"اسلام اور سوشلزم"

جمعرات 23 جولائی 2020

Azhar Hassan

اظہر حسن

ازل سے ہی انسان کو معاشی اعتبار سے بہت سے مسائل درپیش رہے ہیں۔ ہر دور میں مختلف اقسام کے نظام تشکیل دیئے گئے  لیکن محنت کش طبقے کو مسائل کا سامنا ضرور رہا ہے اور چند افراد پر مشتمل ایک خاص طبقہ ظالمانہ نظام کے ذریعے محنت کش کو معاشی محرومی کا شکار کرکے ان پر اپنی خدائی  قائم  کرتا رہا ہے۔
اس لئے دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے انہوں نے سب سے پہلے ظلم پر مبنی طبقاتی نظام کو مٹا کر عدل پر مبنی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کی اور اس کے ذریعے محروم طبقے کو افلاس کے عمیق  گڑھے سے نکالا۔


حضرت محمدﷺ کی بعثت سے پہلے زمانہ  جاہلیت میں بھی کچھ طاغوتی قوتیں لوگوں کو مختلف مذاہب و فرقہ واریت میں مبتلا کرکے قتل و غارت کا بازار گرم  کرنے اور انسانوں پر اپنی ملوکیت قائم کرکے انکا معاشی استحصال  کرنے میں مصروف تھیں۔

(جاری ہے)


لیکن حضرت محمدﷺ نے اسی فرسودہ سماج سے باشعور افراد کو کھنگال کر اس نظام کے خلاف انقلاب لائے۔ اس انقلاب نے انسانوں پر سے انسانوں کی ملوکیت کو توڑ کر اور اس عالمی استحصالی نظام کو تہ و بالا کرکے عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی ایک معاشی عدل کا نظام قائم کیا جس نے پورے معاشرے کو پھلنے پھولنے اور  ارتقائ منازل طے کرنے میں مدد کی اور تقریبا گیارہ سو  سال تک اسی چمک دمک کے ساتھ معاشرے  میں قائم و دائم رہا۔


اسلام کے اسی قائم کردہ عدل و انصاف پر مبنی معاشی عدل کے نظام کو جدید سائنسی  اصلاح میں سوشلزم کہا جاتا ہے۔
سوشلزم میں بنیادی اہمیت محنت کو حاصل ہے اور تمام ذرائع پیداوار ایک خاص طبقے کے ہاتھ میں ہونے کی بجائے تمام انسانیت کیلیے ہوتے ہیں اور ہر شخص  کو بنیادی ضروریات(روٹی کپڑا مکان اور نکاح کی سہولیات) یکسر میسر ہوتی ہیں۔
اس نظام میں قران مجید کے اس حکم "ہر شخص کیلیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے" پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر شخص کو اسکی محنت کا پورا پورا حق دیا جاتا ہے اور معاشرے میں مساوات کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔


اس نظام میں تمام قوموں اور ثقافتوں کو عدل کی بنیاد پر ترقی کے تمام مواقع یکسر میسر ہوتے ہیں اور یہ ذاتی و  گروہی اور وقتی مفادات کو عالمگیر انسانیت کے عظیم الشان روشن  مستقبل کے مفادات پر قربان کرنیکا جزبہ پروان چڑھاتا ہے۔
جو قومیں اس جدید اصلاحی نظام کو اپناتی چلی گئیں وہ آسمان پر موجود روشن ستارے کی مانند چمکتی و دمکتی چلی گئیں اور جن قوموں نے اس سے دوری اختیار کی وہ زمانہ جاہلیت کی طرح غربت و افلاس اور گمراہی کے عمیق گڑھے میں خود کو دھکیلتی چلی گئیں۔


اگر اج ہم اپنے معاشرے کی عکاسی کریں تو اس میں موجود تمام برائیوں کی جڑ اس عدلی نظام کا رائج  نہ ہونا ہے۔
آج بھی مفاد پرست گروہ اور طاغوتی قوتیں زمانہ جاہلیت کی طرح لوگوں کو  گمراہ کرنے اس نظام کو لامزہبیت سے  جوڑ کر دونمبر اسلام پھیلا کر لوگوں پر اپنی خدائی قائم کرنے اور اپنے عزائم   میں کامیابی سمیٹنے میں مصروف ہیں۔
کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ رائج نظام معاشرے میں شعور کی بیداری کا کام کرے گا اور لوگ حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے انہیں صفحہ ہستی سے مٹاتے چلے جائیں گے  اور انکا نام و نشاں تک نہیں رہے گا۔


لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان طاغوتی قوتوں کے ہتھکنڈوں کو سمجھا جائے اور اس معاشرے میں امام شاہ ولی اللہ کے فکر و فلسفہ پر محیط معاشی عدل کا نظام (سوشلزم)  عمل میں لاکر قوم میں شعور و اگہی بیدار کرکے انہیں افلاس و تنگدستی اور ذلت امیز زندگی سے نکالا جائے۔
اگر اس نظام کو قبول کریں گے تو ہم کفر، ظلم، شرک اور غلامی کے خلاف ایک طاقتور قوم بن کر  معاشرے میں موجود ظلم کی تمام شکلیں مٹاتے چلے جائیں گے۔


اسی نظام کو اپناتے ہوئے   حضرت محمدﷺ نے معاشرے کی تقدیر بدل ڈالی اور اب یہ بنیادی اصول بن گیا ہے کہ اگر معاشرے میں ظلم, بربریت افلاس و تنگدستی اور معاشی استحصالی بڑھ جائے اور جہاں محنت کش کو اسکے حق سے محروم کیا جارہا ہو تو   تو ایک معاشی عدل کا نظام عمل میں لاکر ان برائیوں کا   صفایا کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :