رب دا ریڈیو

بدھ 10 اکتوبر 2018

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ارض پاک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اطلاعات و ثقافت گذشتہ دنوں میں میڈیا میں کافی ” ان “ رہے انکی وجہ شہرت انکی متنازعہ اور نازیبا گفتگو تھی جو بعدازاں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس نے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔موصوف کو ہمارے سماج کی معروف ” خواتین “ سے معافی مانگنا پڑی اسکی باز گشت بنی گالاتک سنی گئی اور کپتان جی بھی انہیں طلب کرنے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ نوزائیدہ حکومت اس طرز کی غیر سنجیدگی ابتدائی ایام میں ” افورڈ“ نہیں کرسکتی ان کے زیرعتاب رہنے کیوجہ اداکاراؤں اور نجی ٹی وی کے اینکرز کے خلاف نازیبا اظہار خیال تھا ۔

گمان یہ ہے وزارت کے زعم نے انہیں اس قیام تک لاکھڑا کیا ورنہ موصوف کی سیاسی تربیت کا آغاز تو جماعت اسلامی جیسی منظم، تربیت یافتہ اور سنجیدہ جماعت سے ہوا تھا کہاجاتا ہے کہ جو لوگ جماعت اسلامی سے نکل جاتے ہیں جماعت اسلامی ان کے اندر سے نہیں نکلتی لیکن چوہان جی کا معاملہ خاصا مختلف دکھائی دیتا ہے ۔

(جاری ہے)

وزیراطلاعات اقتدار میں آنے سے قبل بھی معزز افراد ،قائدین اور سیاسی مخالفین کو ” القابات “ سے پکارنے میں خاصی شہرت پاچکے تھے اسکی رو میں بہہ کروہ اپنی وزارت کی پہلی ثقافتی پالیسی بیان کرنے نکلے اور ” ڈی ٹریک “ ہوگئے ۔

عوامی اور ثقافتی حلقوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا تب انہیں اندازہ ہوا کہ اپوزیشن اور صاحب اقتدار ہونے کے ضابطے اور تقاضے الگ الگ ہو ا کرتے ہیں۔
بر بنائے وزارت ان کے فرائض منصبی میں پنجاب کی ثقافت کا فروغ اور کلچر کو پروان چڑھانا اور حکومت کا نقطہ ہائے نظر عوام کے سامنے رکھنا ہے ۔لیکن ان کا اصل مقابلہ سوشل میڈیا سے بھی ہے جو اک طاقتور اپوزیشن کلب کا روپ دھار چکا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس کے علاوہ ہیں۔

تھیٹر، سینما، آرٹس کونسل بھی ثقافتی ادارے خیال کیے جاتے ہیں۔
فی زمانہ میڈیا کی آزادی کے فوائد اور نقصانات بھی سماج پر اثر انداز ہورہے ہیں ان پے کنٹرول رکھنے اور سماجی اقدار کی حدود میں لانے کیلئے وفاقی سطح پر اک ادارہ پہلے ہی کام کررہا ہے جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو اس میں ملک کی غالب آبادی مقیم ہے اس اعتبار سے سیاست، ثقافت ، عدالت میں اسکا کردار کلیدی مانا جاتا ہے اسکو سامنے رکھتے ہوئے ایسے کلچر کی ضرورت ہے جو قومی یک جہتی کو فروغ دینے میں موثر ثابت ہو۔


پنجاب دھرتی کی اپنی ثقافت او ر روایات ہیں لوگ کہانیاں ، داستانیں ، صوفی ازم اسکا اثاثہ ہے اس خطہ میں دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں جو کہ خاصی زرخیز ہیں یہ اپنے اندر بڑا لوک ورثہ رکھتی ہیں جنوبی پنجاب میں بولی جانے والی سرائیکی زبان میٹھی اور مثالی ہے اس سے وابستہ لوگ کہانیاں ، داستانیں ، افسانے دلچسپ اور موہ لینے والی ہیں اس میں صوفیانہ کلام اپنے اندر بڑی نصیحت اور درد رکھتا ہے میاں محمد بخش  ، بابا بلھے شاہ کے ہم پلہ شعراء کرام اس سے تعلق رکھتے ہیں اسکے علاوہ پوٹھواری زبان میں بھی بڑا لٹریچر دستیاب ہے شاعری ، لوک داستانیں ڈرامے اور فلمیں ثقافتی ادب کی حیثیت رکھتی ہیں یہ آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے علاقہ جات میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں ۔

اگہ یہ کہا جائے کہ پنجاب میں بسنے والے تمام خاندانوں سے وابستہ افراد پورے پاکستان میں مقیم ہیں تو بے جانہ ہوگا یوں پنجاب کا کردار بڑے بھائی کی مانند متعین ہے جس سے انکار ممکن نہیں اس لیے اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ثقافت اور کلچر میں دیگر اکائیوں کو بھی شریک سفر رکھے اور یگانگت کا ثبوت کھلے دل سے دے۔عصر حاضر میں میڈیا جانبدار قوت کی شکل اختیار کرچکا ہے جو ملک کو متحدہ رکھنے میں فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔


فی الوقت جو طاقتور افراد اسکی پالیسی پر قابض ہیں وہ زمینی حقائق سے الگ ثقافت پیش کرنے کے ” مرتکب “ ہورہے ہیں ہم وزیر اطلاعات کی توجہ سرحد پار پنجاب کی جانب مبذول کروانے کی خواہش رکھتے ہیں اس دیش کی پنجابی فلمیں ہمارے ہاں خاصی مقبول ہیں وزیرثقافت بھی اس سے لاعلم نہیں ہوں گے ان کے ہاں دکھائی جانے والی فلمیں ہندوستانی بالی وڈ کلچر سے کوسوں دور ہیں ۔

عریانی وفحاشی جسکا اہم جزو ہے جبکہ پنجاب میں پیش کی جانے والی فلمیں گھریلو نوعیت کی ہوتی ہیں خاندان کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں وہی کچے گھروندے، کھیت کھلیان، ڈورڈنگر، شادی بیاہ کی سادہ رسومات ، بیٹھک اور پنجائیت کے کلچر پر مشتمل یہ فلمی دنیا حقیقت اور دل کے قریب محسوس ہوتی ہے ۔شنید ہے” بھنگڑا کلچر“ نے اپنا رنگ کینیڈا میں بھی دکھانا شروع کردیا ہے اور ” گورے “ بھی اسکے گرویدہ ہورہے ہیں اس کے برعکس ہمارے ہاں گلیمر کو ڈراموں اور فلموں میں پروان چڑھایا جاتا ہے اور ایلیٹ کلاس کا کلچر دکھا کر سماجی سطح پر احساس محرومی کو فروغ دیا جارہا ہے قرض پر چلنے والی معیشت میں یہ ثقافت قوم کے ساتھ کھلے مذاق کے مترادف ہے۔


وزیراطلاعات نجانے کونسی ثقافت پنجاب میں لانے کا ذہن بنائے بیٹھے ہیں اک طرف اداکاروں کو دھمکیاں اور انہیں روزے رکھوانے کا عزم دوسری طرف سینما ہالوں کے مالکان کے ساتھ غیر محتاط رویہ ان کے ایجنڈا کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اگر وہ کپتان کی ” مدینہ ریاست “ کے فروغ اور عملی شکل میں اسلامی ثقافت ہی کو رواج دینے کی خواہش دل میں پال چکے ہیں تو اس کے بھی کئی راستے ہیں۔


زیادہ مناسب یہ ہے کہ موصوف اہل دانش کے ساتھ مل کر ایسا خاکہ بنائیں جو نسل نو میں حیا ء کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو۔فلمی دنیا کے ستاروں کو بھی اپنی تہذیب اور روایات کے مطابق کلچر پیش کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے بدقسمتی سے فی زمانہ ڈرامہ نگاری خاندان کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے ”میرا جسم میری مرضی “تک کی آواز بلند ہونے لگی ہے جو سماج کیلئے زہر قاتل ہے سماج اور خاندانوں کو متحد رکھنا ہی ہماری ثقافت کا اصل امتحان ہے۔


ہم حوالہ کے طور پر موصوف کی توجہ سرحد پار پنجاب کی اک فلم ” رب دا ریڈیو“ کی جانب مرکوز کروانا چاہتے ہیں جیس گریوال کی اس فلم میں نرمل رشی کا کردار مثالی ہے فلم میں بڑی اماں کا کردار ادا کرنے والی یہ خاتون پورے گاؤں کی نسل نو کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتی اور خاندانوں کو باہم جوڑتی ہے۔ اک زمانہ تھا کہ ہمارے ڈراموں کی دھوم پورے ہندوستان میں تھی یہ نامور لکھاریوں کے لکھے اور ہمارے کلچر کا عکاس تھے جن میں بڑے نام پروفیسر اشفاق احمد ، منو بھائی، یونس جاوید ہوا کرتے تھے۔


ہماری وزیر ثقافت سے استدعا ہے کہ وہ ایسی ثقافت کو پروان چڑھائیں جن میں پنجاب کے تمام علاقہ جات کا رنگ نمایاں ہو، ہر زبان کو فروغ ملے اور اس کی وساطت سے لوگ داستانیں ، کہانیاں ، افسانے اور ڈرامے ادب کی دنیا میں اک نیا نام پیدا کریں۔ جس طرح سرحد پار پنجاب کی فلمیں ہمارے ہاں مقبول ہورہی ہیں اس طرح ہم اپنا کلچر بھی ثقافت کے ذریعہ وہاں پھیلانے میں کامیاب ہوں جس میں اسلامی رنگ نمایاں ہو۔


مغربی دنیا میں جس طرح تحقیق کی بنیاد پر فلمیں بنائی جاتی ہیں اور ڈاکو منٹری کے ذریعہ عوامی مسائل اور شعور کو اجاگر کیا جاتا ہے اس طرح ارض پاک وطن میں بھی ثقافت اور کلچر میں جدت لائی جاسکتی ہے ہمارے ہاں چند مغرب زدہ خواتین نے خود ساختہ ڈاکو منٹری کے ذریعہ سستی شہرت کی خاطر وطن کو بدنام کرنے کی جو بھونڈی سازش کی ہے اس کا جواب اسلامی ثقافتی ادب کے ذریعہ دینا ناگزیر ہے۔


حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے ڈرامے ، فلم، تھیٹر ، پسند کی شادی ،بیاہ کے موضوعات کو زندگی اور موت کامسئلہ بتانے کی بجائے جدید عنوانات سے کہانیاں اور ڈرامے عوام کے سامنے پیش کرکے اپنے کلچر اور ثقافت کو مضبوط کریں ۔
مغربی نقالی کی بنیاد پر فلمیں اور ڈرامے بنا کر خاندانی نظام کی شکست و ریخت کا سامان پیدا کرنے کی بجائے اسے مضبوط بنانے کی راہ نکالیں۔ وزیر موصوف کے جذبات کی تلافی کا اک راستہ اسلامی ثقافت کے فروغ میں پوشیدہ ہے۔ تاہم اہل پنجاب کی ثقافت کا فروغ پی ٹی وی ملتان کی مکمل اختیارات کے ساتھ بحالی اور فعالیت کے بغیر قطعی ممکن نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :