درآمدی زوجہ

پیر 3 دسمبر 2018

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اگرچہ ہم عمر کے اس حصہ میں ہیں جہاں دوسری اور تیسر ی شادی کیلئے مشاورت کرنا بڑے خطرے سے خالی نہیں بالخصوص بیرون ملک سے ” دوشیزہ “ بیاہ کرلانے کی رائے لینا بھی بڑا” رسک “ شمار ہوسکتا ہے ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ اس طرز کی خواہشات ہر زندہ دل فرد میں جنم لیتی ہیں ہماری طرح کے کم ہی ہیں جو بڑا حوصلہ رکھتے اور اس کے اظہار کرنے میں زیادہ دقت محسوس نہیں کرتے۔

اس نوع کا مشورہ کرنے کا خیال ہمیں ارض پاک کے چند ” غیرت مند “ نوجوانان کو دیکھ کر آیا جو آج کل مغربی” حسیناؤں“ کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی” تبلیغ“ میں مصروف ہیں اگرچہ ان کا ”طریقہ واردات“ ذرا وکھری ٹائپ کا ہے۔ ان کے جذبے اور حوصلے جواں دیکھ کر ہم نے بھی ان سے دوسری ازدواجی زندگی کی شروعات کرنے کا خواب دیکھا ہے اس کی تکمیل میں ظالم سماج کتنا حائل ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن جس طرح آج کل پاکستانی نوجوانان نے اسلام کے ” سافٹ امیج “ کو مغربی خواتین میں مقبول کرنے کی جسارت کی ہے اس کی کوئی مثال پیش کرنا تاحال محال ہے۔

(جاری ہے)


 اک ایسے وقت جبکہ اک مذہبی جماعت کے اراکین کی پکڑ دھکڑ ہورہی ہو ، گراؤ ، جلاؤ، اور بدامنی کی پاداش میں ان پر مقدمات قائم کیے جارہے ہوں اوراسلام کا تشددانہ چہرہ دینا کے سامنے بذریعہ میڈیا گھوم رہا ہوں۔ان حالات میں سماجی سطح پر مغرب کی دلدادہ خواتین کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے قبل سابقہ دین چھوڑ کر اسلام کی قبولیت کی دعوت دینا کسی بڑے معرکہ سے کم نہیں نسل نو کے ان” سپوتوں“ کے ساتھ ساتھ خواتین کی بہادری کی داد دیئے بغیر چارہ نہیں جو اپنی ہم جھولیوں ، بہن بھائیوں اور سب سے بڑھ کر والدین کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ کر دیا ر غیر کوچ کررہی ہیں ۔


اب تلک انفارمیشن ٹیکنالوجی کے یوں تو بہت سے فوائد سامنے آچکے ہیں ،طرز حکمرانی سے لے کر کاروبار تجارت تک ، تعلیمی سہولت سے لے کر کاروبار سیاحت تک کی کئی الجھنیں عہد جدید کی اس ٹیکنالوجی کی بدولت حل ہوئیں تاہم شر یک حیات کی تلاش کا فائدہ تو سب سے بڑھ کر نکلا ۔ اب یہ عالم گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرگیا۔ اس ” عالمی دیہات “ نے مشرقی اور مغربی معاشروں کی نسل نو کو نادر موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے لیے ” جیون ساتھی “ تلاش کرسکیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موجدین کو یہ سماجی خدمت انجام دینے کا ” ثواب “ تو ضرور جائے گا۔
جنہوں نے سمندر پار رشتوں کے ملاپ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔بیرون ملک بذریعہ انسٹا گرام دوستی کو ازدواجی رشتہ میں تبدیل کرنے کا رجحان اب زور پکڑ رہا ہے پہلے پہل پنجاب کے اک آدھ شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اب یہ ” وبا “ دیگر شہروں میں بھی منتقل ہورہی ہے دل کے ہاتھوں مجبوریورپی اور امریکی دوشیزائیں کشاں کشاں ہماری دھرتی پے چلی آرہی ہیں جہاں انہیں” مشرقی دلہن “بنا کر خاندان کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے دیار غیر میں بیٹے کے بیاہے جانے پر ہر کوئی نئے جوڑے کے واری واری جاتا ہے اس بندھن کی بڑی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس میں ذات پات اور عمر کی بھی کوئی قید نہیں۔


مغربی دلہنیں اس اعتبار سے بھی خوش قسمت واقع ہورہی ہیں کہ شادی سے پہلے انکو نقص نکالنے کی جیسی مشق ا ور اذیت سے نہیں گذرنا پڑا جس طرح ہمارے ہاں رشتہ کی تلاش میں مشرقی لڑکی کو اس عمل سے گذرنا پڑتا ہے پنجاب کی دھرتی کے یہ نوزائیدہ ” دلہے “ اس لئے مغربی دلہنوں کو بخوشی قبول کررہے ہیں کہ رشتہ ازدواج کا یہ راستہ سیدھا ” گرین کارڈ “ کی طرف جاتا ہے جسکو پانے کی خواہش ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے سویلین اور باوردی شہری کی بھی اس میں کو ئی تفریق نہیں عمر بھر ملک میں فرائض منصبی سرانجام دینے والے بھی چاہتے ہیں کہ ریٹائرڈ منٹ کی زندگی سکون سے وہاں ہی گذرتی جائے ۔


بڑوں کے اس ذوق نے انہیں باہر سے دلہن لانے پر مجبور کیا ہے۔ ہماری عسکری اور سیاسی تاریخ اس طرز کی” زوجہ درآمد اگی“ سے بھری پڑی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے سیاستدانوں ، وزراء کرام اور افسر شاہی پے یہ نوازش ہوا کرتی تھی اب یہ کرم بے روزگاروں پے ہورہا ہے۔
 گمان ہے کہ بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور نوجوانان نے ”نوکری اور چھوکری “کے حصول کیلئے بیرون ملک صلاحیت صرف کرنے ہی کو ضروری سمجھا ورنہ اللہ تعالیٰ نے جو نیک سیرت اور صورت صنف نازک اس سرزمین پے عطا کی ہے اسکا کوئی ثانی کمرہ ارض پے میسر نہیں ہے۔

یہ اسی کافیض ہے کہ مغرب کو کوچ کرنے والے اپنے بچوں کی شادیوں کیلئے مشرق یعنی اپنے آبائی وطن کا رخ کرتے ہیں کیونکہ وہ ان تمام خرافات کے عینی شاہد ہوتے ہیں جو مغرب میں خاندانی نظام کے عدم وجود کے باعث اس سماج میں جنم لے رہی ہیں اس کے باوجود ہمارے نوجواناں کا مغربی خواتین کی جانب راغب ہونا خود بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے لیکن یہ خالصتاً ان کا ذاتی معاملہ ہے ہم انکی خوشیوں میں حائل ہونے کی” حماقت “نہیں کرنا چاہتے۔


 تاہم غالب امکان یہ ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ اپنے وزیراعظم کو دیکھ کر کیا ہوگا جنہوں نے از خود اس دوشیزہ سے شادی کی جسکا خاندان عالمی سطح پر مالی شہرت رکھتا ہے ہر چند کپتان اس رشتہ کا نباہ نہ کرسکے لیکن وہ آج بھی موصوفہ کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں شاید اس ” جذبہ ازدواجی“ نے ان نوجوانان کو باہر سے رفیق حیات لانے پر آمادہ کیا ہو۔


 ہمیں یہ تو معلوم نہیں پنجاب کے ان گبھرو جوانوں نے ان سے ابدی تعلق قائم کرنے کیلئے کیا اخلاقی ، سماجی اور مذہبی معیار قائم کیا ہے اور ان کے شریک سفر خواتین ہماری تہذیب اورکلچر کو اختیار کرنے میں کس حد تک جائیں گی خاندان کو باہم ملانے اور رشتوں کے تقدس کو برقرار رکھنے میں ان کو کیا کیا قربانیاں دینا پڑیں گی اسکا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا تاہم شادی کا بندھن گڈی گڈے کا کھیل نہیں ہے بحثیت مسلمان بھاری بھر ذمہ داری دونوں فریقین پر عائد ہوتی ہے اسکے حقوق اور فرائض بھی متعین ہیں انکی عدم پاسداری پر جزا اور سزا بھی دونوں جہانوں میں مقرر ہے اس لئے نکاح کرنے کی ترجیحات سیرت پاک میں موجود ہیں اگر اسی جذبہ کے تحت صدق دل سے یہ رشتے استوار ہورہے ہیں تو اک اچھا پیغام اہل مغرب کو ملے گا ہماری طرح خاندانی نظام کو وہاں بھی سماج کے لئے ضرور سمجھا جائے گا اگر اس کے پیچھے کوئی غرض اور لالچ کارفرما ہے تو اس کے انجام کیلئے دونوں فریقین ذمہ دار ہوں اور پھر اہل مغرب ان جوڑوں کی محبت، غیرت، عزت کو مطلب کے ترازو میں تولنے میں حق بجانب ہوں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :