے اور ریاستی اصولوں کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔
اس وقت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا کی آبادی میں ایک باریک تہہ کے پاس جو دولت کا ارتکاز ہے تاریخی طور پر انتہائی حدود کو چھو رہی ہے۔ دنیا میں موجود ایک فیصد امیر ترین افراد دنیا کی آدھی آبادی کے مالک ہیں۔
سرمایہ دار اور مالیاتی اشرافیہ جیسے جیسے دولت سے مستفید ہوکر اوپر کی چوٹی پر پہنچے ہیں ویسے ویسے دنیا کی بڑی آبادی کی غربت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ مشترکہ دولت محض چند ہاتھوں میں چلی گئی۔
اس لیے تمام کیپیٹلسٹ دنیا کو غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو انہیں اس طبقاتی نظام کو چھوڑ کر عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی سوشلسٹ نظام کو اپنانا ہوگا جس کے سود مند نتائج اس عالمی وبا نے واضح کردیے ہیں۔
موجودہ بڑے بڑے سماجی ایشوز جس میں بڑی سطح پر بے روزگاری، غربت، سماجی نابرابری، بنیادی جمہوری حقوق پر بڑھتے ہوے حملے،ماحولیاتی تباہی، نہ رکنے والی سامراجی فوجی جارحیت اور نیو کلیئر جنگ کا خطرہ۔
اس میں سے کوی بھی مسئلہ سرمایہ داری کے اس ڈھانچے میں حل نہیں ہو سکتا۔
بیشک کسی بھی سنجیدہ اصلاح کیلیے ضروری ہے کہ کم از کم بڑی نجی دولت کو ضبط کیا جاے اور اس دولت کو برابری کی بنیاد پر دوبارہ تقسیم کرکے سماج کیلیے سودمند بنایا جائے۔
جب تک سرمایہ دار طبقے کے پاس طاقت موجود ہے تب تک کوی بھی اصلاح ناممکن ہے۔
اس لیے کیپیٹلسٹ دنیا کو متبادل نظام کا سوچنا ہوگا جس طرح تنقید کے ہتھیار کو ہتھیار کی تنقید سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا مادی طاقت کو مادی طاقت سے ہی شکست دی جاسکتی ہے اسی طرح مسائل کے حل کیلیے ایک معاشی نظام کو دوسرے معاشی نظام کے ساتھ ہی بدلا جا سکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
اظہر حسن کے کالمز
-
آخر ایسا کیوں؟
ہفتہ 19 دسمبر 2020
-
حضرت محمدﷺ بطور انقلابی
اتوار 1 نومبر 2020
-
”سرمایہ دارانہ نظام آج کا طاغوت“
پیر 21 ستمبر 2020
-
"اسلام اور سوشلزم"
جمعرات 23 جولائی 2020
-
”کورونا اور سوشلسٹ و کیپیٹلسٹ ریاستیں“
منگل 23 جون 2020
-
انقلاب کب اور کیوں؟
پیر 15 جون 2020
-
وفاقی بجٹ 2020 -2021
ہفتہ 13 جون 2020
اظہر حسن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.