ریت کی ٹرالیوں پر ترپال، کچرے سے بھری ٹرالیوں کے کھلے دروبام

منگل 3 مارچ 2020

Fayyaz Mehmood Khan

فیاض محمود خان

انسان جب اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے تو اس کے فیصلوں میں مضحکہ پن آنے لگتاہے، کم عقل لوگ اس کے مشیرخاص ہوتے ہیں اور واہ واہ کی گردان میں سبقت لے جانے کی کوشش میں اپنے آقا کی لٹیا ڈبودیتے ہیں، ان باتوں کی تمہید کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم کسی پرانے دور کے قصے کو دہرانے کی کوشش کررہے ہیں، یہ عصر حاضر کے واقعات اور ایسے مضحکہ خیز فیصلوں کے لیے تمہید باندھی گئی ہے،جس پر ارباب اختیار کو کم از کم ایک بار ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا وہ واقعی عقل کل ہیں یا ایسے ہی مشیروں کے نرغے میں رہ کر جگ ہنسائی کا باعث بنیں گے جنہیں صرف اپنی نوکری بچانے کے لیے ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنی پڑتی ہیں۔


تعمیراتی میٹریل کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی پاکستان بھر میں ہمیشہ سے ہی مسائل کا باعث رہی ہے اور بہت کم ایساہواکہ منتقلی کے دوران کوئی خونی حادثہ پیش نہ آیا ہو،میٹریل میں زیادہ تر ریت،مٹی اور اینٹیں شامل ہیں،میٹریل کے خریدار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی چکر میں ٹرالی پر زیادہ سے زیادہ مال بھرکر تعمیراتی مقام پر پہنچائے تاکہ وقت اور رقم کی بچت ہو جبکہ ٹریکٹر ٹرالی کے مالک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک چکر لگانے کی بجائے دوتین چکر میں سامان لے جائے تاکہ اسکے کرایہ میں اضافہ ہو مگر ایسا بہت کم ڈرائیور کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈرائیوروں کو ایک ہی چکر لگانا زیادہ پسند ہے اور وہ اس ایک چکر لگانے کے چکر میں اپنی ٹرالی کو اس قدر بھر لیتے ہیں کہ حادثے کا امکان 99فیصد رہتاہے۔
ٹریکٹر ٹرالی کے ڈرائیورز کے دوہی شوق ہیں ایک اونچی آواز میں ٹیپ ریکارڈ پر گانے سننا اور دوسرا تیزرفتاری سے ٹریکٹر بھگانا،جس سے ہوتایہ ہے کہ متعددمقامات پر تعمیراتی میٹریل گرنے سے ٹریکٹر ٹرالی کے قریب سے گزرنے والے افراد حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں، اسی طرح اگر ٹرالی میں ریت یا مٹی بھری ہوئی ہوتو گاڑی کی اچھل کود سے ریت آغاز سفر سے اختتام سفر تک اپنی نشانی چھوڑتی جاتی ہے اصل مقام پر پہنچتے پہنچتے ریت کی ٹرالی آدھی رہ جاتی ہے جو ریت خریدنے والے کے لیے نقصان کا باعث ہے مگر جگہ جگہ ریت گرنے سے،اڑنے سے لوگوں کو جس قدر پریشانی اور مشکلات کاسامنا کرناپڑتاہے اس سے ٹریکٹر ٹرالی کے ڈرائیور کو قطعاً کوئی غرض نہیں ہوتی اور مالک کو مزید میٹریل خریدنا پڑتا ہے۔

 انہی مشکلات کو دیکھتے ہوئے پنجاب بھر میں سوموٹو ایکشن لیا گیا اور دفعہ 144نافذ کرتے ہوئے ہدایات جاری کردیں کہ شہر یا کسی بھی مقام پر بلڈنگ میٹریل کی بغیرحفاظتی اقدامات کے ترسیل غیرقانونی ہوگی اور ٹریکٹرٹرالی کے ڈرائیور یا مالک کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا ئے، اب دیکھنے میں آیاہے کہ ریت ہو یا اینٹیں اسے ایک بڑے ترپال سے ڈھانپ کر لے جایاجارہاہے جو شہریوں کے لیے ایک اچھا اقدام ہے اور لوگوں نے اس اقدام کو سراہابھی ہے اور سب سے زیادہ تعریفیں عصرحاضر کے خاص مشیروں نے کیں، مگر دوسری طرف شہر بھرمیں کیا ہورہاہے اس پر انتظامیہ نے اپنی آنکھیں،کان اور ناک بند کررکھی ہے۔

 
مشیر خاص بھی خاموشی کو توڑنے کے لیے راضی دکھائی نہیں دیتے،ٹرالیوں پر ترپال ڈالنے یا انہیں اچھی طرح پیک کرکے سامان کی ترسیل سے حادثات میں کمی ہوئی مگر شہر بھر سے بدبو،تعفن اور بیماریاں پھیلاتی ہوئی زناٹے سے گزرنے والی کچرے سے بھری ٹریکٹرٹرالیوں پر آج تک کسی ضلعی آفیسر، تحصیل آفیسر، عوامی نمائندوں کی نظر نہیں پڑی اور نا ں ہی این جی اوز،سماجی تنظیموں،سیاسی تنظیموں، مذہبی تنظیموں یا لوگوں نے کبھی آواز نہیں اٹھائی، بلکہ ٹی ایم اے کا عملہ صفائی شہرکی مختلف سڑکوں خصوصاً سرکاری دفاتر کے اردگرد کی تمام سڑکیں شیشے کی طرح چمکاتے نظرآتے ہیں اور وہاں سے جمع ہونے والا تمام کچرا ہتھ ریڑھیوں،گدھاریڑھیوں پر لادکر شہر کی مصروف ترین ریلوے گودام روڈ پر بیچوں بیچ پھینک کر چلے جاتے ہیں اور کچرا یہاں تک پہنچانے کے دوران ان ریڑھیوں سے جگہ جگہ کچرا گرکے سڑک کنارے پھیل جاتا ہے جسے دوبارہ اٹھانے کی قطعاً کوشش نہیں کی جاتی۔

 کچرا کئی روز بعد دوتین خستہ حال ٹرالیوں پر لادا جاتاہے اور اس دوران ٹریفک کی روانی بھی جاری رہتی ہے،کچرا لادنے کے دوران ہواسے اڑنے والا کچرا راہگیروں،موٹرسائیکل سواروں، کارسواروں پر بھی اکثر اوقات گرجاتاہے جس پر ندامت کی بجائے عملہ صفائی منہ بسور لیتے ہیں۔ کچرا ٹرالیوں پر لادنے کے بعد دوسرا مرحلہ کچرے کو ڈمپ کرنے کا شروع ہوتاہے جس کے لیے کارپوریشن عملہ کو خاصی ”محنت اور مشقت“ اٹھانی پڑتی ہے، ان ٹرالیوں پر اس قدر کچرابھرلیا جاتاہے کہ جوں ہی روانہ ہو تی ہیں کچرے کی ڈھیر گرنا شروع ہوجاتے ہیں جو سڑک پر کم اور لوگوں پر زیادہ گرتا ہے،جگہ جگہ کچرا گراتی یہ ٹرالیاں جہاں سے گزرتی ہیں شدید بدبو،تعفن اور بیماریاں پھیلاتی جاتی ہیں،پھر ان ٹرالیوں کو آبادی والے حصوں میں ایسی جگہ جہاں خالی پلاٹس ہوں یا روڈ کے کنارے ڈھیر لگادیے جاتے ہیں، ان علاقوں میں رہنے والے لوگ صبح،دوپہر شام گندگی سے اٹھنے والی بدبو،تعفن اور بیماریوں سے ”لطف اندوز“ ہو کر بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں جس پر ناتو ضلعی انتظامیہ ہی نادم دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کارپوریشن انتظامیہ کو کوئی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔

 سوچنے کی بات یہ ہے کہ ریت اور اینٹوں کی ٹرالیوں پر ترپال ڈال دی گئی ہے مگر جو بیماریاں پھیلانے کا موجب کچرے کی ٹرالیاں ہیں انہیں کوئی حفاظتی بندباندھنے کو تیار نہیں، آخریہ سلسلہ کب تک چلتارہے گا۔ کیا ضلعی و تحصیل انتظامیہ اپنے آپ کو آسمانی مخلوق تصور کرتے ہیں کہ انکی رہائش گاہیں اور اردگرد کا ماحول صاف کرکے رہائشی علاقوں کو فلتھ ڈپو میں بدل دیاگیاہے کیا باقی تمام لوگ کیڑے مکوڑے ہیں جن کا صاف ماحول، صاف پانی یا صاف رہائشی علاقوں پر کوئی حق نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :