سب قصوروار ہیں۔۔

پیر 7 دسمبر 2020

Hassaan Shah

حسان شاہ

اگر ہم غور کریں تو حاجیوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں دوسرےنمبر پر ہے اور عمرہ ادا کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نبمر پر ہے جبکہ دنیا بھر میں ایمانداری کے انڈیکس کے مطابق پاکستان  ایک سو ساٹھ ویں نمبر پر ہے، یہ اعداد و شمار اپنی جگہ بلکل ٹھیک ہے ایمانداری کی اِس دوڑ میں ہم کیوں اتنا پیچھے کیوں رہ گۓ وجہ صاف ظاہر ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں جیسے کہ پانچ سو بجلی کے یونٹس کو پندرہ سو یونٹس لکھنے والا میٹر ریڈر، خالص گوشت کے پیسے وصول کرکہ ہڈیاں بھی ساتھ تول دینے والا قصاب، نہائتی خالص دودھ کا نعرہ لگا کر دودھ میں پاؤڈر پانی کی ملاوٹ کرنے والا وہ عظیم دودھ فروش، بے گناہ کی ایف آئ آر میں دو مزید ہیروئین کی پُڑیاں لکھنے والا انصاف پسند ایس ایچ او، چوراہوں پر عوام سے چاۓ کے نام ہر پیسے لینے والا پولیس اہلکار، گھر بیٹھے حاضری لگوا کر حکومت سے تنخواہ لینے والا مستقبل کی نسل کا معمارِ استاد، بسم اللہ جنرل سٹور، ماشاءاللہ جنرل سٹور، مکہ مدینہ کی طرز پر نام رکھنے والا  دیندار دکاندار جو ناپ میں کمی بیشی کرکے پیسے  وصول کرتا ہے اور منافع کا نام دیتا ہے، دوسروں کا حق کم کرکے پورے پورے پیسے وصول کرنے والے کریانہ سٹور کے حاجی صاحب، محض صرف سوو روپے رشوت لینے والا عام سا سپاہی، معمولی سی رقم کے لئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والا باوقار وکیل، یہ ہی نہیں دس بیس روپے کے سودا سلف میں سے ایک روپیہ غائب کرنے والا معصوم بچہ، افسر کو مٹھائ دے کر چھٹی حاصل کرنے والا عام سا چپڑاسی، کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں میں میچ فکسنگ کرکے ملک کا نام بدنام کرنے والے کھلاڑی، ساری رات فلمیں اور گیمز کھیل کراذانِ فجر کی اللہُ اکبر سُن کر سونے والے ہم نوجوان، کڑوروں کے بجٹ میں ہیرا پھیری کرکے دس لاکھ کی پختہ سڑک بنانے والا ایم این اے اور ایم پی اے صاحب، یہی نہیں لاکھوں کا غبن کرکے دس ہزار کا ہینڈ پمپ لگانے والا جابر ٹھیکیدار، دو بوری سیمنٹ کا بول کر آدھی لگا کر باقی غائب کرنے والا سول انجینئر،فصل اگانے کے لئے بھاری بھرکم سود پرقرضہ دینے والا ظالم چوھدری صاحب، زمین کے حساب کتاب اور پیمائش میں کمی کرکے اپنے بیٹے کو حرام مال کا مالک بنانے والا پٹواری اور لینڈ ریونیو آفیسر، دوائیوں اور لیباٹری ٹیسٹ پر کمیشن کی طور پر عمرہ ادا کرنے والے ڈاکٹر صاحب، اپنے قلم کو بیچ کر پیسے کمانے والا لفافہ صحافی جس کی زندہ مثال حال میں سب نے دیکھ لی، مسجد کے چندے کے نام پر بیٹوں کی شادیاں کروانے والے عزت مآب مولوی صاحب، یہ ہی نہیں سود کے معاملے میں نرمی پیدا کروانے والے ہمارے ملک کے نگہبان، نذرانوں کے نام پر جائدادیں بنانے والے محترم پیر صاحبان، ذاتی مفاد کے لئے ملزم کے حق میں فیصلہ سنانے والا بظاہرانصاف کے علمبردار جج، چند پیسوں کے لئے بلکہ اگر یوں لکھوں کہ چند ٹکوں کے لئے اپنا ایمان فروخت کرنے والے غیور سیاست دان، کرسی بچانے کی خاطر دینی، فقہی مسائل میں نہ بولنے والے علما حضرات، پرانے اور باسی کھانے کو تازہ کہہ کر بیچنے والے ریسٹورنٹ مالکان، غلاظت سے بنے کوکنگ آئل کو انتہائ حفظانِ صحت کے عین مطابق بتانے والی آئل کمپنیاں ایسے اور بہت سی زندہ مثالیں موجود ہیں  جن کی بنا پر ہم ایمانداری کی شرح میں بہت پیچھےرہ گئے ہیں۔

(جاری ہے)

جب ہر کوئ کشتی میں اپنے حصے کا سوراخ کر رہا ہو تو پھر یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ فلاں کا سوراخ میرے سے بڑا تھا اس لئے کشتی ڈوب گئ در حقیقت سب ہی قصور وار ہوتے ہیں۔ اور آخر میں اردو کا وہ مشہورِ زمانہ محاورہ کہ چور کی داڑھی میں تنکا، یہ باتیں اُنہیں اشخاص کی طبیعتوں پر گراں گزریں گی جو ایسے کاموں میں مصروفِ عمل ہیں ورنہ اگر دیکھا جاۓ تو اِس سے نصیحت بھی حاصل ہوتی سب کی اپنی اپنی سوچ کا معیار ہے کون اسے کِس زُمرے میں پڑھتا ہے اور کون کِس زُمرے میں۔ ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے نہ کہ ایسے سسٹم کا حصہ بن جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسے بھارت ایشیا کے کرپٹ ترین ممالک میں سر فہرست ہے ہم دوسرے پر آجائیں۔۔۔۔۔سوچیے گا ضرور مگر خندہ پیشانی سے تنگ نظری سے نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :