کلین چٹ

جمعرات 18 اکتوبر 2018

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

برآمدہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ نیب کا ”کوڑا “ بھی بدعنوانوں پر برسنے کے لیے بے تاب ہے، نت نئے چہرے زندان کے حوالہ کرنے کا ” شغل “ اس قومی ادارے نے بنا رکھا ہے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں تمام اخلاقی اقدار کو پامال کرنا آب انکا وطیرہ بن چکا ہے۔ ان کے ہرکارے کسی کی کلائیوں پر جیل کے ” کنگن“ جب چڑھاتے ہیں تو طاقت کے نشے میں متاثرہ فرد کی علمی حیثیت ، منصب اور عمر کا لحاظ بھی نہیں رکھتے۔

ان کایہ ” طریقہ واردات“ ہر بدعنوان سمجھے جانے والے مرد و زن کیلئے یکساں نہیں ہے ،شاہی فرمان کی تعمیل کیلئے اہلکاروں نے بھی الگ الگ معیارات قائم رکھے ہیں ۔حکام بالا کے آرڈر کا رخ پانی کی طرح نچلی طرف ہی ڈھلک جاتا ہے ورنہ اس سماج میں بڑے بڑے آئین شکن، قبضہ مافیا کے سرغنہ ،منی لانڈرنگ کے ماہرین ، بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے ان اداروں کے سامنے دندناتے پھرتے ہیں، انکے لیے پروٹوکول کی فراہی بھی ” فرض عین “ سمجھی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

کچھ کو تو فضائی اڑان بھرنے کا اجازت نامہ سرکاری افسران کے ہاتھوں سے تھمایاجاتا ہے تاکہ منی لانڈرنگ میں ملوث ” معزز شہری “ کو سفری خفت نہ اٹھانا پڑے۔ تفریق قانون میں نہیں، اسکے اطلاق میں روا رکھی جارہی ہے اس کے باوجود وزیر قانون جب امیر اور غریب کے لیے یکساں قانون کے نفاذ کی نوید سناتے ہیں تو نجانے ہمارا پنجابی والا ”ہاسہ “ کیوں نکل جاتا ہے۔


ہمارے ہاں احتساب کی روایت جتنی پرانی ہے اتنی ہی اس سے داستانیں وابستہ ہیں ہر نئے حکمران نے آتے ہی احتساب کے بے لاگ اطلاق کا بگل بجایا یہ مشق باوردی حکمرانوں نے بھی دہرائی پھر چشم فلک نے دیکھا بدعنوانوں کی فہرست میں انکا نامہ نامی بھی جلی حروف میں لکھا گیا۔
فی زمانہ کا نیب ادارہ اس وقت بھی ملک کی بھار ی بھر شخصیت اور سابق باوردی حکمران کی منت سماجت تک اتر آیا ہے اور انہیں زندان کے حوالے نہ کرنے کی ضمانت بھی دے رہا ہے اور یہ خواہش رکھتا ہے کہ موصوف اپنی گوناں مصروفیات میں سے چند لمحے نکا ل کر اپنا بیان ریکارڈ کروانے کی زحمت اٹھائیں ان کے اس فعل کی احسان مندی ادارہ پر ہمیشہ قرض رہے گی ۔

نہیں معلوم ہمارے ”تبدیلی والے“ وزیراعظم ادارہ کی اس بیچارگی سے آگاہ بھی ہیں یا نہیں۔ انہیں تو اس وقت قوم کا غم کھائے جارہا ہے کہ کس طرح اسکو سادہ زندگی گذارنے پر آمادہ کیا جائے ۔ انہوں نے تو وزیراعظم ہاؤس کی بھینس تک فروخت کرکے سادگی کی نادر مثال پیش کی ہے۔ اس کے باوجود اگر انہیں مزید قرض لینے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے تو اس میں بھی قصور سابق حکمرانوں کا ہے جو قومی خزانہ خالی چھوڑ گئے ،کتنے سنگدل ہوتے ہیں یہ” سابقین“ جو ہر آنے والی نئی حکومت کیلئے خزانہ خالی کرجاتے ہیں۔


 ہماری دانست میں غذائی قلت کا شکار مٹھی کے بچوں، گذشتہ تین سالوں سے گندہ پانی پینے والے میر پور خاص کے مکینوں اور تعلیم سے محروم لاکھوں بچوں، اک سے زائد بیڈ پر براجمان مریضوں اور دو صد روپے یومیہ اجرت پانے والی خواتین کے لئے تو قومی خزانہ کبھی بھی بھرا دکھائی نہیں دیا۔جب اس خزانہ تک مقتدر طبقہ ہی کی سرائی ہے تو اسے بھرنے اور خالی کرنے کا ”ثواب “ بھی انہیں کو پہنچتا ہے۔

جبکہ خزانے کو بھرنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی بھی ضرورت نہیں اللہ بھلا کرے آزاد میڈیا کا جس نے درجنوں میگا کرپشن سکینڈل نمایاں کردیئے ،سماج کی انتہائی معزز ، محب وطن سمجھی جانے والی شخصیات کے پر فریب رخ کا نقاب ہٹا کر انہیں ” عریاں “ کردیا ،عزت سادات کی ہانڈی بیچ چوراہے توڑ دی ،بدعنوانی کے سفر میں شریک قریبا تمام طبقات شامل ہیں اس میں وردی اور غیر وردی کی بھی کوئی تفریق نہیں لہذا ان سے دولت کی وصولی ہی خزانہ کو بھرنے کا آسان ترین نسخہ ہے۔

نجانے کس مصلحت کے تحت ماضی میں ان کیلئے نرم گوشہ رکھا گیا کہ لوٹی ہوئی دولت کا حجم اربوں ڈالر تک جاپہنچا۔
اس ریاست پر طویل حکمرانی کا اعزاز حاصل کرنے والے سابق وزیراعظم جوان دنوں خود بھی زیرعتاب ہیں آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کو ” بدعنوانو ں “ کی لسٹ میں نہ لانے کا مشورہ دے رہے ہیں گمان کرتے ہیں کہ اس طر ح پورا پاکستان ہی لپیٹ میں آجائے گا موصوف کے بارے میں عمومی رائے ہے کہ وہ مطالعہ کی عادت سے زیادہ کھانے کا شوق فرماتے ہیں اس لئے تاریخ سے زیادہ چھیڑ چھاڑ ان کا مقدر نہیں ٹھہری ۔

خلفاء راشدین جیسی پاک دامن ہستیوں سے سربراہ مملکت ہونے کے باوجود عام شہری نے زائد چادر کھنے پر سوال اٹھا دیا۔شریفین نے اگر یہ حق اپنی ر عایا کو دیا ہوتا تو انہیں کبھی زندان کی ہوا نہ کھانا پڑتی۔
آمدن سے زائد اثاثوں نے ہی تو ہمیں اس مقام پے لاکھڑا کیا ہے کہااس خطہ میں سب سے زیادہ آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہمیں ہونا پڑرہا ہے یہ اعزاز تو سری لنکا کے حصہ میں بھی نہیں آیا جہاں کبھی بھی بڑی طاقتوں نے ڈالرز کی بارش نہیں کی۔


ہمیں تو یہ بھی شرف حاصل رہا ہے کہ ہماری سرزمین پر ڈالر بارش بن کر برسے، اس نعمت سے ہر اس شخص نے فائدہ اٹھایا جو ذرا سا بھی اختیار رکھتا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین سے اٹھ کر آسمان تک جا پہنچا اگر ٹھہری تو ریاست ہی بدقسمت ٹھہری جو آج بھی ڈالروں کی بھیک مانگ رہی ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ عام فرد اور ادارے اس عہد ہی میں ریاست سے زیادہ طاقتور ہوگئے ،جس دور میں بڑے طاقت کا” دست شفقت“ ہمارے سر پے تھا اور وہ ہماری جانوں کا خراج، خدمات کا معاوضہ بیرونی کرنسی میں ادا کررہی تھی، ایسا صرف ان ممالک ہی میں ممکن ہے جہاں اداروں کو جان بوجھ کر کمزور کردیا جائے تاکہ وہ زائد آمدن سے اثاثوں کا” حساب“ ہی نہ مانگ سکیں اور اگر مجبوری آن پڑے تو اختیار دکھانے پر ” کلین چٹ “ شکریہ کے ساتھ فراہم کردیں۔


 ناقدین کی رائے یہ ہے کہ نو منتخب وزیراعظم کی طرح انکی ٹیم بھی نوزائیدہ ہے انکی تجربہ کاری سے بے قراری نمایاں ہے اور اسکا سبب یہ ہے کہ ا ک طرف اگر قوم نے بہت ہی امیدیں اس تبدیلی سے وابستہ کی ہیں تو دوسری طرف نو منتخب حکومت نے اقتدار سے پہلے سبز باغ دکھانے میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی۔ہماری خواہش ہے کہ منتخب حکومت کو آزادانہ کام کرنے اور آئینی مدت پوری کرنے کا پورا پورا موقع دیا جانا چاہیے اور انکی سیاسی اور اخلاقی حمایت عوامی سطح پر جاری رہنی چاہیے تاہم جس تبدیلی کا علم ”کپتان جی “نے اٹھایا ہے اسکی بلندی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریاست شخصیات، افراد اور اداروں سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوجاتی اسکا راستہ قومی اداروں کی آئینی خود مختاری اور مضبوطی سے ہی ہوکرگذرتا ہے جس میں نیب کا ادارہ بھی شامل ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :