وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ کیلئے

جمعہ 5 اکتوبر 2018

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہم اہل جنوبی پنجاب قومی سطح پر درآمد شدہ خوشگوار ” تبدیلی“ کو اپنے لیے نیک شگون اس لیے خیال کرتے ہیں کہ اس سے برآمدہ وزارت اعلیٰ ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں ہے۔ کپتان جی کی حکومت کی طرف سے عطا کردہ وزیراعلیٰ سے اتنا تو ممکن ہوا کہ طاقت کا مرکز لاہو ر سے منتقل ہو کر تونسہ آن پہنچا جس کیلئے ہمیں انکا ممنون ہونا ہے ۔گمان ہے کہ ” تخت لاہور “سے چھٹکارا کی جو گردان اس خط میں کی جاتی رہی اس میں لازم کچھ نہ کچھ تو قف ضرور آئے گا اور یہ بھی توقع ہے کہ محترم عثمان بزدار اختیارات سمیت براجمان ہوں گے اور ان محرومیوں کے ازالہ کیلئے کوشاں بھی جسکی بازگشت جنوبی پنجاب میں کئی دہائیوں سے سنی جارہی ہے۔


ناقدین کا خیال ہے کہ وزارت اعلیٰ کا یہ ” تحفہ “ مقتدر قوتوں کی دین ہے جو وقتی طور پر الگ صوبہ کے مطالبہ کی شدت میں کمی لانے کے خواہاں ہیں۔

(جاری ہے)

نئے صوبہ کے قیام کیلئے جو آئینی جتن کرنا مقصود ہیں نوزائیدہ حکومت بھاری اپوزیشن کی موجودگی میں اسکی متحمل نہیں ہوسکتی اس لئے کمیٹی بنانے کا روایتی چلن روا رکھ کر وزارت اعلیٰ اس خطہ کے نام کی گئی ہے۔


محترم وزیراعلیٰ پنجاب بھی دیگر وزراء کرام کی طرح ”کپتان کے وژن “کی مالا جپتے ر ہتے ہیں اور اسکے اطلاق کے لیے پر جوش اور متحرک بھی ہیں ۔سادگی اختیار کرنے سے لیکر بدعنوانی کے خاتمے تک کے ایجنڈا کی تکمیل انکی ”گورننس “کا سلوگن ہوگا ،تحصیل ناظم کے طور پر انتظامی تجربہ رکھنے والی اس” سادہ شخصیت “سے عوام نے بھاری بھر امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔

انکی سرگرمیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ جنوبی پنجاب کے سپوت ہونے کے ناطے” وسیب “کی عوام کو مایوس نہیں کریں گے بات کفایت شعاری اورسادگی کی چل نکلی ہے تو ہم انکی توجہ اس فضول خرچی کی جانب مبذول کروانا اپنا اخلاقی اور قومی فریضہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے اصل محرک ملک و قوم کے لئے دردرکھنے والی حلقہ احباب میں سے اک معتبر شخصیت انجینئر محمد ذوالفقار گجر کی ہے جو اک سربراہ ادارہ بھی ہے شادی کی اک نشست میں انہوں نے اس موضوع پر قلم آزمائی کی دعوت دی تھی۔


امر واقعہ یہ ہے کہ اس فضول خرچی کا تعلق جنوبی پنجاب کے بڑے پروجیکٹ میٹروبس سروس سے متعلقہ ہے ۔مدینہ الاولیاء کی سرزمین پے جب میٹرو بس سروس لانے کی تیاریاں ہورہی تھیں تو اس وقت ہی اسکی مخالفت کا آغاز ہوگیا تھا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی وہ مٹی اہل ملتان کے حلق سے نیچے نہیں گئی تھی جو سابق وزیراعظم سید جی کے عہد میں سڑکوں کی اکھاڑ پچھاڑ سے اڑتی رہی اور اس کے نتیجہ میں بھاری بھر اونچے نیچے پل تعمیر ہوئے اور نئی دورویا شاہراہیں نئے پھولوں اور درختوں کے ساتھ وجود میں آئیں۔

شہر کے باسی خیال کرتے تھے گرد سے بدنام شہر زمانہ کے باسی پھر مٹی پھانکنے کی مشقت اٹھاہیں گے۔عوامی نوعیت کے اس منصوبہ اور جدید بس سروس کی اہمیت اور افادیت سے تو کوئی کافر انکاری نہیں تھا البتہ اس منصوبہ کے سیاسی ہونے پر سب کو تحفظات تھے اور بالآخر بلی اس وقت تھیلے سے باہر آگئی جب اسکے ٹریک کی بنیاد رکھی گئی۔ قرائن بتاتے تھے کہ مخصوص طبقات کو نوازنے کی سیاسی مشق اک بار پھر دہرائی جارہی ہے ،18 کلومیٹر کا یہ ٹریک 28 ارب کی زائد لاگت سے پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔


عمومی طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس منصوبہ سے عوام کی کتنی تعداد مستفید ہوسکتی ہے، اس ضمن میں سروے بھی کرایا جاتا ہے ما،ہرین کی آراء حاصل کی جاتی ہیں تاکہ قومی سرمایہ کے ضیاع کو ہر ممکن روکا جاسکے، میٹروبس سروس کے حوالہ سے کم از کم یہ مشق نہیں کی گئی اگر کہیں ہوئی بھی تو وہ بھی بند کمرے میں جس سے سماج کا بڑا حصہ لاعلم رہا۔مخالفین کی بات میں بھی اک وزن تھا ان کاخیال تھا کہ اگر اسکا روٹ عوامی مقامات کوسامنے رکھ کر مرتب کیاجاتاتو نتائج یکسر مختلف ہوتے، ریلوے اسٹیشن، ایر پورٹ ، ہائی کورٹ ، نشتر ہسپتال ، کچہری تک رسائی سے عام آدمی زیادہ فائدہ اٹھاسکتا تھا ۔

اس پروجیکٹ کے ذریعہ یونیورسٹی طلباء وطالبات کے جس ” جنون“ کو شکست دینے کی خاطر روٹ طے ہوا اس میں سابقہ سرکار مکمل ناکام دکھائی دی انتخابی نتائج نے اس پے شہادت ثبت کردی۔
اب تک کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ملتان کی میٹروبس بڑا بزنس کرنے میں کامیاب نہیں رہی بلکہ اس کا بوجھ تاحال اداروں ہی کو اٹھانا پڑرہا ہے اس ناگہانی صورت حال نے متعلقین کی نیندیں حرام کردیں۔

بڑے بڑے دماغ سرجوڑ کر بیٹھنے اور سپیڈو بس سروس کے اجراء کا نسخہ نکال لائے تاکہ دور دراز علاقہ جات سے مسافر لاکر میٹر و بس کو بھرنے کا فریضہ انجام دیا جائے۔
اس کار خیر میں شریک ہونے کی دعوت خادم اعلیٰ کو دی گئی جوانہوں نے کھلے دل سے قبول کی اور ایک سال قبل سو عد بسیں ملتان کی شاہراہوں پے لاکھڑی کیں۔ اور” شاہی فرمان “ میں نوید سنائی کی انتہائی ارزاں نرخوں پے عام شہری کو عالمی معیار کی سفری سہولت دستیاب ہوگی۔

ان کے گیارہ روٹس مقرر ہوئے اور258 سٹاپ بناد یے گئے بھاری بھر نفری مامور کئی گئی، ای ٹکٹنگ کا جدید نظام اس پسماندہ علاقہ میں متعارف کروایا گیا۔ بس میں 26مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
 باوثوق ذ رائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک بس جسکا پوائنٹ ٹو پوائنٹ سرکل چھ کلومیٹر ہے۔وہ روزانہ قریباً نوے لیٹر سے زائد فیول خرچ کرتی ہے بعض بسوں کے روٹس کی لمبائی اس سے بھی زیادہ ہے اس اعتبار سے اسکے اخراجات بھی اضافی ہیں بھاری بھر اخراجات کے باوجود سپیڈ و بسیں شہر بھی میں خالی دندناتی پھرتی ہیں اس پروجیکٹ کا مقصد میٹروبس سروس کو ”فراہمی سواری “کے نام پر سہارا دینا تھا یہ تو خود خزانہ پر بھاری بوجھ ثابت ہورہا ہے سال میں اربوں روپے کا ایندھن میٹروبس سروس کی کامیابی کے نام پر فضاء میں اڑا دیا گیا۔

ان نامساعد حالات پر نہ صرف اخبارات، میڈیا بلکہ عوامی حلقے سراپا احتجاج ہیں اور سوشل میڈیا پر اٹھائی گئی آواز میں اس ایندھن کو ”عوامی خون “سے تعبیر کیاجارہا ہے اس کے باوجود سرکار کا پرنالہ وہی کا وہی ہے۔
ہم سپیڈو بس بہاولپور کا حوالہ دینا ضروری خیال کرتے ہیں اس شہر میں عام شہری کو ٹکٹ کے ذریعہ آرام دہ سفر کی سہولت فراہم کی جارہی ہے حتیٰ کہ دور دراز سے طلباء و طالبات اسکی وساطت سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نئے کیمپس میں با ٓاسانی پہنچ رہے ہیں جوشہر کی حدود سے باہر ہے۔


ملتان کی شاہراہیں خالی بسوں کابوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں کیونکہ انکی موجودگی ٹریفک مسائل میں بھی اضافہ کا باعث ہے جگہ جگہ اس کی رکاوٹ سے شہری ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔
ہمارے رائے میں ای ٹکٹنگ کافیصلہ کوئی الہامی نہیں کہ اس میں ترمیم نہ کی جاسکے۔اک تو اضافی بسوں کو شہر سے نکال باہر کرنا ضروری ہے اس کے ذریعہ سے ملحقہ علاقہ جات جہانیاں، مظفر گڑھ،کبیروالا ، قادرپورراں ، سلارواہین کے مسافر وں کو سفری سہولت فراہم کی جاسکتی ہے جسکا بلواسطہ فائدہ میٹرو بس سروس ہی کو ہوگا۔


ہمیں کامل یقین ہے کہ پنجاب کے نو منتخب وزیراعلی گذشتہ سال سے جاری ”قومی فضول خرچی “کا از خود نوٹس لے کر ذمہ داران کے خلاف تادیبی کاروائی کا حکم صادر فرمائیں گے، انکا فرمان ثابت کرے گا کہ اہل جنوبی پنجاب تخت لاہور کی ” قلمی طاقت “سے آزادہوچکے اس فضول خرچی کو روکنے سے اس مہم کو تقویت ملے گی جو سادگی اور کفایت شعاری کی بابت قومی سطح پر روا رکھی جارہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :