محنت کا دکھ

بدھ 16 جنوری 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

یخ بستہ سردی اور ٹھنڈی ہوا میں بیٹھے اک بزرگ پرہماری نظر جااٹکی۔ہمارے قدم اس جانب اٹھ گئے۔ پیرانہ سالی میں سرراہ سڑک پے کرسی ڈالے اس شخص نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا ،رات کے دوسرے پہرمیں اپنی جانب آتے دیکھ کر اس نے اپنی بندوق سیدھی کی لیکن گود میں رکھ لی اسکے تن پہ اک بوسیدہ جیکٹ اورپاؤں میں واجبی سے جوگر تھے ،سرپے ٹوپی تھی اس کے رویہ سے محسوس ہوتا تھا کہ کسی خانگی اور معاشی مجبوری نے اسے سیکورٹی گارڈ کی ڈیوٹی انجام دینے پے آمادہ کیا ورنہ اس عمر میں بغیر کسی حفاظتی انتظام کے اس ٹھنڈک میں وہ کیونکر اس اذیت کو اٹھاتا۔


 رسمی تکلم کے بعد ہم نے بات کو آگے بڑھایا اس خدمت کا سبب پوچھا تو کچھ توقف کے بعد وہ گویا ہوئے کہ اس جھاڑے میں بغیر کسی خاص ضرورت کے کس کا جی چاہتا ہے کہ کھلے آسمان کے تلے اس ماحول میں بیٹھ کر جان پے کھیلے۔

(جاری ہے)

ہم نے جب ان سے ملازمت کی بابت تنخواہ کا پوچھا تو جواب پاکر ہمارے اوسان خطا ہوگئے اس بھاری بھر مشقت کا معاوضہ صرف تین سو روپے یومیہ اور ڈیوٹی کا دورانیہ 12گھنٹے تھا سردی اورگرمی کے موسم کے اوقات کار یکساں تھے۔

برسبیل تذکرہ معلوم ہوا کہ موصوف کا خاندان چھ افراد پر مشتمل ہے وہی اس کے سربراہ ہیں مکان کے کرایہ کے علاوہ باقی اخراجات بھی اس آمدنی سے کیے جاتے ہیں البتہ انکی زوجہ انکی معاشی مدد کرتی ہے جو کہیں پرائیویٹ ملازمت کے عوض صرف چار ہزار ماہانہ کماتی ہے، باتوں باتوں میں ہم نے اس پنشن کا تذکرہ کیا جو عمومی طور پر سیکورٹی گارڈ زکو افواج پاکستان میں ملازمت کے عوض ملتی ہے تو انکا جواب تھا کہ اس قومی خدمت کی” سعادت“ انہیں کبھی زندگی میں حاصل ہی نہیں ہوئی البتہ انکی کمپنی جس کے وہ ملازم ہیں کے سربراہ کا تعلق افواج سے رہا ہے۔

ہم نے عرض کیا کہ اس موسم شدت کے باوجود آپ کے تن پر کوئی وردی نظر نہیں آرہی تو اس ماحول کی مناسبت سے آپ کو میسر آنی چاہیے تھی مایوسی کی اتاہ گہرائیوں میں گم اس بزرگ نے جواباً کہا کہ کمپنی فراہم نہیں کرتی، میں تو خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتا، بس اس موسم کا مقابلہ کرتا جارہا ہوں کو ئی طبی امداد، علاج معالجہ کی سہولت،اضافی الاؤنس، بچوں کی تعلیم کا خرچہ ، کرایہ مکان وغیرہ ،ہماری جانب سے سہولیات کی گردان سن کر وہ بے ساختہ بولے کہ میں کونسا سرکاری ملازم ہوں، میری حیثیت سے تو بس ریاست کے اک بزرگ شہری کی سی ہے، مراعات ، سہولت تو صرف سماج کے بااثر طبقہ کا مقدر ہیں ہم لوگ تو صرف محنت کرنے کیلئے پیدا ہوتے ہیں اسکا پھل تو سماج کی ایلیٹ کلاس کھاتی ہے ۔

اتنی قلیل آمدنی میں دال روٹی کیسے چلتا ہے ؟چہرے پہ ملال لیے بزرگ بولے صبح بچے سکول کیلئے پیسے مانگتے اور خالی ہاتھ جب جیب سے باہر آتا ہے تو ان کے چہرے پڑھ کر میرا دل بیٹھ جاتا ہے مگر یہاں ہم جیسوں کی سنتا کون ہے۔ اس امید پے زندہ ہیں کہ کبھی تو اچھا وقت آئے گا ورنہ اک روز اس کرسی پے بیٹھے بیٹھے گذر جائیں گے کچھ روز ہمیں ” بے چارہ “ کے نام سے یاد کیا جا ئے گا ہماری مشکلات اور بچوں کی محرومی کا تذکرہ ہوگا پھر دنیا اسی کھیل میں گم ہوجائے گی ۔

بوجھل دل کے ساتھ رخصت ہوتے ہوئے یہ خیال گذرا ہم نے تو جاکر نرم، گرم بستر میں لحاف اوڑھ کر سوجانا ہے اور اسے یہاں بیٹھ کر ” ہجر کی رات“ کاٹنی ہے حالانکہ ہم دونوں ایک ہی ریاست کے شہری ہیں اور یکساں حقوق ا آئین میں درج ہیں جس کے تحت قومی ادارے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
 ہم خیالات میں کھو کر تاریخ کے اوراق پلٹنے لگے تو ہمیں قبل مسیح کی وہ اورنٹیئل ریاستیں یاد آگئیں تو ماضی قدیم میں طاقت کی بنا ء پر قائم ہوتی تھیں جنکا ذریعہ معاش زراعت اور غلامی ہوا کرتا تھا جس میں دو طبقات پائے جاتے تھے اک امیر اور دوسرا غریب آخر الذکر کاکام نہریں تعمیر کرنا ، ڈیم بنانا ، انکی مرمت کرنا او رنظام آبپاشی کو درست رکھتے ہوئے سیلاب کی روک تھام کرنا تھایہ سارا کام وہ غلام کرتے تھے جوفاتح بادشاہ کی ریاست میں رعایا بنتے ۔

دوسرا طبقہ امراء اور صاحب ثروت کا ہوا کرتا یہ افسر شاہی پر بھی مشتمل ہوتا جن کاکام اس افرادی قوت کو کنٹرول کرنا اس سے کام لینا ہوتا تھا اس طرز کی ریاست میں پسماندہ اور کسان طبقہ ہمہ قسم کے ٹیکس ادا کرتا اور ہر طرح کی مصیبت برداشت کرتا مگر وسائل پیدا کرکے بادشاہ کے حوالے کرتا چونکہ اس ریاست میں کوئی سیاسی حقوق نہیں ہوتے تھے اس لیے کوئی جبر کے خلاف ٓٓآوازارنہیں اٹھا سکتا ساری آمدنی کا وارث بادشاہ ہی ہوا کرتا تھا۔

بزرگ کو دیکھ کر یوں لگا ہم بھی مذکورہ ریاست کے شہری ہیں
اس بزرگ کی حالت زار دیکھ کر یہ اخذکرنا مشکل نہ تھاکہ یہ بزرگ بھی اک غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے جسکی سزا اسکی اولاد کو بھی مل رہی ہے محدود وسائل بچوں کو تعلیم دلوانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں اس لئے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ معاشی ناہمواری کا یہ نظام غلام ابن غلام کو جنم دے رہا ہے۔

یہ کہانی محض اس بزرگ کی نہیں آپ کو سینکڑوں عمررسیدہ افراد اس دھرتی پے ملیں گے جو موسم کی شدت اور حدت کو خاطر میں لائے بغیر دن رات دو وقت کی روٹی کیلئے محنت کے نام پر مشقت اٹھارہے ہیں جبکہ انکی یہ عمر قطعی آرام کرنے کی ہے سینئر سیٹزن کے نام پر پالیسی تو ہر حکومت مرتب کرتی اس کے چرچے بذریعہ میڈیا بھی خوب ہوتے ہیں لیکن عملاً یہ حقائق سے دور دکھائی دیتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ آرڈیننس کے تحت بزرگوں کی فلاح و بہبود کیلئے اولڈ ایج بینیفٹ ادارہ کام کررہا ہے لیکن اس سے مستفید ہونے کی صرف اک ہی صورت ہے کہ پرائیویٹ کمپنی کے مالکان اپنے ملازمین کو ادارہ کے ساتھ رجسٹرڈ کروائیں اگر کوئی کمپنی کم از کم پانچ ملازمین پر مشتمل ہے تو وہ اس ادارہ کے ساتھ رجسٹر ہوکر اپنے ملازمین کو پنشن و دیگر مراعات کی سہولت انہیں فراہم کرسکتی ہے۔

دولت صرف اپنے لیے سمیٹنے کا ہمارا مزاج جس طرح فروغ پا چکا ہے ا س طرح پرائیویٹ کمپنی مالکان بھی اس سے” فیض یاب“ ہونے اور آخری دمڑی بچانے کی آخری کوشش تک جاتے ہیں۔
اگرچہ کپتان کی حکومت نے موسم شدت کو دیکھ کر شلٹر ہاؤسز کے قیام پر توجہ دے کر اچھا قدم اٹھایا تو اسے ان بزرگوں کی بے بسی کی طرف بھی اپنی پالیسی کا رخ موڑنا چاہیے جو اس بزرگی میں محنت کا دکھ اٹھا رہے ہیں۔
آخر ہمارا مقتدر طبقہ ”اورنٹیل ریاستوں “کے ماحول کو تبدیل کرنے پر کیوں آمادہ نہیں ،جن غرباء کے نام پر قرض لیا جاتاہے ان کی حیاتی کو سہل نہ بناکر ہم کس جمہوریت کی خدمت کر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :