نیا چہرہ

ہفتہ 5 جنوری 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

عالمی دیہات کے اس عہد میں ،خبروں، تجزیوں کا اک انبار لگا ہوا ہے ہر سو نئی معلومات آپکی منتظر رہتی ہیں، سوشل میڈیا نے اپنی جگہ اک طوفان برپا کررکھا ہے اب تو ہر خبر ’بریکنگ نیوز “کا درجہ پارہی ہے ماہرین صحافت کہتے ہیں کتے کا انسان کو کاٹنا نہیں بلکہ خبر انسان کا کتے کو کاٹنا ہے۔اس اعتبار سے اگر کوئی آپ کو خبر دے کہ ایک بڑی سپر پاور نے چھوٹے ملک پر قبضہ کرلیا تو یہ قطعی خبر کے زمرے میں نہیں آئے گا۔

لیکن اگر عالمی افق پے موجودخبروں میں یہ اطلاع آپ تک پہنچے کہ اک ایسی ریاست جو دنیا میں سب سے پسماندہ ، گنوار ، جاہل، انتہا پسند ہے اس کے باسی مفلوک الحال اور غربت ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، بنیادی حقوق سے یہ محروم ،تعلیم سے نابلد ہیں۔ ان کی سرزمین پر کوئی قطعہ ایسا نہیں جہاں بارود کی بارش نہ ہوئی، اس کی عوام پر بم نہ گرائے گئے ہوں ، ڈیزی کٹر کا استعمال جہا ں کھل کرہوا ، تورا بورا پرمیزائلوں کی بارش ہوئی ہو ،جدید ٹیکنالوجی اب تلک جس قوم کی دسترس سے ہی باہر ہو او ر یہ سرے سے ایٹمی قوت ہی نہ ہو البتہ اس کے شہری عام بندوق چلانے پر ملکہ رکھتے ہوں ۔

(جاری ہے)

دوسری جانب د نیا کی وہ سپر پاور جسکا طوطی بولتا ، جو اپنے نئے ورلڈ آرڈر پر نازاں ، اقوام متحدہ کے ادارے جس سے ہدایت پاتے ،بڑے بڑے بادشاہ اس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتے ہوں، اسکی ناراضگی مول لینے کو پتھر کے زمانے میں جانے سے تعبیر کیا جاتا ہو ، بڑے بڑے سپہ سالار اسکی اک فون کال پر ڈھیر ہوتے ہوں، اس مذکورہ قوم کے ہاتھوں بڑی طاقت لذت آمیز انداز میں شکست سے دو چار ہوتو یہ بڑی خبر ہے۔


تاریخ کا ستم دیکھئے وہ انکل سام جسے اپنی طاقت، اسلحہ وبارود، میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی طاقت پر ناز تھا آج اتحادی افواج کے تحفظ کی ا س قبیلہ سے بھیک مانگ رہا ہے جسے اس نے میڈیا کے بل بوتے پر عالمی برادری کے سامنے اچھوت بنا کررکھ دیا تھا، جو شخصیت ، ریاست ،حکومت ان سے تعلقات جوڑنے کا ارادہ بھی کرتی وہ دہشت گردی کی صف میں شمار کی جاتی ۔

آج اُس ہی ٹولہ سے مذاکرات کی مشق جاری ہے ان آج حکومتی شخصیات پر بھی اعتماد نہیں کیا جارہا جو امریکہ کی وفادار،قابل بھروسہ سمجھی جاتی تھیں۔ اس کٹھ پتلی حکومت کی بے بسی دیکھیں کہ انہیں کابل کے محلات میں بٹھانے والے ان ہی سے آنکھیں پھیر چکے ہیں۔
افغانستان میں فتح کا جھنڈا گاڑنے والے اس گروہ کو دنیا طالبان کے نام سے یاد کرتی ہے اگرچہ ہم بھی اس گروہ کی سیاسی ، مذہبی سرگرمیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔


 ہمارا گمان ہے کہ واپسی کے لئے طیارہ پر سوار ہوتے امریکی فوجیوں کو دیکھ کر گوربا چوف تخیلاتی طور پر زیر لب ضرور مسکراتے رہے اور ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے اپنی شکست کو یاد کرتے ہوں گے کہ نہتے افغانیوں کے ہاتھوں کس طرح تیسری بڑی طاقت بے آبرو ہوکر کوچے سے رخت سفر باندھ رہی ہے تاریخ کا یہ کتنا سچ ہے کہ کسی قوم کی فتح یا شکست کا تعلق اسلحہ کے لیس ہونے سے نہیں ہے بلکہ مشیت خداوندی ہے وہ جس کو چاہے عزت دے۔


قرائن بتاتے ہیں کہ تاجرانہ ذہن کے مالک امریکی صدر نے گرتی ہوئی معیشت کو ان جنگوں کے تناظر میں دیکھا جو اس وقت انکل سام کے گلے کا ڈھول بن چکی تھی جسکا بجانا اسکی مجبوری ٹھہری ان میں اک افغانستان کی وہ نام نہاد جنگ بھی ہے جو دہشت گردی کے نام سے روا رکھی جارہی تھی دوسرا ٹیکسوں کے نیچے دبی عوام نے بھی” عالمی تھانیدار“ بننے کی پالیسی پر انگلی اٹھائی ہے جس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کی ہے۔


اک بڑی فتح کی نوید کے بعد طالبان کی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔
ہر چند کہ افغان سکیورٹی فورسز کے جوان امن و امان برقرار رکھنے کے نام پر ان سے نبرد آزما رہے ہیں ان میں سے ہزاروں کو دینا سے رخصت ہونا پڑا ہے کیا یہ اس دھرتی کے سپوت نہیں؟ انہیں ایسی آگ میں جھونکنے کی” حماقت“ اس امریکی حمایت یافتہ حکومت نے کی جسے اپنی طاقت پہ ناز تھا۔


بھاری بھر عالمی امداد کے باوجود افغانی قوم کی بے چارگی نوشتہ دیوار ہے یہ تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی ،روزگار اور دیگر سہولیات سے تاحال محروم ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ طالبان مقامی حمایت کے بغیر کبھی بھی غیر ملکی افواج پر قابو نہیں پاسکتے تھے اب جبکہ انہیں ملک کے وسیع رقبہ پر اقتدار حاصل ہورہا ہے ان کے ناتواں کندھوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانی قوم کی اجیرن زندگی کو آسان بنانے کی کوئی سبیل نکالیں۔

شنید ہے کہ آمدہ اپریل میں صدارتی انتخاب منعقد ہوناہے افغانستان کا دستور بن چکا ہے پارلیمنٹ قائم ہے ،عالمی برادری تو قع رکھتی ہے کہ طالبان قیادت عوامی مسائل کو جمہوری اور شورائی انداز میں حل کرنے کی سعی کرے گی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ہرات میں قابل ذکر تعداد خودکشی کرنی والی خواتین کی ہے جو قبائلی روایات ، سماجی اور خانگی مسائل کی تاب نہیں لا سکتیں۔

طالبان اسلام کے نام لیوا اور اسلامی حکومت کے داعی ہیں عوام کی جان و مال کی حفاظت میں انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اگر چہ افغانستان کی غربت کا بڑا سبب وہاں جاری جنگ وجدل رہا ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے اس ریاست کو بھی قدرتی وسائل سے نواز ا ہے جس سے استعفا دہ حاصل کرنے کیلئے وسیع البنیاد قومی حکومت کا قیام ناگزیر ہے۔افغانستان دنیا کی ان چند ریاستوں میں شامل ہے جس میں Rare Earth elements موجود ہیں جنکا استعمال فی زمانہ کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ, آٹو موبائل کی صنعت میں ہوتا ہے علاوہ ازیں قیمتی دھاتیں ایٹمی عناصر کے طور پر اپنی خاص افادیت رکھتی ہیں ۔


چین نے معدنیات میں خاص سرمایہ کاری کررکھی ہے ایران بھی امریکی شکست کے بعد حالات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے طالبان نے ان سے بھی مذاکرات کیے ہیں ۔حالات میں تبدیلی طالبان کے حق میں وقوع پذیر ہورہی ہے.
 تیسری بڑی سپر پاور کو شکست دینے کے بعد طالبان کم از کم اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ قدرتی ، معدنی وسائل میں سرمایہ کاری اپنی شرائط پر کرواسکیں اور اس میں وصول آمدنی کو افغان عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرکے اپنے نامہ اعمال میں اضافہ کرنے کا شرف حاصل کریں۔


افغان عوام ہی نہیں، ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا بھی اب طالبان کا نیا چہرہ دیکھنا چاہتی ہے طالبان قیادت کے امتحان کا اب آغاز ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنی مہارت، سفارت کاری ، داخلی اور خارجی پالیسیوں کے نفاذ سے عالمی برادری کو اپنا ہمنوا بناتی ہے تاکہ دینا کو طالبان کے حوالہ سے اک اچھی خبر سننے کو ملے جسکا طویل عرصہ سے انتظار اسلامی تحریکوں کو بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :