اب کیا ہو گا

منگل 1 مئی 2018

Fakhir Abbas

سید فاخر عباس

یوں تو خان صاحب پہلے ہی دن سے اس بات کا دعویٰ کر رہے تھے کہ 29اپریل کو ہونے والا جلسہ تاریخی ہو گا۔اب کی بار مسٹر خان کے لہجے میں اتنا اطمینان تھا کہ اپنے پرائے ،چھوٹے بڑے،حامی مخالف سب ہی 29اپریل کا انتظار کرنے لگے۔میں اپنی شدید خواہش کے باوجود اس تاریخی جلسے کا عینی شاہد نہ بن سکا۔تا ہم میڈیا کہ آنکھ سے جو دیکھا وہ ناقابل بیان تھا،بے مثال تھا اور تاریخی تھا۔

2011کے جلسے کی طرح اس جلسے میں بھی اکثریت اس نوجوان نسل کی تھی جو عمران خان سے پہلے پاکستانی سیاست کو محض کار بیکار سمجھتے تھے۔ملک کے دور دراز سے آئے کارکنا ن نے جلسے کو رونق بخشی تو اہلیان لاہور بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔کسی نجی چینل نے جلسے کے شرکا کی تعداد 5لاکھ تو کسی نے 7لاکھ بتائی ۔

(جاری ہے)

وہ میڈیا ہاوس جسے تازہ تازہ رابطے بحال ہوئے تھے وہ بھی اس جلسے کے ڈرون شاٹس لے کر اسکو تاریخی ثابت کرنے میں لگا رہا۔

مخالفین اس بار جلسے میں شرکا کی تعداد کو جھٹلا نہ سکے تو لاہور کے باہر سے لوگ لانے کا راگ الاپنے لگے۔خیر جلسہ یقیناًتاریخی تھا ،بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان بھٹو کے بعد وہ پاکستان کے خوش نصیب سیاسی رہنما ہے جنہوں نے لوگوں کے اتنے بڑے اژدہام سے خطاب کیا۔مجھے شائد یہ رش ،یہ ہجوم ،یہ مجمع اتنا متاثر نہ کرتا کیونکہ یہ سب 2011میں بھی تھا اگرچہ اتنا بڑا نہیں تھا ۔

کل کے جلسے کی شاندار بات تحریک انصاف کے چئیر مین کا خطاب تھا۔خطاب سنا تو اندازہ ہوا کہ مسٹر خان کے لہجے کی متانت اور سنجیدگی بتا رہی تھی کہ وہ کسی بڑی ذمہ داری کے لیے خود کو تیار کرچکے ہیں ۔کچھ لطیف طبیعت کے لوگ تو تقریر سے پہلے ترانے کی دھن کو بھی خاص انداز سے دیکھ رہے ہیں۔نپے تلے الفاظ، مدلل بیانات اور جامع تقریر عمران خان کے روایتی اوئے توئے اور تو تکار والے لہجے سے کوسوں دور تھی۔

کپتان کے 11نکات بتا رہے تھے کہ وہ قوم کی آواز اور ضرورت سمجھ چکے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اس جلسے سے کیا تبدیلی آئے گی ،ایسا جلسہ نہ سہی لیکن ایک شاندار جلسہ تو عمران خان 2011میں بھی کر چکے ہیں۔اتنا بڑا جلسہ کرنا بلاشبہ خود میں ایک کمال ہے لیکن عوام کو جلسہ گاہ سے پولنگ بوتھ تک لانا ایک مکمل سائنس ہے۔عمران اس سائنس کو کتنا سمجھ پائے ہیں یہ تو انتخابات کا نتیجہ ہی بتائے گا۔

مسٹر خان کے ناقدین کچھ کچھ گھبرائے ہوئے ہیں تو کچھ کچھ مطمئن ۔مطمئن مخالفین 2011کے جلسے کو حوالہ بنا کر مطمئن ہیں کہ شائد انتخابات میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑے گا مگر اس مرتبہ عمران خان کو آسان حریف تصور کرنا سیاسی خود کشی ہوگی۔مخالفین کو سمجھنا چاہیے کہ آج کی تحریک انصاف نہ تو 2011کی تحریک انصاف ہے اور نہ ہی آج کا عمرا ن خان 2011کا عمران خان ہے۔

آج کی تحریک انصاف کے پاس ایک صوبے کی گورننس کا تجربہ ہے تو دوسری طرف عمران خان بھی روایتی سیاست کے چال چلن سمجھ چکے ہیں۔ایک سال میں بڑے بڑے سیاسی کھلاڑیوں نے جیسے اپنی سیاسی وفاداریاں عمران خان کی جھولی میں ڈالیں ہیں اسکی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ان کو انتخابات جیتنے والے ناموں کو قبول کر کے عمران خان نے بھی بتا دیا ہے کہ وہ بھی روایتی سیاست کرنا جانتے ہیں۔


عام انتخابات میں تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن کیا ہو گی اس کے لیے ہمیں مسٹر خان کے سیاسی مخالفین اور انکی سیاسی پوزیشن کا جائز لینا ہوگا۔بلا شبہ اس وقت 3 سیاسی جماعتیں ہی پاکستان کے سیاسی افق پر چھائی ہوئی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی جو شائد صرف سندھ تک محدود ہے اور آئندہ انتخابات میں بھی سندھ تک ہی محدود رہے گی۔مسلم لیگ ن اس وقت مختلف تنازعات میں گھری ہوئی ہے،مرکزی قیادت کرپشن کے مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے تو اندرونی بیرونی خلفشار نے بھی حکمران جماعت کی جڑیں ہلا دی ہیں۔

رہی سہی کسر ختم نبوت پر اٹھنے والے طوفان نے پوری کر دی ہے ۔بڑے بڑے ناموں نے مسلم لیگ ن سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تو چوہدری نثار بھی خفا خفا ہیں ۔اس سب کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ ن ایک کمزور سیاسی جماعت میں ہے تو ایسا خیال رکھنا بھی احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترداف ہے۔مسلم لیگ ن ابھی بھی پنجاب میں ایک شاندار سیاسی قوت ہے اور ملکی سیاست میں جو کردار پنجاب کی سیاست کا ہے اسکو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ گرتی پڑتی مسلم لیگ ن بھی اپنے حریفوں کو انتخابات میں زبردست مات دے ڈالے۔
اس ساری صورتحال میں انتخابات کے بعد بننے والا منظر نامہ کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس سب کے باوجود ملک میں سب سے زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہو جائے مگر مسلم لیگ ن کسی صورت بھی اتنی نشستیں حاصل نہیں کر سکے گی کہ خودمختار حکومت بنا سکے ۔

پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی قوت ہونے کا اعزاز بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے چھین لے گی۔یوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف چوٹی کی سیاسی طاقتیں بن کر ابھریں گی۔پیپلز پارٹی اس ساری صورتحال میں تیسری سیاسی قوت بن کر ابھرے گی اور وہ بھی سندھ کی وجہ سے۔اس کے علاوہ آزاد امیدواروں ، تحریک لبیک ،پی ایس پی بھی اہم رہیں گی۔ان حالات میں ایک بات تو طے ہے کہ اگلی حکومت مخلوط ہو گی۔

چاہے وہ ن کی ہویا تحریک انصاف کی۔انتخابات کے نتیجے میں تین صورتیں باقی رہ جائیں گی۔اول یہ کہ مسلم لیگ ن اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا لے مگر اس کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں اسکی راہ میں رکاوٹ بنیں گی اور مسلم لیگ ن شائد حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہو پائے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ عمران خان ،پیپلز پارٹی اور چھوٹے سیاسی دھڑوں کے ساتھ ملکر حکومت بنا لیں لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ زرداری عمران کا کمبی نیشن عمران خان کے لیے ایک ایسا خود کش حملہ ہو گا جس سے وہ ہر صورت بچنا چاہیں گے۔

آخری اور تیسری صورت وہی فارمولہ ہوگا جو سینیٹ الیکشن میں استعمال ہوا کہ چھوٹے اور پسماندہ صوبے کے نام پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل جائیں یوں عمران زرداری کمبی نیشن بھی نہیں بن پائے گا اور مسلم لیگ ن بھی بر سر اقتدار نہیں آپائے گی لیکن اس کے لیے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے گا جبکہ اہم عہدے اور وزارتیں تحریک انصاف کے پاس رہیں گی۔

ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو کسی متبادل عہدے سے نواز کر انکی تشفی کر دی جائے جبکہ مسلم لیگ ن اپوزیشن میں بیٹھے۔اس صورتحال پر عمران خان کو بادل نا خواستہ راضی ہونا پڑے گا جیسے وہ سینیٹ الیکشن میں ہوئے لیکن یہ فارمولا ان قوتوں کے لیے انتہائی قابل قبول ہوگا جنہوں نے مسلم لیگ ن کو اقتدار میں نہ دیکھنے اور پس دیوار لگا نے کا فیصلہ کر لیا۔موجودہ سیاسی صورتحال کے مطابق انتخابات کے بعد کے حالات اس سے زیادہ مختلف نہ ہو گے تاہم یہ بات طے ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد تحریک انصاف طاقت میں ہو گی ۔یہ سب دیکھنے کے لیے انتخابات کا انتظار کرنا ہو گا کیونکہ اب کیا ہوگا ،اسکا فیصلہ کرنے کا حتمی حق عوام کے پاس ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :