راہِ تصوف اور یونس ایمرے

بدھ 16 دسمبر 2020

Hassaan Shah

حسان شاہ

ترکوں کے ہاں تصوف ماضی سے اب تک اسی طرح زندہ ہے اور ان کی دینی تعلیمات اس کے بغیر ادھوری ہیں۔
ترک تصوف پہ مولانا رومؒ اور یونس ایمرے کی گہری چھاپ ہے کیونکہ ان دو شخصیات نے ترکوں کی مذہبی، روحانی،سیاسی اور معاشرتی اساس پہ گہرا اثر چھوڑا۔مولانا رومؒ نے ترک اشرافیہ کو اپنی تعلیمات سے متاثر کیا اور ان کا کلام بادشاہوں، وزراء و امراء میں عام ہوا یا دوسرے لفظوں میں مولانا رومؒ نے اناطولیہ (ترکی) کے اونچے طبقے کو مخاطب کیا جبکہ یونس ایمرے اناطولیہ (ترکی) کے نچلے طبقے سے مخاطب ہوئے اور کسانوں،مزدوروں، دیہاتیوں کے اصلاح حال پہ توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری نے اس طبقے کو متاثر کیا یوں یہ دونوں شخصیات اناطولیہ (ترکی) کی مذہبی اور معاشرتی شناخت کا باعث بن گئیں ان کا کلام اور تعلیمات زبان زدِ عام ہوئیں اور وہ لوگوں کے ذہن و دل میں سرایت کرگئیں۔

(جاری ہے)


یونس ایمرے ترکی کے قومی شاعر اور ایک عظیم صوفی بزرگ کے طور پہ جانے جاتے ہیں۔ یونس ایمرے 1238ء میں اناطولیہ (ترکی) میں پیدا ہوئے یہ دور مولانا رومؒ کی جوانی اور ان کے عروج کا دور تھا مگر دوسری طرف عالم اسلام کے شدید انتشار کا دور تھا۔ منگول عالم اسلام میں سرایت کرچکے تھے اناطولیہ (ترکی) پہ قائم سلجوق سلطنت منگولوں کے ہاتھوں ختم ہونے قریب تھی اور دوسری طرف ارطغرل غازی اناطولیہ کے مغرب میں جدوجہد کر رہے تھے۔


اناطولیہ میں منگولوں کے ہاتھوں اسلامک لٹریچر شدید متاثر ہوچکا تھا ایک طرف اسلامی روحانی اساس کو مولانا رومؒ سہارا دے رہے تھے تو دوسری طرف ان کے رفیق اور خاص دوست شیخ صدر الدین قونویؒ اور بعد میں اسی سلسلے کو تاپتک ایمرے اور یونس ایمرے نے آگے بڑھایا۔ پرانی ترکی زبان میں یونس ایمرے کی لوک شاعری ہر سو پھیلی اور اس نے عام آدمی تک عشق حقیقی کا پیغام پہنچایا اور ان کے دلوں کو محبت الٰہی سے روشن کیا۔

یونس ایمرے   کی موجودہ دور میں کتاب کے ذریعے علم کا حصول ناپید ہوچکا ہے جدید دور میں میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا نے علم سے زیادہ انفارمیشن کو عام کردیا اور اب کچھ بھی دیکھنے سیکھنے اور سمجھنے کے لئے میڈیا کا سہارا ہی لیا جاتا ہے۔
تصوف سیکھنے یا سمجھنے کی بجائے طاری ہونے والی کیفیت کانام ہے۔ کتب یا میڈیا کے ذریعے اس کا حصول تو ممکن نہیں ہاں مگر اس راہ کا تعارف ضرور ان ذرائع سے حاصل ہوسکتا ہے۔

مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے موجودہ دور میں کتاب سے کچھ سیکھنے کا رواج کم ہوچکا اور لوگ میڈیا کی جانب راغب ہوگئے تو ایسے میں میڈیا کے اندر بھی اس حوالے سے کسی ایسے انقلاب کی ضرورت تھی جو مسلمانوں کو ان کی گمشدہ میراث تصوف سے تعارف کرواتا اور انہیں راہ تصوف کا حقیقی فہم دیتا۔
بالآخر یہ کام بھی ترکوں کے حصے میں آیا۔
سب سے پہلے تو مشہور ترکش سیریز درلیس ارطغرل میں ارطغرل غازی کے مرشد شیخ ابن العربیؒ کی شخصیت کا خوبصورت تعارف کروایا گیا جو کسی تعارف کے محتاج نہیں مگر عالم اسلام کی یہ عظیم شخصیت اغیار کی سازشوں کے باعث وقت کی گرد میں گم ہوچکی تھی اور صرف اہل علم ہی ان کے مرتبے اور خدمات سے واقف تھے مگر اس سیریز نے ان کی شخصیت اور کارناموں کو دور جدید میں نہ صرف زبان زدِ عام کیا بلکہ ان کا ایک خوبصورت تعارف بھی ثابت ہوئی۔

اسی طرح ترکی میں یونس ایمرے پہ ایک خوبصورت ڈرامہ سیریل ترتیب دی گئی جس میں یونس ایمرے کی مکمل زندگی اور ان کے راہ تصوف پہ سفر کی داستان کو مکمل فلمایا گیا۔یہ ڈرامہ سیریل 2019ء میں ترکی کے چینل ٹی آر ٹی پر نشر کیا گیا جو نہ صرف ترکی بلکہ کئی،دوسرے ممالک میں بھی مشہور ہوا۔
"یونس ایمرے" ایک قاضی کی داستان ہے جو قونیہ کے ایک اعلیٰ مدرسے سے شریعت کا علم حاصل کرتا ہے اور اسے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اناطولیہ (ترکی) کے ایک قصبے نالیحان کا قاضی تعینات کیاجاتا ہے۔

قاضی یونس اہل طریقت اور خانقاہوں کا سخت مخالف ہوتا ہے اور اس کے خیال میں خانقاہوں میں ان پڑھ لوگ لوگوں کی گمراہی کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔ نالیحان کی جانب سفر میں یونس کی ملاقات ایک بزرگ تاپتک ایمرے سے ہوتی ہے جو دراصل شیخ تاپتک ایمرے تھے ان کے ساتھ سفر اور بعد ازاں چند ملاقاتوں اور کچھ واقعات سے قاضی یونس کو ادراک ہوتا ہے کہ جو علم اس نے حاصل کیا اور جو منصب اس کے لئے باعث فخر و اعزاز ہے وہ سب تو دراصل نامکمل اور ادھورا ہے اصل علم تو کچھ اور ہے جس کا ادراک اسے نہیں تو بس وہ اس پوشیدہ علم کے حصول کے لئے منصب قضاء چھوڑ کر شیخ تاپتک ایمرے کے قدموں میں جا بیٹھتاہے اور یہاں سے اس کا سفر طریقت شروع ہوتا ہے جو حقیقت کا سفر ہے۔


اگر آپ تصوف و روحانیت کے متعلق جاننا چاہتے ہیں کہ یہ راہ کیا ہے تو "یونس ایمرے" دیکھ لیں۔
یہ دین کا وہ شعبہ "احسان"ہے جس کا ذکر واضح طور پہ حدیث جبرائیل میں آیا ہے اور جس کے بغیر دین ادھورا ہے۔
تصوف دراصل باطن کی تربیت اور نیت کی اصلاح کا نام ہے تصوف زندگی میں اللہ کو ترجیح اول بنا لینے اور اس کی مکمل رضا کے حصول کا نام ہے۔


اللہ نے "نفس مطمئنہ" سے جنت کا وعدہ فرمایا تو نفس مطمئنہ کیا ہے اور نفس امارہ سے نفس مطمئنہ تک کا سفر کس سفر کانام ہے آج اس سے کوئی واقف نہیں حالانکہ یہی حقیقت کا سفر ہے اور نفس مطمئنہ کے حصول کے بغیر آخرت کی کامیابی ممکن نہیں اور شیخ کامل کے بغیر نفس مطمئنہ کا ادراک اور حصول ممکن نہیں ہے۔ شیخ کا ہاتھ اور ذکر الہی کی مشعل تھام کر نفس کی گھاٹیوں اور اندھیروں سے گزر کر حقیقت کی روشنی تک کا راستہ کیا ہے اگر آپ اس سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو "یونس ایمرے" دیکھ لیں۔


"یونس ایمرے" بلاشبہ ایک شاہکار ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہماری متاع گم گشتہ کیا ہے ہمارے اسلاف کس طریق پر قائم تھے اور آج ہم کس طرف نکل آئے ہیں اور حقیقت کا سفر کیا ہے۔ یہ ڈرامہ چونکہ تصوف و روحانیت اور عشق حقیقی پہ مبنی ایک  سچی داستان سے متعلق ہے تو عام ذہن کے لئے اس کا فورا سمجھ میں آنا اور اس میں دکھائے جانے والے اکثر مناظر کا مکمل فہم حاصل کرنا یا اس میں استعمال ہونے والی تصوف کی اصطلاحات کا علم ہونا ممکن نہیں تو یہ سیریل آپ کو کسی ایسے شخص کی راہنمائی میں دیکھنا چاہیے جو یا تو خود راہ تصوف کا مسافر ہو یا کم از کم اس کا علم رکھتا ہو تو ہی اس سیریل کا حقیقی مقصد آپ حاصل کرپائیں گے وگرنہ یہ محض ایک ڈرامہ بن کر ہی رہ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :