کشکول

جمعہ 25 جنوری 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہماری سرکار ان دنوں زیرعتاب ہے نوزائیدہ حکومت کو کسی نہ کسی نئی صورت کا سامنا رہتا ہے اور ناگہانی کیفیت میں کچھ اضافہ وزراء کرام کی ” شگفتہ شگفتہ “ بیان بازی سے ہی ہوجاتا ہے یہ صاحبان باکمال لوگ لاجواب سروس کا عملی ثبوت پیش کرنے کی اپنی طرف سے پوری کاوش کرتے ہیں لیکن معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
ہمارا ہی نہیں پوری قوم کا یہ خیال تھا کہ کپتان جس جذبہ جمہوریت سے اقتدار پے براجمان ہونے کیلئے بے تاب ہیں انہو ں نے اپنی متوقع ٹیم کی امور مملکت چلانے کے اعتبار سے پوری ٹریننگ کررکھی ہوگئی یہ تمام تر صلاحیتوں سے ” مسلح “ ہوں گے، اب تلک کی ان کی” حسن کارکردگی“ کو دیکھ کر دکھائی یوں دیتا ہے کہ یہ سب سراب تھا رفتہ رفتہ انکی بھی خوش فہمی غلط فہمی میں بدل رہی ہے جو ” تبدیلی “ کیلئے آنکھیں فرش راہ کیے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)


واقعہ ساہیوال نے تو بڑے صوبہ کی ” گڈ گورننس “ کی ہنڈیا کو بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے۔ کپتان کی نظر کرم جن گوہر نایاب شخصیات پے اٹکی تھی وہی آہستہ ٓا ہستہ پتھر ثابت ہونے کے قریب تر ہیں، ان میں اک نام ہمارے وزیر خزانہ کا بھی ہے، اقتدار کے زینہ پے قدم رکھنے سے قبل انکا طوطی بول رہا تھا اسکا اک سبب تو بڑے باپ کا بیٹا اور سابق گورنر کا بھائی ہونا بھی تھا، انکی ذہنی ، علمی قابلیت کی مثالیں پیش کرنے والے انہیں ماہر معیشت ثابت کرتے ،خود موصوف بھی ٹاک شوز میں سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو حرف تنقید بناتے، انکا واضح پیغام بھی تھا کہ اگر انہیں اس منصب پر قومی فریضہ انجام دینے کا نادر موقع ملا تو وہ پسماندہ طبقات کی زندگی میں آسودگی لاکر ماضی کی ساری حماقتوں پے لکیر پھیر دیں گے اب تلک کی انکی کارکردگی نے ان کے بارے میں تمام اندازوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔


اس وقت بشمول کپتان ساری سرکاری مشینری قوم کو ”اچھا وقت“ آنے کی امید دلانے میں مصروف ہے، ہمارا گمان تھا کہ شہرت یافتہ وزیر خزانہ نے پہلے سے بھاری بھر ہوم ورک قومی معیشت کے بارے میں کررکھا ہوگا اور کرسی وزارت پر بیٹھتے ہی ایسے شاہی فرمان جاری کریں گے کہ جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی دکھائی دیں گے لیکن وہ باہر کی دنیا کے برعکس اپنی عوام ہی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے ڈالر نے انہیں ٹرک کی بتی کی طرح پیچھے لگالیا جس کے بڑھنے اور روپیہ کی قدر کم ہونے کی مذمت وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے کیا کرتے تھے۔


ہمارا کامل یقین تھا کہ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کی طرح معاشی میکانزم کا ڈھانچہ مرتب کررکھا ہوگا جس کی وساطت سے معاشی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا زیادہ آسان ہے جہاں سرمایہ کاری سے لے کر تجارت تک سرکار کی نظر سے اوجھل نہیں ہوسکتی ۔لین دین کے کاروبار کی ساری ” ڈاکو مینٹیشن“ کا سانچہ وہ بیک جنبش قلم نافذ کریں گے کہ سمگلنگ ، بھتہ خوری، بدعنوانی، ازخود اپنی موت آپ مرجائیں گی، اک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو جانے والا پیسہ سرکار کے علم میں از خود آتا جائے گا۔

فی زمانہ تو تیسری دنیا کے ممالک نے اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے کر ان تمام معاشی برائیوں پر قابو پالیا ہے جو اب تلک ہمارا درد سر بنی ہوئی ہیں، جہاں تمام تر ادائیگیاں بذریعہ بنک یا کریڈٹ کارڈ ہی ممکن ہیں لیکن موصوف تاحال منی لانڈرنگ کے جرم کی لکیر پیٹنے میں مصروف ہیں ان کے نزدیک یہی بڑی ” قومی خدمت “ ہے حالانکہ مذکورہ خطوط پر معیشت کو ڈالنے کیلئے کسی بڑی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔


انکی شبانہ روز محنت کا ثمر آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کی صورت میں برآمد ہورہا ہے روپیہ کی قدر، برآمدات میں کمی ان کے” احسن“ معاشی اقدامات ہیں جس کے پیچھے قوم کو صبر کرنے کی تلقین بھی ہے۔
اس وقت وہ قوم کو مزید مقروض کرنے کی کاوش میں مصروف ہیں ان کے خیال میں مالی خسارہ سے نکلنے کے مروجہ طریقہ کار میں سے اک سنہری طریقہ کار قرض مانگنا بھی ہے، اسی مقصد کیلئے وہ کشکول اٹھائے اسلامی ممالک کی یاتراپر ہے لیکن اس کے باوجود اک مالی سال میں تین ضمنی بجٹ کا پیش ہونا انکی اعلیٰ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


موصوف ہی نہیں ہمارا مقتدر طبقہ ہمیشہ سے اس طرز معیشت کو فروغ دینے پر صلاحیتیں صرف کرتا رہا ہے جس کی ناکامی اب نوشتہ دیوار ہے عہد حاضر میں ہزاروں متاثرین سڑکوں پر اس معاشی نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے ہیں جسے دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتی ہے، یہ نظام نہ صرف عام شہری پر عرصہ حیات تنگ کردیتا ہے بلکہ لیز پر لی جانے والی تمام اشیاء حتی کہ گھر سے بھی محروم ہونا مغرب کے باسیوں کا مقدر ٹھہرتا ہے نیز دنیا کے چند افراد ہی امارت کا مزہ لے سکتے ہیں، اس میں ہی عافیت ڈھونڈ نا کونسی دانشمندی ہے؟
اسلامی ممالک کی اک غالب تعداد اس کرہ ارض پے موجود تو ہے لیکن ہم کسی ریاست پے انگلی رکھ کر کہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس ریاست کے باسی اسلامی معاشی نظام کی فیو ض و برکات سے مستفید ہورہے ہیں۔


یہ اسی کا فیض ہے کہ نسل نو سرے سے ہی اسلامی معاشی نظام کے فوائد سے نابلد ہے اور وہ بھی عالمی سطح پر رائج معاشی نظام میں پناہ ڈھونڈتی ہے حالانکہ اس کے نفاذ سے سب سے زیادہ آسودگی پسماندہ طبقہ کو حاصل ہوتی ہے، تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو یہ نظام اسلامی ریاستوں میں نافذ العمل رہا ہے جہاں اک وقت ایسا بھی آیا کہ دولت سے آسیر شہری زکوٰة لینے سے ہی انکاری تھے یہ ریاست کئی ہزار مربع میل پر محیط رہی جس میں نوزائیدہ بچے کا وظیفہ روز اول ہی سے شروع ہوجاتا جس پے آج مغرب نازاں ہے۔


ہمارے ہاں علماء کرام ،مذہبی جماعتوں، اہل دانش و حکمت کی جانب اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کا باضابطہ مطالبہ تحریک کی صورت میں کبھی سامنے نہیںآ یا ہے۔ سودی نظام سے نفرت سبھی کرتے ہیں لیکن رائج نظام کی بدولت دینے پر مجبور بھی ہیں اس وقت ہماری سرکار کے قومی ذرائع آمدنی میں سے قابل ذکر قومی پیداوار ، برآمدات اور تارکین کی آمدن سے زرمبادلہ اور ٹیکس ہیں زکوٰة اور عشر کا باضابطہ نظام موجود نہ ہونے کے باوجود اسکی مالیت کا حجم اربوں روپیے سالانہ ہے جبکہ اسکی ادائیگی مذہبی فریضہ کا فہم رکھنے والے ہی کرتے ہیں۔


ہماری ہی نہیں یہ قوم کی بھی خواہش ہے کہ انہیں سودی نظام سے چھٹکارا دلا کر قومی معیشت کو اسلامی نظام کے سانچے میں بدل دیا جائے اسکا آغاز تجرباتی طور پر ملک کے کسی ایک خطہ سے کیاجاسکتا ہے اور پھرتجربہ سے فائدہ اٹھا کر پورے ملک کے نظام معیشت کو اسلامی معیشت کے قالب میں اسکی روح کے مطابق ڈھال دیا جائے۔
وزیر موصوف جس سرکار کے وزیر باتدبیر ہیں اس نے روز اول ہی سے طرز حکومت کیلئے مدینہ کی ریاست کا ماڈل سامنے رکھا ہے بھلا اسکی تکمیل اسلامی نظام معیشت کے بغیر کیسے ممکن ہے ؟جو نہ صرف وزیر خزانہ بلکہ پوری سرکار کو کشکول سے نجات دلا کر خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرے گی پھر ہمارا شمار قرض لینے کی بجائے دینے والوں کی فہرست میں ہوگا آزمائش شرط ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :